حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ
اور ذکر کرتے رہو اللہ کا ان خاص ایام میں جو معین اور مقرر ہیں پھر جس نے جلدی کی دو ہی دنوں میں تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے تاخیر کر دی تو اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں اس کے لئے جس نے تقوی کیا اور تقوی بھی اللہ کے لئے کرو اور جان رکھو کہ تم سب اسی کی طرف اُٹھائے جاؤ گے”۔
آیت کا عمود اللہ کا ذکر ، اتقاء کی تحفیظ ، تقوی اور شعور روحانی کی حفاظت ہے اور ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔ یہ وہ ایام ہیں جن میں دوران حج منیٰ کے اندر قیام کیا جاتا ہے ۔ زور قیام کے دوران اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے میں ہے ۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ تمام حاجی خلاف عادت دو چادروں میں ملبوس ہوتے ہیں ، بلاشبہ ان کا احرام ان میں مذہبی شعور کو غالب کئے ہوتا ہے لیکن پھر بھی فطری بات ہے ان میں جلدی ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے مناسک کی ادائیگی سے فارغ ہوں اور پر سکون زندگی کی عبادتوں میں لگ جائیں۔ دوسری طرف بڑے اجتماعات کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہٹو بچو، ادھر ہو جاؤ، ادھر ہو جاؤ اور پہلے پیچھے کا ہنگامہ کسی حد تک ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ آیت حاجیوں میں مقصد حج کو اُجاگر کرتی ہے کہ اللہ کا ذکر کر و فضول باتوں میں نہ پڑو، طبیعتوں میں ٹھہراؤ پیدا کرو اور منیٰ کے قیام کو بھاری اور گراں نہ سمجھو۔ یہاں سے بھا گنا مقصود نہیں ، رک کر تاریخ محبت کے ہمرکاب ہونا مقصود ہے۔ گویا تم لوگوں میں بیزاری اور گھبراہٹ نہیں ہونی چاہئے ، عشق ، اطاعت اور بندگی ہونی چاہئے۔ ایام معدودات کی اصطلاح روزوں کے لئے قرآن نے استعمال کی یعنی جیسے روزے چند دن ہی تو ہوتے ہیں، صبر و سکون سے عبادت کی اصل پر نظر رہنی چاہئے ۔ یہاں بھی منیٰ کا قیام چند دن ہی تو ہے ان میں زور کثرت سے اللہ کا ذکر پر رہنا چاہئے ۔ تقوی کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں ۔ ” واعلموا ۔جان لو کے بعد میدان محشر کی یاد کروائی گئی گو یا اشارہ اس طرف کیا گیا کہ یہ اجتماع بھی روز محشر کی طرح ہے مجاز میں حقیقت کو متحرک کرنا ایک خوبصورت اسلوب ہے۔
ایام تشریق میں نماز کے بعد تکبیرات پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں (289) :
الله اکبر اللہ اکبر
لا اله الا الله والله اكبر
الله اكبر ولله الحمد
ایک بار تکبیر پڑھنا واجب ہے اور اس سے زیادہ پڑھنا مستحب ۔ ان اذکار کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت، نمازوں پر پابندی، درود شریف کی کثرت اور دھیان کا اسم ذات کی طرف رہنا۔ ابراہیم خلیل کی سپاس گذاری، اسماعیل علیہ السلام کا جمال کردار اور حضور ؐ کی دعوت توحید اور دعوت اسلام اور دینی دعوت کا احیاء یہ سب باتیں اللہ کا ذکر ہی ہیں۔ توجہ ان پر کوئی پابندی نہیں۔ حضور ؐنے عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ منیٰ میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھے ، یہ کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کا دن ہیں ۔ ایک مرسل روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لئے یہ زائد نیکی ہے (290)۔
انہی ایام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ؐکے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو گئے اور آپ نے حکم سنایا کہ لوگو! یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کرنے کے دن ہیں (291)۔
امام احمد نے ابو نضرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول ؐنے ایام تشریق میں فرمایا (292): ’’ سنو تم سب کا رب ایک ہے۔ کسی عربی کو بھی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پراور کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں حاصل مگر تقوی سے فضیلت ہے۔ یہاں ایک روحانی لطیفہ نقل کرنا چاہوں گا کہ طبائع کا بغض انسان کو بام عروج سے دور کا جا پٹختاہے۔ تبیان القرآن کے مؤلف نے یہ حدیث نقل کر کے نکاح سید مع غیر سید کا مسئلہ جا لکھا اور فراموش کر گئے کہ اس مسئلہ کا اس آیت کی تفسیر سے کیا تعلق ہے اور یہ بھی ذہن میں نہ رہا کہ روزانہ نماز میں آل محمد پر درود پڑھتے ہیں ایسا کرنا بغیر کسی فضلیت ہی کے ہوگا ؟ (293)۔
قرآن مجید کی آیت کی تفسیر وتعبیر لکھنا مدینہ شریف میں اللہ نے نصیب کی ۔ ظہر کا وقت ہے میں بھی نماز کے لئے اوراق سمیٹ رہا ہوں ۔ ہوٹل انوار مدینہ کے کمرہ نمبر 5025 سے روضہ شریف کی زیارت ہو رہی ہے۔
زائرین آیئے سلام عرض کرتے ہیں:
الصلوة والسلام علیک یا سیدی یا رسول الله
الصلوة والسلام علیک یا سیدی یا حبیب الله
الصلوة والسلام علیک یا سیدی یا مولای
يا حبيب الله وعلى الک واصحابک یا رسول الله