467

فلسطین و اسرائیل میں چند روز

مکتوب لندن
وجاہت علی خان
مرقد انبیاء کی سرزمین اور قبلہ اوّل فقط مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بھی مقدس ترین ہے آج کے فلسطین اور اسرائیل کا یہ تمام خطہ ان تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو اعتقادی طور پر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مثلاً مسجد اقصیٰ جہاں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی امامت میں تمام نبیوں نے نماز ادا کی ہے‘ ڈوم آف دی راک جہاں سے رسول اللہؐ جبرائیل ؑکے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے عرش پر گئے ہوں‘ جہاں کئی نبیوں نے نوافل ادا کئے ہوں‘ جہاں رسول اکرمؐ نے براق کو باندھا ہو‘ جہاں حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت اسحٰقؑ حضرت یوسفؑ‘ حضرت یعقوبؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے مزارات ہوں‘ یہودیوں کا تین ہزار سال پرانا قبرستان ہو یا عیسائیوں کا بیت اللحم میں پرانا اور مقدس ترین چرچ اور دیگر مذہبی یادگاریں ہوں تو پھر اس ارضِ مقدس کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ مہینے کے آخر میں مجھے فلسطین و اسرائیل میں آٹھ روز گزارنے کا موقع ملا۔ بنیادی طور پر یہ وزٹ برطانیہ کی ایک ’’این جی او‘‘ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیراہتمام تھا جس کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کا مطمع نظر اسرائیلی مظالم کے شکار اپنے مفلسطینی مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا تھا۔ اس دورے کی تفصیل سے پہلے اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ بعض سیاسی معاملات پر نظر کی جانی ضروری ہے۔ دنیا کے نقشے پر یہ ایک چھوٹا سا خطہ سینکڑوں سال سے جنگ و جدل کی لپیٹ میں رہا ہے۔ جسے کبھی حضرت عمر فاروقؓ نے فتح کیا‘ کبھی بخت نصر نے یہودیوں کو یروشلم سے نکالا تو کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے کئی ایک صلیبی جنگوں کے بعد اسے فتح کر کے اسلام کا جھنڈا اس خطے پر بلند کیا۔
محلِ وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحرِ مردار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے۔ اس کے شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں جبکہ مغرب میں بحیرہ روم کا وسیع ساحل پھیلا ہوا ہے۔ فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت 27 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ فلسطین کے طبعی جغرافیائی علاقوں میں فلسطین کا طویل ساحل جو ناتورہ سے لے کر رفع تک جنوب میں پھیلا ہوا ہے اس ساحل کے مشہور شہروں میں جن میں سے کئی ایک میں ہمیں جانے کا موقع بھی ملا‘ ان میں رملہ‘ الخلیل‘ نابلس‘ خان یونس‘ طولکرم‘ عقا‘ یفاء اور نمرہ ہیں۔ اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بھی یافا کے شمال میں یروشلم کو بنایا ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں نابلس‘ کرمل‘ الخلیل اور القدس کے پہاڑی سلسلے مشہورو معروف ہیں۔ الخلیل میں حضرت ابراہیم‘ حضرت اسحٰق اور حضرت یوسف کے مزارات ہیں۔ القدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے جس میں بیت المقدس کا علاقہ ہے۔ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ بھی اسی شہر کی رونق و زینت ہیں۔ میدانی علاقوں میں نقب اور اغوار کے علاقے شامل ہیں۔ اغوار فلسطین کا مشرقی علاقہ ہے جسے دریائے اردن کاٹتا ہے اور بحرمردار بھی اسی کے کنارے واقع ہے۔ اسی علاقے میں اریحا نام کا شہر بھی آباد ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا کا سب سے قدیم شہر ہے۔
یہودی ایک ایسی قوم ہیں جنہوں نے گزشتہ چار ہزار سال اپنی بقاء کیلئے سینکڑوں مظالم‘ ہزاروں انتشار‘ شکست و ریخت‘ ذلت‘ پستی اور دیس نکالا برداشت کیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسے کوئی بخت نصر‘ کوئی وشپاشین‘ کوئی ہٹلر‘ کوئی بڑے سے بڑا قتل عام‘ استحصال‘ بربریت‘ لوٹ کھسوٹ اور نفرت کلی طور پر کچل نہیں سکی۔ یہ دنیا کے تمام مذاہب سے ٹکرائے لیکن اپنے تصور و ایمان کو مرنے نہیں دیا کیونکہ ان کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ’’بنی اسرائیل کو خدا (یہودہ) نے تمام اقوام عالم سے برگذیرہ ٹھہرایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اس وحدت‘ یکجہتی‘ پامردی اور کمال کا دعویٰ نہیں کر سکتی جو بنی اسرائیل کو نصیب ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پستی‘ بدکرداری‘ تنگ نظری‘ تعصب اور ذلت کا مظاہرہ بھی کوئی دوسری قوم نہیں کر سکتی جسے اس قوم یعنی بنی اسرائیل نے اپنا شعار بنا کر بنی نوع انسان کے خون میں زہر کی طرح داخل کیا اور آج یہ مظلوم فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ ہٹلر نے جرمنی میں لاکھوں یہودیوں کو مار کر جرمنی کو ان سے چھٹکارا دلانا چاہا لیکن اس کا یہ خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوا لیکن یہودیوں نے ہٹلر کا نام رہتی دنیا تک ایک وحشی درندے کے طور پر محفوظ کر دیا ہے۔ یہودیوں نے امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ کے بڑے اشاعتی اداروں‘ اخبارات‘ ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ ساتھ سگریٹ ہو یا شراب کشید کرنے سے بیچنے تک کے ذرائع‘ بڑے بڑے بنک ہوں یا ہوٹل اور کیسینو یہ سب انہوں نے اپنے تسلط میں کر لئے ہیں۔ گویا بڑے بڑے ملکوں کی معیشت و معاشرت اور اسلحہ ساز کمپنیاں یہ سب پنجئہ یہود میں ہیں اور علامہ اقبال نے تو کوئی آٹھ دہائیاں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ
فرہنگ کی رگِ جاں پنجہ ء یہود میں ہے
20 ستمبر کو براستہ استنبول اسرائیل کے تل ابیب ہوئی اڈہ پہنچے تویک دم محسوس ہوا کہ ایئرپورٹ دنیا کے دیگر ایئر پورٹس جیسا نہیں ہے۔ ایک عجیب سی خاموشی اور خوف کی فضا ہے۔ زیادہ تر لوگ معنی خیز نظروں سے ہم جیسے چہرے والوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی طرح یہاں نہ تو زیادہ رش تھا اور نہ ہی لوگ اپنے اپنے حال میں مست تھے۔ یوں لگتا تھا ہر شخص بلکہ درودیوار بھی ہماری طرف مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ خوف اور احساس ہمارے اندر کا بھی ہو سکتا تھا لیکن یہ حقیقت تھی کہ تل ابیب ہوائی اڈہ دیگر دنیا کے ایئرپورٹس کی طرح ہر گز نہیں تھا‘ اپنا اپنا سامان بیلٹ سے اٹھانے کے بعد امیگریشن کائونٹر پہنچے تو آفیسر کی عقابی نگاہوں نے سرتاپا ہمارا جائزہ یوں لیا جیسے ذبح کرنے سے پہلے قصائی کھونٹے سے بندھی گائے کا جائزہ لیتا ہے۔ لندن میں اسرائیلی سفارتخانے میں ایک دوست کے توسط سے ہم تینوں کے پاسپورٹ کی کاپیاں چند روز قبل یہاں پہنچ چکی تھیں اور یقیناً امیگریشن والوں نے ہماری معلومات کمپیوٹر میں فیڈ کر رکھی تھیں اس لئے دو ایک سوالات کے سوا ہمیں انٹری ملنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی اور ہم ’’سالم‘‘ ہی امیگریشن سے نکل کر باہر لائونج میں ٹیکسی کا سائن دیکھتے ہوئے باہر آگئے اور یہاں سے ہمارا نبیوں کی سرزمین کا سفر شروع ہوا۔ ٹیکسی رینک میں ترتیب سے گاڑیاں کھڑی تھیں ان کے شروع میں ایک سرکاری کائونٹر بنا تھا جس کے باہر ایک باوردی خاتون کھڑی تھی جو ٹیکسی ڈرائیور کی باری آنے پر گاہک کے ہاتھ میں ایک چٹ تھما دیتی تھی۔ ہمیں بھی یہ چٹ پکڑا دی گئی۔ ڈرائیور نے سامان ٹیکسی میں رکھا‘ ہمارا ایڈریس نیویگیٹر میں ڈالا اور بغیر میٹر آن کئے چل پڑا۔ صاف ستھری سڑکیں لیکن انتہائی سے زیادہ سنسان آس پاس اونچی نیچی پہاڑیاں اور ان پر ترتیب سے بنے مکانات اور اونچی بلڈنگز عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ عبدالرزاق ساجد‘ راجہ فیض سلطان اور میں خود نیم وا آنکھوں سے ایک ہی سوچ مدغم تھے کہ کیا یہی وہ پاک سرزمین ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص اور منفرد دعوت پر حضورؐ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا اور پھر یہاں سے ساتویں آسمان تک کی سیر ’’عالم برزخ کا مشاہدہ‘‘ عالم حشر کے سماں کا نظارہ کراتے ہوئے انہیں خالق کائنات سے بلافضل ملاقات کا شرف حاصل ہوا!!
ڈرائیور نے ہمارے استفسار پر بتایا کہ اسرائیل میں جمعہ اور ہفتہ کی چھٹی ہوتی ہے ہمارا ویک یعنی کام کا پہلا روز اتوار کو سٹارٹ ہوتا ہے۔ ڈرائیور یہودی تھا اس نے بتایا کہ ہمارے لئے ہفتہ مقدس دن ہوتا ہے۔ آج کیونکہ جمعہ ہے اس لئے ہر چیز بند ہے حتیٰ کہ کوئی چھوٹی سی دکان بھی کھلی نہیں۔ ہمارا قیام یروشلم کے اس علاقے میں تھا جہاں 100% آبادی یہودیوں کی تھی یہ جگہ کیونکہ القدس سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلہ پر تھی اس لئے ہم نے اس جگہ کو ترجیح دی تھی۔ تل ابیب ایئرپورٹ سے ڈرائیور کے مطابق یہ جگہ کوئی 50 منٹ کی ڈرائیو پر تھی ہمیں انبیاء کی سرزمین کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی مسرّت تو تھی اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس کی قدیم تاریخ کو جاننے کی خواہش بھی تھی۔ القدس جسے انگریزی میں یروشلم (Jerusalem) کہا جاتا ہے اس شہر کی اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کی خواہش جو صدیوں سے مختلف مذاہب کو ماننے والوں کا قبلہ چلی آرہی ہے‘ اس شہر یروشلم کے دونوں حصے (نیا اور پرانا) دیکھنے کی تمنا‘ نئے شہر میں تو ہر وہ چیز ہے جو جدید شہروں میں ہوتی ہے لیکن پرانا یروشلم جس کے چاروں طرف اونچی قدیم اور مضبوط ترین فصیل کا احاطہ ہے اور اسی فصیل کے اندر تمام وہ مقدس مقامات مسجدِ اقصیٰ اور قدیم چرچ واقع ہیں۔ کوئی پچاس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم منزل مقصود پر پہنچے تو اس پاک دھرتی پر پہلا ناخوشگوار تجربہ جو ہمیں ہوا وہ اس یہودی ٹیکسی ڈرائیور کا ہم سیاحوں کو لوٹنا تھا۔ اگلے روز ہمیں ایک اور ٹیکسی ڈرائیور سے پتہ چلا کہ اُس ڈرائیور نے ایئرپورٹ سے پہاں تک ہم سے چار گنا کرایہ وصول کیا تھا یہ سن کر ہمیں یہودیوں سے نفرت سی ہونے لگی لیکن اگلے چند روز میں کئی مسلمان‘ عیسائی ٹیکسی ڈرائیوروں اور دکانداروں سے مل کر اس نفرت میں سبھی شامل ہو گئے۔ ہم پہ آشکار ہوا کہ اس ’’مقدس القدس‘‘ میں عیسیٰؑ‘ موسیٰؑ اور یعقوبؑ کو ماننے والے جو بھی ہمیں ملے سبھی چور تھے۔
اسرائیل کے زیرتسلط علاقوں کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش تھی کہ فلسطین یا ویسٹ بنک کے ان علاقوں میں جایا جائے جہاں اسرائیلی افواج اور نہتے فلسطینیوں یا حماس کے گوریلا گروپس کے مابین جھڑپوں میں فلسطینی اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ عبدالرزاق ساجد اپنی چیریٹی کے پلیٹ فارم سے ان فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتے تھے حالانکہ ہمیں بتایا گیا کہ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ دوسرا یہ کہ جب ہم ان علاقوں سے واپس اسرائیلی علاقے میں داخل ہوں گے تو چیک پوسٹ پر ہم سے کڑے سوالات کئے جا سکتے ہیں لیکن ہم نے بھی کڑا ارادہ کر لیا کہ وہاں جا کر رہیں گے‘ ہماری پہلی منزل یروشلم سے نابلس تھی۔ ہم ٹیکسی میں ویسٹ بنک کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں جیراکو‘ رام اللہ‘ ایریل اور دیگر کئی شہر آئے۔ شہر کے اندر پہنچے تو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ ہم ایک لندنی دوست کے توسط سے یہاں ایک فلسطینی سے ملاقات کے لئے آئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا اس لئے ہمارا یہ فلسطینی میزبان شہر کے وسط میں ہمیں ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں لے گیا۔ پُر تکلف کھانے کے دوران ہم نے دیکھا کہ یہ بالکل یورپی ماحول ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لباس کی وضع قطع سے بالکل نہیں لگتا تھا کہ یہ خطہ حالت جنگ میں ہے۔ لڑکیاں سرعام شیشہ (حقہ) پی رہی تھیں‘ نابلس میں چہل قدمی کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ ہم کسی یورپی شہر میں گھوم رہے ہیں۔ میکڈانلڈ سے لے کر دنیا کے ہر برانڈ کی فوڈ چین اور شاپنگ مال یہاں موجود تھے۔ برانڈڈ شاپس اور نئے ماڈل کی بیش قیمت گاڑیاں یعنی بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز عام دیکھی جا سکتی تھیں غرضیکہ غربت نام کی کوئی چیز ہمیں وہاں دکھائی نہیں دی۔ مجموعی طور پر نابلس اور ویسٹ بنک کے دیگر شہر بظاہر تو خوشحال ہی نظر آتے تھے لیکن ہمارے میزبان کے مطابق ان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کی پوری ریاست عملاً اسرائیلی یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ حتیٰ کہ فلسطینی شہروں میں پولیس یوں تو مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن بنیادی طور پر یہ بھی اسرائیلیوں کے ٹائوٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ یروشلم ہو یا اسرائیل کا کوئی دوسرا شہر یہاں سے فلسطین کے کسی بھی علاقے میں بلاجھجک آیا جایا جا سکتا ہے لیکن فلسطینی مسلمان اسرائیل نہیں جا سکتے۔ انہیں صرف رمضان اور جمعہ کے روز بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کا ایک اور مسئلہ جو سب سے زیادہ قابل مذمت ہے کہ ان کے پاس اپنا پاسپورٹ نہیں ہے‘ اسرائیل کے مسلمان ہوں یا فلسطین کے ان کے پاس ترک‘ اُردن یا مصر کے پاسپورٹ ہیں لیکن یہ پاسپورٹ فلسطینیوں کو صرف ٹریول کیلئے دیئے گئے ہیں۔ یہ مذکورہ ممالک کی شہریت نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی اجازت تو ہے لیکن نماز کے بعد دعا نہیں کرائی جا سکتی! وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ دعا کے ذریعہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جذبات ابھار سکتے ہیں۔
نئے یروشلم میں جہاں ہم مقیم تھے یہاں سے فصیل کے اندر کا پرانا شہر دو سے اڑھائی کلومیٹر دور تھا۔ اس قدیم شہر سے کوئی آٹھ کلومیٹر جنوب کی طرف بیت اللحم واقع ہے اس نام کے لغوی معنی تو گوشت کا گھر بنتے ہیں لیکن یہ چھوٹا سا گائوں پوری دنیا کے عیسائیوں کے لئے مقدس ترین ہے کیونکہ یہاں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی تھی۔ بیت اللحم نام کی یہ بستی بھی فلسطین کے علاقہ میں ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑکی جائے پیدائش کے اوپر صلیب کی شکل کا ایک چرچ بنا ہوا ہے۔ اس پورے گائوں کے اردگرد سفید پتھروں کی فصیل تعمیر کی گئی ہے۔ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ایک روایت کے مطابق حضرت دائود کی پیدائش بھی اسی جگہ ہوئی تھی۔ اس بستی کے تقریباً تمام رہائشی مسیحی ہیں جن کی گزر اوقات زائرین کی آمد پر ہے۔ یہ علاقہ بھی کبھی اردن میں شامل تھا۔ 1967ء کی جنگ میں اسی علاقے پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا‘ دیکھا جائے تو اسرائیلی قبضے کے باوجود بیت المقدس کے سوا زیادہ تر نبیوں کے مزارات اور مقامات مقدسہ آج بھی فلسطینی علاقوں میں واقع ہیں۔ اسرائیل میں ہمارے ایک میزبان نے بتایا کہ غزہ جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں حماس اور اسرائیلی فورسز کے مابین جھڑپیں معمول کی بات ہے۔ چنانچہ خطرے کے پیش نظر ہم بھی وہاں نہیں جا سکتے لیکن اس کے باوجود المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے غزہ کی پٹی کے آس پاس اور ویسٹ بنک کے جنگ زدہ علاقوں میں جانے کا ارادہ کیا اور وہاں موجود اپنی ٹیم کو بھی الرٹ کر دیا اور پھر کھانے پینے کی اشیاء‘ ادویات اور جہاں جہاں نقد امداد کی ضرورت تھی مظلوم اور ضرورتمند بے آسرا فلسطینی مسلمانوں کی بے دریغ مدد کی حالانکہ یہ کام انتہائی خطرناک تھا کیونکہ اگر اسرائیلی اتھارٹی کو اس کی بھنک بھی پڑ جاتی تو ہم سب کے لئے مسائل پیدا ہو جاتے۔ ویسٹ بنک میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کا چیریٹی کیلئے کام پہلے سے جاری ہے اور اسی ٹیم کی وساطت اور کوششوں سے فلسطینی مسلمانوں کے لئے کی گئی یہ کوشش کامیاب ہو سکی۔ بظاہر تو اسرائیلی یہی کہتے ہیں کہ ہمارا ہدف فلسطینی عسکریت پسند ہیں اور حماس کے اسلحہ ذخائر ہمارے نشانے پر ہیں حالانکہ فلسطینیوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے کسی قسم کے جدید ہتھیار نہیں ہیں نہ ان کے پاس کوئی توپخانہ ہے نہ باقاعدہ فوج نہ جنگی جہاز نہ بحری بیڑے لیکن یہ سب کچھ اسرائیل کے پاس ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ جنگ نہیں بلکہ منظم نسل کشی اور قتل عام ہے لیکن حیرت ہے کہ دنیا کے 52 سے زیادہ مسلمان ملک شرمناک حد تک خاموش ہیں۔ علامہ اقبال کے بقول ’’یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر یہود بھی شرمائیں‘‘۔ برطانوی سیاست دان جارج گیلوے یقیناً ان مسلمانوں سے بہتر ہے جو کہتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ کوئی بھی عرب یا مسلمان رہنما فلسطینیوں کے قتل عام پر آواز نہیں اٹھاتا۔ وہ کہتا ہے کہاں ہے خلافت عثمانیہ کا وارث اردگان‘ عرب دنیا کے امیر ترین بادشاہ کہاں ہیں‘ کہاں ہیں سعودی عرب کے خادمین الشریفین‘ یہ مصر کے حکمران کہاں ہیں ؟ جارج گیلوے کے مطابق یہ تمام مسلمان ملکوں کے لیڈر اپنا محاسبہ کرلیں اس سے پہلے کہ کوئی تمہارا محاسبہ کرے!!
ہم تل ابیب پہنچے تو اسرائیل کے انتخابات دو روز پہلے مکمل ہوئے تھے اور ابھی موجودہ اور متوقع نئی حکومت کیلئے جوڑ توڑ جاری تھی‘ اسرائیلی وزارت خارجہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون امیرہ اردون کے ساتھ ہونے والے ایک ملاقات میں اس نے بتایا کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں 14 ارکان عرب مسلمان ہیں۔ ہم مسئلہ فلسطین کا پرامن حل چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف سے گوریلا کارروائیوں کی وجہ سے ہمیں اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ بہرکیف میں نے امیرہ کی اس دلیل اور وضاحت سے بالکل اتفاق نہیں کیا لیکن دوران گفتگو امیرہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ پاسپورٹ ہولڈر اسرائیل نہیں جا سکتا۔ اس کے مطابق ہم تو پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور اگر پاکستان چاہے تو سفارتی تعلقات بھی استوار ہو سکتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم ہی نہیں ہوئے کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر اسرائیل فلسطین سمیت دیگر عرب ریاستوں سے کچھ معاہدات کر لے تو پھر ہم اسرائیل سے اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کریںگے۔ پاکستان نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ رکھا ہے۔ 1990ء میں جب اوسلو معاہدہ ہوا تو پاکستان کا رویہ اسرائیل کے بارے میں کچھ نرم ہوا تھا۔ ان دنوں یہودی اور پاکستانی سیاستدانوں نے چند ملاقاتیں بھی کی تھیں یہ مذاکرات پاکستان اور اسرائیل کے استنبول میں قائم سفارتخانوں کے ذریعے ہوئے تھے۔ 2010ء میں ’’ویکی لیکس‘‘ کے مطابق پاکستان نے استنبول میں اپنے سفارتخانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں‘ کہا جاتا ہے کہ 1947ء میں بھی اسرائیل کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈبین گوریون نے قائداعظم کو ایک ٹیلی گرام بھی بھجوایا تھا لیکن قائد نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج ہر سال 500 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کر لیتی ہے ان میں سے کچھ کی عمر 12 سال یا اس بے بھی کم ہوتی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو سکیورٹی کے نقطہ نظر سے گرفتار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ بچے قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں‘ اسرائیل شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لئے خصوصی فوجی عدالتی قائم کی گئی ہیں۔
بیت المقدس ہماری رہائش کے بالکل پاس تھا اس لئے تقریباً روزانہ ہی ہم یہاں جاتے اور مسجد اقصیٰ سے ملحقہ مقدس مقامات بھی دیکھتے تھے۔ بیت المقدس کی تاریخ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے اور یہ شہر دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ کئی بار یہ جنگ و جدل سے تباہ ہوا اور درجنوں بار اس کا محاسبہ ہوا۔ اسی پرانے پہر کے اندر ویسٹ وال یا مغربی دیوار جسے دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے واقع ہے جو یہودیوں کے لئے مقدس ہے۔ اس دیوار تک جانے کے لئے مسجد اقصیٰ سے باہر نکل کر دائیں ہاتھ مڑیں تو تنگ گلیوں سے گزر کر پانچ منٹ پیدل چلیں تو یہ دیوار واقع ہے جہاں جانے سے پہلے ایک پولیس پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے جہاں کڑی تفتیش کے بعد آگے تک جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہودیوں کا یقین ہے کہ 70ء کی تباہی کے بعد ہیکل سلیمانی کی دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی آکر آہ و زاری کرتے تھے۔ اسی لئے اسے دیوارِ گریہ کہا جاتا ہے جبکہ مسلمان اسے دیوار براق کہتے ہیں کیونکہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دائیں طرف وہ جگہ ہے جہاں نبی اکرمؐ نے معراج پر جانے سے پہلے براق باندھا تھا چنانچہ یہ دیوار باہر کی طرف سے یہودیوں کے لئے متبرک ہے۔ ہیکل سلیمانی درحقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی جو یہودی نقطہ نظر سے حضرت سلیمانؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جنات سے تعمیر کروائی تھی تا کہ لوگ اس کے اندر یا اس کی طرف سے منہ کر کے عبادت کر سکیں۔ ہیکل سلیمانی سے پہلے یہودیوں کے پاس کوئی باقاعدہ عبادت گاہ نہیں تھی یا اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان کی زندگی خانہ بدوشوں والی تھی ان کا معبد ایک خیمہ ہوتا تھا جہاں تابوت سکینہ رکھا ہوتا تھا جس کی طرف یہودی منہ کر کے عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ کے باہر سکیورٹی پر معمور گارڈ جس کا نام بدر تھا‘ نے بتایا کہ یہودیوں نے دیوار گریہ کی طرف سے تابوت سکینہ کی تلاش میں کئی سرنگیں بھی کھود رکھی ہیں۔ آئے روز مسلمانوں و یہودیوں کے مابین کسی نہ کسی بات پر جھگڑے معمول کی بات ہے جن کے بعد اندرون شہر کا یہ سارا علاقہ سیل کر دیا جاتا ہے۔
تابوت سکینہ کی بھی ایک روایت ہے کہ یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے شمشاد کہتے ہیں اور اسے جنت سے حضرت آدمؑ کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیاء سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ ؑ تک پہنچا۔ اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ ؑ کا عصا‘ من و سلویٰ‘ حضرت سلیمان ؑ اور دیگر نبیوں کی یادگاریں ہیں۔ یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ اس تابوت کی برکت سے ہر پریشانی کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہودی اس تابوت کو لشکر کے سامنے رکھ دیا کرتے اور اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔ بائبل کی روایت کے مطابق جب حضرت دائودؑ کو بادشاہت عطا ہوئی تو انہوں نے اپنے لئے باقاعدہ ایک محل تعمیر کرایا اور ایک روز ان کے ذہن میں خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ہوں جبکہ میری قوم کا معبد آج بھی ایک خیمے میں رکھا ہے چنانچہ آپ نے ہیکل تعمیر کرانے کا ارادہ کیا تو ماہرین نے آپ کو مشورہ دیا کہ ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ہونا ممکن نہیں آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمانؑ کو دے دیجئے۔ چنانچہ پھر حضرت سلیمان ؑ نے 970 قبل از مسیح میں اس کی تعمیر مکمل کروائی جس میں 40 سال کا عرصہ لگا۔ مسجد اقصیٰ اور اس کے احاطے کی چاردیواری کو بار بار دیکھ کر یہودیوں کا یہ اعتقاد درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعمیر انسانوں کے بس میں نہیں تھی۔ اتنے بھاری اور دیو ہیکل پتھروں کو جنات نے ہی چنا ہو گا جن پر حضرت سلیمان ؑ کی حکومت تھی!! حضرت عیسیٰ ؑ سے کوئی پانچ سو سال پہلے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس علاقے پر حملہ کر کے لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا‘ ہیکل کو بھی تباہ کیا اور تابوت سکینہ نکال کر اپنے ساتھ لے گیا لیکن یہودیوں کو یقین ہے کہ تابوت سکینہ آج بھی مسجد اقصیٰ کے نیچے کہیں موجود ہے لہٰذا انہوں نے اسے مسجد کی دیواروں کے نیچے سے نکالنا ہے۔ ایک اور بات جو ہمارے تجربے میں آئی یہ کہ اندرون شہر یروشلم جسے ہم بیت المقدس کہتے ہیں کی انتہائی قدیم اور تنگ گلیوں میں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں لیکن یہودی و عیسائی بھی یہاں کاروبار کرتے ہیں لیکن یہاں رہنے والے مسلمان غریب ہیں۔ برقع پہنے مسلمان عورتیں سارا سارا دن زمین پر ایک ٹوکرا لے کر بیٹھی فروٹ اور سبزیاں بیچتی رہتی ہیں اور سیاحوں سے دوگنے دام وصول کرتی ہیں۔ گو کہ یہودی مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ان تنگ گلیوں سے گزر کر جب مسجد اقصیٰ کے صحن کے دروازوں تک پہنچیں تو ہر دروازے کے باہر پولیس چوکیاں بنائی گئی ہیں جو اندر جانے والے ہر شخص کو چیک کرتے ہیں اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ جو یہودی ان دروازوں تک آتے ہیں وہ وہیں کھڑے ہو کر اپنے مخصوص انداز میں ہل ہل کر عبادت کر کے وہیں سے واپس چلے جاتے ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ایسا کسی قسم کے فساد سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے دالان میں داخل ہوں تو پہلے ’’ڈوم آف دی راک‘‘ (سنہری گنبد والی مسجد) کی عمارت آتی ہے۔ پاکستان ہو یا دیگر ممالک کے کروڑوں لوگ وہ عام طور پر اسی عمارت کو مسجد اقصیٰ سمجھتے ہیں کیونکہ مختلف تصاویر میں یہی مسجد دکھائی جاتی ہے حالانکہ مسجد اقصیٰ اس کے بالکل سامنے چند سیڑھیاں اتر کر واقع ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ’’ڈوم آف دی راک‘‘ یا قبتہ الصخرہ وہ جگہ ہے جہاں سے حضورؐ نبوت کے دسویں سال رجب کی ستائیویں شب کو معراج کیلئے روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نبی اکرمؐ کو مکہ مکرمہ سے یروشلم لے کر آیا‘ آپؐ نے قبلہ اوّل میں انبیاء کرام کی امامت فرمائی‘ آپؐ براق پر بیت المقدس کے صحن سے آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔ آج بھی وہاں سات فٹ لمبی‘ چالیس فٹ چوڑی اور چھ فٹ اونچی چٹان موجود ہے۔ یہ چٹان آپؐ کے ساتھ اوپر اٹھ گئی تھی‘ حضرت جبرائیل ؑ نے اس پر ہاتھ رکھ کر اسے دوبارہ زمین سے جوڑ دیا تھا۔ چٹان پر حضرت جبرائیل ؑ کے ہاتھ کا نشان آج تک موجود ہے۔ اموی خلیفہ عبدالملک نے 691ء میں چٹان کے گرد سنہرے رنگ کی عمارت بنا دی‘ یہی عمارت عربی میں قبہ الصخرہ اور انگریزی میں ’’ڈوم آف دی راک‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں عرب سے باہر پہلی عمارت تھی۔ یہ عمارت آج پوری دنیا میں یروشلم کی پہچان ہے۔ یہیں معراج پر جانے سے پہلے نوافل ادا کئے اور یہیں سے جبرائیلؑ کے ہمراہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے روانہ ہو گئے۔ مسجد کے اندر پہاڑ کا وہ ٹکڑا آج بھی اسی طرح محفوظ ہے اس کے نیچے ایک چھوٹا سا غار ہے جہاں حضرت ذکریا ؑ ‘ حضرت ابراہیمؑ ‘ اور دیگر نبیوں نے نوافل پڑھے۔ یہاں ایک جگہ پر رسول اللہ کے پائوں کا نشان بھی موجود ہے۔ دوسری طرف یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ڈوم آف راک اصل میں مائونٹ موریا ہے جہاں حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاقؑ کو اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے لٹایا تھا جبکہ مسلمانوں کے مطابق وہ حضرت اسماعیلؑ تھے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن میں بھی یروشلم کا ذکر موجود ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اللہ نے فرمایا ’’وہ پاک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ مسجد اقصیٰ اور قتبہ الصخرہ کی مسلمانوں کے لئے ایک اور اہمیت بھی ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد پوری دنیا میں یہ واحد جگہ ہے جہاں کسی نبی کی تعمیر کردہ مسجد موجود ہے۔ ہمارے کئی علماء کرام کا ماننا ہے کہ کیونکہ امام مہدی کے ظہور کے وقت یروشلم نے اہم کردار اداکرنا ہے اسی لئے اس سرزمین سے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ قیامت کے قریب یہ زمین دنیا بھر میں اہمیت اختیار کر جائے گی۔ واللہ اعلم باالصواب۔
بیت المقدس سے روانہ ہوئے تو تقریباً 40 منٹ کی مسافت پر حضرت موسیٰ کے مزار پر پہنچے یہ مزار بھی ریتلے چٹیل پہاڑوں کے درمیان صحرائے یہودا کے کنارے واقع شہر جیرکو میں ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ یہ بھی مقبوضہ فلسطین کا علاقہ ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی بنی موسیٰؑ کہلاتی ہے۔ مزار پر پہنچے تو یہاں بالکل رش نہیں تھا۔ ایک چھوٹی سی دکان جہاں تسبیحاں اور اس قسم کی دیگر اشیاء تھیں۔ تھوڑی دور دو اونٹ کھڑے تھے اور ایک کوچ میں چند سیاح حاضری کیلئے آئے تھے۔ لق و دق صحرا میں گرمی کی شدت کوئی 40 سینٹی گریڈ تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق یہ تمام یروشلم سے کافی نیچے ہے۔ جوں جوں ہم مزید آگے جائیں گے گرمی بڑھتی جائے گی اور تھوڑا آگے بحیرہ مردار شروع ہو جاتا ہے جبکہ اردن کی پہاڑیاں بھی یہاں سے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد چونکہ امدادی دورے کی نیت سے یہاں آئے تھے اس لئے جہاں جہاں انہیں کوئی غریب ضرورت مند یا جنگ سے متاثرہ مسلمان دکھائی دیا انہوں نے دل کھول کر اس کی مالی مدد کی۔ مسجد اقصیٰ میں بچوں‘ عورتوں اور بے آسرا مسلمانوں کو ساتوں دن کھانے پینے کی اشیاء کی صورت یا مالی طور پر ان کی مدد کرتے رہے۔ پھر فلسطین کے زیرانتظام ایک ہسپتال میں نوزائیدہ بچوںاور ان مائوں کی مدد بھی کی جو جنگ زدہ علاقوں سے لٹے پٹے یہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کے امام اور ڈائریکٹر شیخ عمر الکسوانی سے ملاقات بھی کی اور نومبر میں پاکستان اور اگلے سال مارچ میں لندن کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ اسرائیل اور فلسطین میں ایک ہفتہ کے اس دورے میں ایک بات شدت سے محسوس کی کہ یہودی مسلمانوں سے واقعی نفرت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کیونکہ برطانوی پاسپورٹ تھے اس لئے ہم جگہ جگہ پولیس کے ناکوں اور ہوائی اڈے پر مجرموں جیسی تفتیش سے بچتے رہے وگرنہ یہودی تو آپ سے بات کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ ہم کسی یہودی ٹیکسی ڈرائیور کو روکتے تو اوّل وہ رکتا نہیں تھا اگر رک جاتا تو مسجد اقصیٰ جانے سے بڑی نفرت سے انکار کر دیتا تھا۔ یقیناً یہودیوں میں انسان دوست اور سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں جیسے کہ راہ چلتے ہمارے ساتھی راجہ فیض سلطان کی عینک زمین پر گر گئی تو پیچھے آتے ہوئے ایک یہودی جو تھا بھی بڑا آرتھوڈکس یعنی سخت مذہبی‘ اس نے جھک کر وہ عینک اٹھائی اور راجہ صاحب کو پکڑا کر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح جب ہم پہلے روز یروشلم پہنچے تو قیام کی جگہ تلاش کرنے میں ایک یہودی نے ہماری مدد کی اور کہا ’’وعلیکم اسرائیل‘ آپ ہمارے کزن ہیں‘‘ اس نے ہمیں بتایا کہ میں پاکستان دو دفعہ گیا ہوں اور میری بیوی کا تعلق لاہور سے ہے اب ہم امریکہ میں رہتے ہیں چند روز کیلئے اسرائیل آئے ہیں‘ چنانچہ یہ ایک دو خوشگوار تجربے ہمیں یہودیوں کے ساتھ ہوئے ورنہ ان کا عام روّیہ خاصا سخت اور درشت تھا۔
تینوں مذاہب کے لئے اس مقدس ترین خطہ زمین کے دورے میں یہ بات بھی تجربے میں آئی کہ یہاں مذہبی طور پر پاکستان یا برصغیر سے ماحول اور طریق کار قطعی مختلف تھا جس طرح ہمارے ہاں بزرگوں کے مزارات پر منتیں مانگی اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں دیگیں‘ نذرونیاز اور چادریں قبروں پر چڑھائی جاتی ہیں‘ اسرائیل و فلسطین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ آتے ہیں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں نہ یہاں کوئی چندے کیلئے باکس پڑے ہیں اور نہ ہی کوئی ان مزارات کا متولی ہے۔ نہ کوئی کسی کو تصویر یا ویڈیو بنانے سے منع کرتا ہے اور نہ ہی یہاں گداگروں کا رش ہے‘ کوئی ملنگ نہیں‘ کوئی دھمال نہیں‘ کوئی قوالی نہیں کوئی عرس نہیں‘ نہ کوئی جھنڈا نہ پنڈارہ حتیٰ کہ جوتیوں کا ٹھیکہ تک کسی کے پاس نہیں حالانکہ نبیوں کا مقام تو بہرحال صوفیوں‘ درویشوں سے بلند تر ہے بالکل یہی روّیہ اور طریق کار ہمیں استنبول میں حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار اور نیلی مسجد پر دکھائی دیا۔ نبیوں کے تمام مزارات اور مسجد اقصیٰ میں یہ تجربہ بھی ہوا کہ ان تمام مقدس جگہوں پر ایک توقیر آمزی خاموشی ہے۔ انتظامیہ نے ان جگہوں کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ لکھنے اور اپنے مشاہدات شیئر کرنے کے لئے مزید مواد بھی موجود ہے لیکن ان کالموں میں جگہ کی دِقّت کے باعث میں نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں ایک گمنام شاعر کے فلسطین سے متعلق چند اشعار۔
یہ میری قوم کے حکمران بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں‘ میں فلسطین ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں