444

کورونا وائرس کے بعد قحط اور بھوک کا خطرہ

اگر چہ کوئی چھ مہینے کی تباہ کاریوں کے بعد کورونا وائرس سے ہونے والی اموات میں قدرے کمی واقع ہو چکی ہے لیکن اقوام عالم کو اب کووڈ 19سے بھی بڑے خطرات کا سامنا ہو گا جن میں بھوک ، قحط اور بیروز گاری سر فہرست ہوں گی یہاں تک کہ امریکہ ، برطانیہ اور یوں یورپی یونین جیسے امیرترین ممالک میں بھی لاکھوں افراد کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اب لوگ غربت اور بھوک یا قحط سے مریں گے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے خبردار کیا ہے کہ اب دنیا قحط اور بھوک کے دہانے پر ہے جو لوگ پہلے ہی زندہ رہنے کیلئے جد وجہد کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنا روزگار کھو چکے ہیں لوگوں کی آمدنیاں انتہائی کم یا بالکل ختم ہو چکی ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں سکول کے بچوں کو حکومتوں کی طرف سے ملنے والا کھانا بند ہو چکا ہے ، ا ئر لائنز انڈسٹری ، ہوٹل انڈسٹری ، ریسٹورنٹ سو فیصد نقصان میں جا ہے ہیں، سیاست بالکل ختم ہو چکی ہے، بڑے بڑے ملٹی نیشنل سٹورز ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں، بڑی فوڈ چینز اور سٹورز اپنے درجنوں سٹورز بالکل بند کر چکے ہیں۔ چنانچہ اب عالمی سطح کیلئے کورونا وائرس کا واحد خطرہ نہیں بلکہ کورونا کے بعد زیادہ خطرات ہیں، ان کے علاوہ جنگوں کے نتیجہ میں ہونے والی تباہ کاریاں بھی کورونا وائرس سے زیادہ مہلک خطرہ ثابت ہو گا۔ مثا ل کے طور پر عراق، شام اور یمن کی جنگیں ایک انسانی الیمہ ثابت ہو رہی ہیں یہاں کورونا کے ساتھ ساتھ ہیضہ، اسہال اور دیگر اقسام کی بیماریاں بھی انسانی جانوں کو نگل رہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق رواں سال کے آخرتک تقریباً 130ملین افراد فاقہ کشی کا شکار ہوں گے، اقوام متحدہ کے مطابق عالمی آباد ی کا پانچواں حصہ اس سے متاثر ہو گا،دنیا کی ایک کثیر آبادی بھیڑ بھاڑ والی آبادیوںاور گھروں میں رہائش پذیر ہے جو ازخود زندگی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے صاف آب و ہوا ، صاف پانی اور اچھی خوراک مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ’ایچ آئی وی ‘ ٹی بی اور دیگر مہلک بیماریوں کے باعث بھی لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کا خطرہ موجود ہے ۔ماہرین کیطرف سے آنے والی تمام رپورٹس اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک حالات ناگزیر ہیں ان میں سب سے بڑا خطرہ خوراک کی کمی کا ہو گا کیونکہ زراعت کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں کھیتی باڑی نہیں ہو گی تو لامحالہ خوراک کی کمی ہو گی ایسے میں اقوام متحدہ کا کردار یقیناانتہائی اہم ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کو ہنگامی اور بڑے پیمانے پر مثبت منصوبہ بندی کی اہم ضرورت ہے،ترقی یافتہ ممالک تو کسی نہ کسی طرح ان معاملات پر قابو پانے کے وسائل رکھتے ہیں لیکن ترقی پذیر ملکوں کو حکمت عملی کیساتھ ساتھ کھربوں ڈالرز کی بھی ضرورت ہو گی،ان حالات میں اقوام متحدہ کا انتباہ اور مشورہ صائب ہے کہ جی 20اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف کریں یا ادائیگوں کیلئے قرض دار ملکوں کو مناسب وقت فراہم کریں۔
ایڈیٹر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں