495

برطانوی مسلمانوں کے کلیدی مسائل

اگرچہ برطانیہ کا مجموعی تاثر ایک روادار ،فراغ دل ،مہمان نواز اور انسان دوست معاشرہ ہے گو کہ بڑی حد تک یہ تاثر درست بھی ہے لیکن دنیا بھر کی طرح یہاں بھی بسا اوقات ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے مسلمانوں سے متعلق عام لوگوں یا دیگر کمیونٹیز کی منفی رائے مسائل کو جنم دیتی ہے ، مثلا ًاگر برطانیہ میں بم دھماکے یا فائرنگ وغیرہ کا کوئی واقعہ ہو جائے اور اس کا ذمہ دار کوئی مسلمان گروہ ہو یا کوئی اکیلا ایسا مسلمان نوجوان ہو جو کسی رد عمل کے نتیجے میں اس قسم کی واردات کر رہا ہوں تو اس قسم کے واقعات کو بنیاد بنا کر ساری مسلمان کمیونٹی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس ضمن میں اس حقیقت کو سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ اس قسم کے افسوسناک واقعات چند بے راہ افراد تو کرسکتے ہیں لیکن دہشت گردی کا لیبل پوری کمیونٹی اسلام پر نہیں لگایا جا سکتا حالانکہ برطانوی حکومت، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے برطانیہ خصوصاًلندن میں مقیم کثیرالثقافتی آبادی میں ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے بے شمار کاوشیں کرتے رہتے ہیں لیکن اس کےباوجود مسلمانوں کے بچوں کو تعلیمی اداروں ، کھیل کے میدانوں یا ملازمتوں کی جگہوں پر بلنگ یا نسلی تعصب برتے جانے کی شکایات معمول کی بات ہے چند سال پہلے بھی برطانیہ کے “سوشل موبلٹی کمشن” کے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ برطانوی معاشرے میں نا ہمواری ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مسلمان نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے اور اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ دیگر کمیونٹیز کی نسبت مسلمانوں کو سب سے کم اقتصادی مواقع حاصل ہیں ۔ علاوہ ازیں مسلمان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں کس نہ کردہ جرم کی پاداش میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اساتذہ بھی مسلمان طلباء سے بہتر کارکردگی کی امید نہیں رکھتے ، مذکورہ کمشن کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلمان خواتین کو سب سے زیادہ ناساز حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ مذہب کے ساتھ ساتھ ان کا لباس اور نقاب یا سکارف بھی بتایا جاتا ہے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب بھی برطانیہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے فوری طور پر مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نائن الیون کے واقعہ سے پہلے یہودی انتہا پسندوں کی کسی واردات کو کبھی یہودیت انتہا پسند مذہب سے یا سری لنکا میں تامل خودکش حملہ آوروں کی وجہ سے ہندو مذہب کو دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا چنانچہ کسی مسلمان کی اس قسم کی واردات کو اسلام سے بھی نہیں جوڑنا چاہیے ۔ اس قسم کے تاثر کے باوجود برطانیہ کی مسلمان کمیونٹی یقینا جس میں پاکستانی مسلمان بھی آتے ہیں انہیں مجموعی طور پر سنجیدگی سے ان تمام عوامل کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ جب برطانیہ کے تمام قوانین ہر کسی کے لئے یکساں اور بلا امتیاز ہیں تو پھر احساس محرومی کی شکایت سب سے زیادہ ہمیں ہی کیوں ہیں کیا ایسا تو نہیں کہ کوئی کمی کوتاہی ہمارے اندر خود ہی ہے۔ کیا ہم دیگر کمیونٹیز کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ نہیں کیا ہم سفید فام یا دوسری کمیونٹیز سے گھل مل کر نہیں رہتے ، کیا ہمارے عمومی رویے دوسروں سے زیادہ انتہا پسند ہیں ان محرکات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے اور اگر ایسی کوئی بات ہے تو ان کمیوں کے تدارک کے لیے تصحیح اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے ہمیں اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانیوں سمیت برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 28 لاکھ ہے جو ملک کی کل آبادی تقریباً پانچ فیصد حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمان برطانیہ کی پسماندہ ترین آبادی کیوں سمجھا جاتا ہے اور کیا ہماری یہی پسماندگی مذہبی انتہا پسندوں کو یہ موقع نہیں دے رہی کہ ہماری محرومیوں کی بڑی وجہ ہمارے ساتھ ہونے والا مذہبی تعصب ہے۔کوئی تین سال پہلے ایک برطانوی تھنک ٹینک “کیسی رویو” کے مطابق برطانیہ میں مقیم پاکستان نژاد خواتین کی 57 فیصد آبادی غیر فعال ہے جبکہ سفید فام خواتین کی یہ تعداد 25 فیصد ہے۔ بے روزگاری کی شرح بھی ہمارے ہاں دیگر کمیونٹیز کے مقابلے میں غیر معمولی ہے۔ انگریزی زبان کا کم آنا بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہے ۔ برطانیہ کے 10% غریب علاقوں میں پاکستانیوں کی شرح 31 فیصد ہے ، کم آمدنی کے شکار پاکستانی گھرانے 41فیصد ہیں، ہمارے لیے یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ گھریلو تشدد اور جبری شادیوں کے معاملات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔
وجاہت علی خان (ایڈیٹر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں