537

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

تحریر : علامہ محمد فروغ القادری

اللہ کی ہزار ہا رحمتیں برستی ہیں اس محفل ہمایوں پر جس میں کو ن و مکاں کے تاجدار ، عالم نور کے پیکر لطیف ، حسن انسانیت اور ارداحنا فداہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر اور تذکر ئہ جمیل ہوتا ہے ۔ کیا نصیبے کی ارجمند نی اور مقدرات کی معراج ان سعادت مند اہل ایمان و یقین کے لئے جو اس پاکیزہ محفل میں حسن عقیدت او ر خلوص نیت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ دراصل یہی وہ بزم با صفا ہے جس میں انوار اٰ لیہ عالم قدس سے نازل ہوتے ہیں ۔دل کی کائنات محبت رسول کے جلوئوں سے سرشار ہوتی ہے ۔ یہ وہ روح پرور بیان ہے جسے سننے کے لئے ملکوتی فرشتے عرش بریں سے فرش ِ زمیں پر اترتے ہیں۔ یہاں بخششوں کی خیرات لٹائی جاتی ہے ۔ یہاں دلوں کو زندگی ملتی ہے ۔ یہاں دکھتی ہوئی رگوں پر تسکین کا مرہم رکھا جاتا ہے۔ یہاں آنکھوں کو جمال گنبد خضریٰ ملتا ہے ۔ یہاں عاصیوں کو مژدئہ شفاعت سنایا جاتا ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب’’فیوض الحرمین ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں بارہویں ربیع الاوّل کو اس مجلس پاک میں حاضر ہوا جو مکہ معظمہ میں خاص مکان ولادت شریف میں منعقد تھی اور اس میں حضور ؐ کی ولادیت طیبہ کا خصوصی ذکر تھا ۔دفعتاً کچھ انوار بلند ہوئے ، میں نے جو بہ نظر تامل دیکھا تو معلوم ہوا یہ ان ملائکہ کے انوار و تجلیات تھے جو ایسی متبرک محافل میں حاضر ہوا کرتے ہیں اور در حقیقت یہ رحمت الہٰی کے انوار تھے ۔ پس اے مسلمانوں !تمہیں چاہیے کہ اس انجمن عالی میں بصد ادب و احترام شرکت کرو اور حد درجہ ذوق و شوق سے احوال خیر اشتمال سنو !اور حاضرین پر واجب ہے کہ وہ کثرت سے بارگاہ رسالت میں درود مقدس کے نذریں پیش کریں ۔ ‘‘ تو یہ ہے وہ بارش انوار جو عرش کی بلندیوں سے ان خوش بخت لوگوں پر برستی ہے جو ذکر محفل میں شریک ہوتے ہیں ۔
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی پتش آمادہ اسی نام سے ہے
(اقبال )
پردوگار عالم نے جہالت و گمرہی میں پڑے ہوئے عرب کے صحراء نشینوں کو ذہنی ، فکری اور عملی طور پر بیدار کرنے کے لیے حضور ؐ کی ولادت شریفہ کے وقت بہت سارے امور حجیبہ ظاہر فرمائے ۔ امّ عثمان بن ابی العاص سے روایت ہے کہ جب حضور پیدا ہوئے تو ستارے جھک کر زمین سے ایسے قریب ہو گئے کہ گمان ہوتا تھا کہ وہ گر پڑیں گے ۔ اس اشارہ مقصود تھا کہ حضور سرور کائنات کل انوار کے مرکز ہیں ، اور ہر شئے اپنے مرکز کی جانب مائل ہوتی ہے ۔ ملک فارس (ایران ) کے آتشکدوں کی آگ جو برسوں سے دہک رہی تھی بجھ گئی ۔ اس میں یہ راز تھا کہ دین حق کے جلوئوں سے آتش پرستی کی گریہ وزاری کا خاتمہ ہو گا ۔ دریائے ساوا سوکھ گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی رسالت عامہ اور سیادت مطلقہ کے ذریعے سے اب آب پرستی اور دریائوں کو خدا ماننے کے تصورات باطل پر پانی پھر جائے گا ۔ تمام روئے زمین کے بت اوندھے گر پڑے ۔ اس میں یہ واضح تاکید موجود تھی کہ اب معبود حقیقی کی عبادت ہو گی اور تراشیدہ بت پرستی رسوا ہو گی ۔ نوشیروان بادشادہ ایران کے محل میں زلزلہ برپا ہو گیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے ۔چنانچہ آج تک وہ محل جس کا نام ’’ طاق کسریٰ ‘‘ ہے بغداد کے قریب شہر مداین ویرانے میں شکستہ کھڑا ہے ۔ سیاح جا کر وہاں آج بھی اس ناقابل تسخیر معجزے کو دیکھتے ہیں ۔ اس میں راز تھا کہ آپ کے قدم نازکی برکتوں سے مردان عرب تخت جمشید کے مالک ہوں گے اور شاہان عجم کی حکومت ان کے زیر نگیں ہو گی۔ قعرابیض کا خزانہ نان ِ شبینہ پر گذارہ کرنے والے رسول اللہ کے غلاموں کے ہاتھوں میں ہو گا ۔ دو عظیم سپر پاور قیصر و کسریٰ کی صدیوں کی بادشاہت اور ان کا تاج زرّیں غازیان اسلام کی ٹھوکر میں ہو گا ۔
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے !
(اقبال )
12ربیع الاوّل کو پیر کے دن عین صبح صادق کے وقت کون و مکاں کے تاجدار نے اس عالم خاک کو اپنے وجود مسعود سے رشک افلاک بنا دیا ۔ وہ جو ووادی ذمی ذرع کی مرکزی بستی ’’ مکتہ المکرمتہ ‘‘ میں سیدہ آمنہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار عالم نے حد درجہ خصوصی اہتمام کے ساتھ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے ایجابی تاثر کے اسباب وقت سے پہلے فراہم کر دیئے تھے ۔عرب کے خشک جفرافیے میں ایک ایسی قوم جمع کر دی گئی جس میں صحرائی زندگی کے نتیجے میں کردار کی عظمت و صلابت غیر معمولی حد تک پائی جاتی تھی ۔وہ اقرار و انکار کے بین کسی تیسری چیز کو نہیں جانتے تھے ۔ ان کے اندر وہ تمام فطری خصائص پوری طرح محفوظ تھے جو کسی تحریک کا مجاہد بننے کے لئے ضروری ہیں ۔ ہجرت مدینہ کے بعد آقا ئے دو جہاں ؐ نے دنیا کی سب سے پہلی باضابطہ جمہوری حکومت و سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ امرونواہی کے سارے اختیارات نبوی ہاتھوں میں تھے ۔کائنات گیر اقتدار کے مالک نے عربی و عجمی ، سیاہ و سفید ، اور آقا و غلام کے سارے امتیازی فاصلے ختم کر دیئے تھے ۔تکریم انسانی کی اساس دلوں کے اخلاص پر رکھی گئی تھی ۔ خدا خونی اور تقویٰ شعاری کے بغیر بارگاہ رسالت تک رسائی ممکن نہ تھی ۔ انقیاد سلطنت کی اہمیت سیاست قفیہ اور کشور کشائی نہ تھی بلکہ معاشرے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر تحفظات کو عام کرنے کے لئے عدل و انصاف کے ضوابط کو قرآنی نصوص کے ذریعے مستحکم کیا گیا تھا ۔اس کے ذریعے دراصل ایک ایسا عالمگیر معاشرتی انقلاب لانا مقصود تھا جو دین حق کے غلبے کو ایک تاریخی حقیقت بنا دے ۔ انسانی ذہین و دماغ کے بند دروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں پریس اور پرنٹ میڈیا کا دور آئے تا کہ قرآن عظیم اور علوم اسلامیہ کے ذخائر کی دائمی حفاطت کا انتظام ہو جائے ۔ آزادی ء اظہار حق اور جمہوریت کا زمانہ آئے جو داعیان اسلام کے لئے اشاعت دین کے لئے تمام مصنوعی رکاوٹوں کو ہٹا دے ۔ اس کی وساطت سے طبعیاتی علوم و فنون کی وہ دریافت ظاہر ہوں جو معلم کائنات ؐ کی دعوتی زندگی اور مذہب اسلام کی لازوال صداقت کو عقلیات کی سطح پر مدلل و برہن کریں ۔
لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ ، تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک ہیں تیرے ظہور سے فروغ
ذرئہ ریگ کو دیا ، تو نے طلوع آفتاب
شوکت سنجر و سلیم ، تیرے جلال کی نمود !
فتح جنید و بایزید ، تیرا جمال بے نقاب
(اقبال )
حضور نبی مکرم ؐ کی بعثت مبارکہ کے وقت شرق و غرب کی کائنات ایک نازک صورت حال اور ذہنی و فکری پیکار سے دوچارتھی ۔اور یہ اصولی طور پر اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ دنیا ئے عرب و عجم میں براہ براست کوئی نمایاں تبدیلی آنی چاہیے۔آپ کی مقدس ذات گرامی کے فیضان اور مئوثر ترین تربیتی و تعلیمی نظم و ضبط نے اسنانیت کی زلف برہم کو سنوارا ۔ مختلف النوع قدروں کی حیات کی تابناکی عطا فرمائی ۔ فکرو نظر کے پیمانے بدلے اور زندگی کی ہر سطح پر مصطفوی انقلاب کے اثرات محسوس کئے جانے لگے ۔ صحراء نشینوں کو انسانی قدر دان آشنا کیا گیا۔پیشانیوں کو رب ذوالجلال کے آستانہ ء قدس پر جھکا یا گیا ۔دنیا کو جہالت و گمرہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و عقل کی روشنی بخشی گئی ۔ علم و دانش کے میکدے کھولے گئے ۔ بادہ نشینوں نے لوح و قلم کی اہمیت کو محسوس کیا اور ہمہ جہت پیمانے پر اس کے حصول کی ہر ممکن کوشش میں لگ گئے ۔
اٹھ کہ بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
(اقبال )
اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب کریم کو کونین کی بادشاہت عطا فرمائی تھی ۔ ان کے اشارہ ابرو سے کائنات کے مقدرات سنورتے ہیں۔سمندر میں ڈوبا ہوا ان کا عارض تابان عرش و فرش کو انوار وتجلیات کی خیرات عطا کرتا ہے ۔۔ خطبات میں افکار کے امنڈتے ہوئے دریا ۔ انداز تکلم جیسے کہ اسرار جہاں کھیل رہے ہوں ۔ ایسا فقرکہ کونین کی آقائی ان کے قدموں میں جھگی ہو ۔ ان کا لطف و کرم سامان بخشش ۔ ان کی ذات عرافی یوسف و یعقوب کی امیدوں کا طور ۔ ان کا دست ناز کشتی ء نوح کے لئے ساحل تسکین ۔
سالار کارواں ہے پر حجاز اپنا !
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
(اقبال )
بر صغیر ہندو پاک کے عملی حلقوں کی نمایاں ترین اور قد آور شخصیت مولانا ابوالکام آزاد ’’ عید مولود نبوی ‘‘ کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ۔
’’ یہی واقعہ ولادت نبوی ؐ ہے جو دعوت اسلامی کے ظہور کا پہلا دن تھا ۔ اور یہی ربیع الاوّل ہے جس میں اس امت مسلمہ کی بنیاد پڑی ۔جس کو تمام عالم کی ہدایت و سعادت کا منصب عطا ہونے والا تھا ۔ یہ ریگستان حجاز کی بادشاہت کا پہلا دن تھا ۔یہ صرف عرب کی ترقی و عروج کے بانی کی پیدائش نہ تھی ۔ یہ محض قوموں کی طاقت کا اعلان نہ تھا ۔ اس میں صرف نسلوں اور ملکوں کی بزرگی کی دعوت نہ تھی جیسا کہ ہمیشہ ہوا ہے ۔ اور جیسا کچھ کہ دنیا کی تمام تاریخ کا انتہائی سرمایہ ہے بلکہ یہ تمام عالم کی ربانی بادشاہت کا یوم میلاد تھا ۔یہ تمام دنیا کی ترقی و عروج کے بانی کی پیدائش تھی ۔ یہ تمام کرئہ ارض کی سعادت کا ظہور تھا ۔یہ تمام نو انسان کے شرف و احترام کا قیام عام تھا ۔ یہ انسانوں کی بادشاہت ، قوموں کی بڑائی او ر ملکوں کی فتوحات کا نہیں بلکہ خدا کی ایک ہی اور عالمگیربادشاہت کے عرش جلال و جبروت کی آخری اور دائمی نمود تھی ۔ یہ عالم انسانیت کی فضائے کا انقاب عظیم تھا ۔یہ رحمت الہٰی کی بدلیوں کی ایک عالمگیر نمود تھی ۔یہ ہدایت الہٰی کی تکمیل تھی ۔ یہ شریعت ربانی کے ارتقاء کا مرتبہ آخری تھا ۔ یہ سلسلہ ء ترسیل رسل و نزول صحف کا اختتام تھا ۔یہ سعادت بشریٰ کا آخری پیغام تھا ۔ یہ وراثت ارضی کی آخری بخشش تھی ۔یہ امت مسلمہ کے ظہور کا پہلا دن تھا ۔ اور اس لئے کہ یہ حضرت ختم المرسلین ورحمتہ العالمین محمد بن عبداللہ کی ولادت باسعادت تھی (صلی اللہ علیہ و سلم )پس یہی دن (عید میلاد النبی ؐ ) سب سے بڑا ہے، کیوں کہ اسی دن کے اندر دنیا کی سب بڑی بڑائی ظاہر ہوئی ۔اس کی یاد نہ تو قوموں سے وابستہ ہے اور نہ نسلوں سے ۔بلکہ وہ تمام کرئہ ارض کی ایک عام اور مشترکہ عظمت ہے جس کو وہ اس وقت تک نہیں بھلا سکتی جب تک کہ اس کی سچائی اور نیکی کی ضرورت ہے ۔ اور جب تک کہ اس کی زمین اپنی زندگی اور بقاء کے لئے عدالت و صداقت کی محتاج ہے ‘‘ (بحوالہ ولادت نبوی ابوالکلام آزاد )
وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبار راہ گو بخشا فروغ وادی ء سینا !
’’ نمابعثت العلما ‘‘ آقائے دو جہاں ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ مجھے معلم بنا کربھیجا گیا ہے ‘‘ وہ کتاب علم وحکمت کی تعلیم عطا فرماتے ہیں ۔ جس کا براہ راست اثر یہ ہوا کہ وحشتوں اور ظلمتوں کے پروردہ کشان کشان بدویت سے مدنیت کی طرف لوٹنے لگے ۔مجھے حیرت ہے کہ جو اسلام علم کی شمع فروزاں لے کر فاران کی چوٹی سے جلوہ گرہ ہوا تھا آج اس کے پیروکاروں کی اکثریت اس نعمت کبریٰ سے محروم ہے ۔ اسلام تو ایک چشمہ صافی ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس کے قریب آئے اور فیوض وبرکات کی لازوال قدروں سے محروم رہ جائے ۔ ’’شب گریزاں ہو گی آخر نغمہ توحید سے ‘‘ آسمانی کتابوں میں قرآن عظیم سرکار دو عالم ؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ ء کرم میں لے رکھا ہے ۔ جس کی تاثیر صبح قیامت تک محسوس کی جائے گی۔غار حرا میں پہلی وحی سے لے کر آقائے دو جہاں کے وصال ظاہری تک اس کے نزول کی مدت تقریبا ً 23سال بنتی ہے ۔
جن نا مساعد حالات میں کو ن و مکاں کے تاجدار فرمائی وہ تاریخ و سیر کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ مدینہ طیبہ میں گیارہ سالہ قیام کے دوران آپ نے اسلام کی پہلی جمہوری مملکت کی بنیاد رکھی ۔جو عدل و انصاف کی قدروں پر استوار تھی جہاں آقا و غلام ، امیر و فقیر ، حاکم ومحکوم سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ اور پھر یہ نبوی فیضان کا اور دعوت حق کا اثر ایک قلیل سی مدت میں اس مملکت کی سرحدیں جزیرہ نمائے عرب تک پھیل گئیں۔مورخین یہ لکھتے ہیں کہ حضور محسن انسانیت ؐ کے وصال ظاہر ی کے وقت تک اس مملکت کا رقبہ 10لاکھ مربع میل تک پھیل چکا تھا ۔اور اس میں ہر دن دو سو پچھتر میل کا اضافہ ہوتا ۔
یقیں افراد کا سرمایہ ء تعمیر ملت ہے
یہی صورت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
(اقبال )
اسلام کے دور آغاز میں امت مسلمہ محض پانچ نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی ۔تدریجا اس میں اضافہ ہوتا رہا ، اور مدینہ النبٰی کے اطراف کے علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا ساٹھ ہزار تک جا پہنچی ۔ جب کہ ’’ خطبہ حجتہ الوداع ‘‘ کے موقع سے میدان عرفات میں حاضر مسلمانوں کی تعداد تقریبا سو لاکھ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے ۔عرب عموماً منتشر قبائل کی صورت میں رہتے تھے ۔ جن میں کوئی دفاعی طاقت یا سیاسی قوت حاصل نہ تھی ۔مختلف عرب قبائل اپنے دور کے دور سپر پاور روم اور فارس کے زیر اثر تھے ۔جیسے ماضی قریب میں دنیا کی کئی ریاستیں روس یا امریکہ کے حلقہ ء اثر میں تھیں ۔ یا پھر آج کی دنیا کی بہت ساری بڑی حکومتیں امریکہ کے زیر اثر ہیں ۔ مگر یہ بنیادی فرق ہے آج کی حکومتوں اور رسول اللہ کے نظام حکمرانی میں کہ کمزور ، پس ماندہ اور منتشر قبائل نے امت مسلمہ کی شکل اختیار کر کے رسول ؐ کی تشکیل کردہ اسلامی مملکت سے اپنے دل و دماغ کا رشتہ استوار کیا تو پھر ان ہی کمزور لوگوں کو وہ رعب ود بدبے اور جاہ جلال حاصل ہوا کہ ان کی تعداد میں کمی کے باوجود ان سے اس دور کے ظالم و جابر سپر پاور فارس و روم کے سرخمیدہ اور خوف زدہ نظر آنے لگے ۔
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی
یہ جبر و قہر نہیںہے ، یہ عشق و مستی ہے
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہانبانی
(اقبال )
حضور رحمت عالم ؐ کی تعلیمات عامہ اس زمین کے تحفظ اور نوع انسانی کی سلامتی و بقا ء کی ضامن ہیں ۔آپ کا عطا کردہ دین ’’ اسلام ‘‘ دین فطرت ہے ۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ۔اسلام علم کے فروغ اور انسانی تہذب وتمدن کے ارتقا ء کا دین ہے ۔ اسلام انسانی معاشروں کو عدل و انصاف فراہم کرے والا دین ہے ۔ معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور دعوتی زندگی افرادِ انسانی کے مابین عدل و انصاف ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور معاشرتی و طبقاتی مساوات کا درس دیتی ہیں۔اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے ہر فرد بشر کو مادی لحاظ سے کئی شعبوں سے روابط رکھنے ہوتے ہیں۔معاشرہ بعض خطوط پر استوار ہوتا ہے ۔ معاشرتی نظم و نسق کے لئے مملکت و حکومت کے بعض فرائض و حقوق ہوتے ہیں۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ان تمام امور کانہایت عمدگی کے ساتھ اس انفرادیت سے احاطہ کرتی ہیں کہ فرد ، معاشرہ مملکت اور مملکت کے تمام ادارے اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس کے ساتھ دنیوی معاملات بھی خیر ، تعاون ، فلاح کے بھر پور جذبوں کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی ذات گرامی نوع انسانی کے معلم کی ہے ، جو دنیاوی ، دینی ، مادی ور وحانی غرض کہ دنیا و آخرت کے ہر شعبے کے تمام امور کی تعلیم عطا فرماتے ہیں۔ یہ درس گاہ مصطفوی کا براہ راست فیضان تھا کہ ان کے تربیت یافتہ اصحاب باوفا ان کی اطاعت مندیوں اور جذبہ ء جانثاری کی تصویر بن کر پورے عالم انسانیت کے لئے روشنی کی فراہمی کا ذریعہ بنے ۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا میر کامل نہ بن جائے
آقائے دو جہاں ؐ اسلام کے ابتدائی دور میں ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھ رہے تھے جو اصولی طور پر علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کی شاہراہوں کو متعین کرنے والی ہو ۔یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت کے ایک صدی بعد ہی مسلم تہذیب و ثقافت اتنی ترقی کر گئی کہ مسلمانوں نے دوسری قوموں کو زندگی کی راہوں میں رہنمائی فراہم کی ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اغیار بھی اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں