540

بھٹو صاحب کے آخری ایام


ذوالفقار علی بھٹو کی یوم پیدائش کے حوالے سے ملک بھر میں ان کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مجھے ان کی یوم پیدائش کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن ان کے آخری دنوں کے بارے میں بہت تفصیل جانتا ہوں۔ بھٹو کے آخری دن کے نام سے ایک کتابچہ بھی میں نے شا ئع کیا۔ ہفت روزہ صحافت میں آخری رات کے مناظر کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا۔ معروف صحافی اور آج کے اینکر غلام حسین کے ساتھ مل کر تارا مسیح کو تلاش کیا اور اس کا خصوصی انٹرویو کیا ، جو چھپا تو ’’ صحافت ‘‘ میں لیکن ’’ نوائے وقت‘‘ جیسے مئوثر اخبار نے اسے سپر لیڈ کے طو ر پر شائع کیا اور رات کو بی بی سی نے اپنے اردو پروگرام ’’ سیر بین ‘‘ میں اسے نشر کیا۔ برادرم ادیب جاودانی نے اس ضمن میں بہت مواد چھاپا اور کئی برس تک ایک ایک پہلو پر جہاں جہاں سے کچھ معلومات مل سکتی تھیں ’’مون ڈائجسٹ ‘‘ میں شائع کرتے رہے۔ آج کے دن یہ دیکھیں کہ بھٹو صاحب کا آخری وقت کیسے گزرا ؟
3اور 4اپریل 1979ء کی درمیانی شب کیا ہونے والا ہے ؟

اس کا اندازہ ہمیں تین تاریخ کی دوپہر پوری طرح ہو گیا تھا جب عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے والد ملک غلام جیلانی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ لوگ آ جارہے تھے اور حسب معمول ایک مجلس جمی ہوئی تھی ۔ میں راجہ منور احمد کے ساتھ ان کی طرف آیا تھا۔ یہ گھر مین بلیو وارڈ گلبرگ میں واقع تھا اور ملک غلام جیلانی کی شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ۔وہ معروف سیاسی دانشور تھے ۔ بحث جاری تھی کہ ڈیتھ وارنٹ ایشو ہو چکے ہیں تھوری دیر بعد ملک صاحب کو فون پر اطلاع ملی کہ تارا مسیح کو جو لکھپت جیل کے معروف جلاد تھے ، راولپنڈی بھیج دیا گیا ہے۔ راجہ منور احمد دھڑا دھڑ فون ملا رہے تھے ان دنوں موبائل فون نہ ہونے کے باعث ملک صاحب کا ٹیلی فون جو لینڈ لائن پر تھا، مسلسل ان کے استعمال میں تھا ۔انہوں نے کہا جیل سپر نٹنڈنٹ کا فون ملاتے ہیں۔ان کا نام یار محمد دردانہ تھا معلوم ہوا وہ صبح سے ڈیوٹی پر ہیں اور راولپنڈی کی پرانی جیل میںموجود ہیں جس کا فون نمبر کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ پھر راجہ منور احمد نے شوکت علی شاہ کا فون نمبر ٹریس کیاجو راولپنڈی جیل کے میڈیکل افسر تھے ، وہ نمبر بھی بند کر دیا گیا ۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں حتیٰ کہ مغرب کا وقت آن پہنچا ، تب راجہ منور نے جیل سپر نٹنڈنٹ کے گھر فون کیا جہاںسے یہ پتا چلا کہ یارمحمد صاحب ابھی تک گھر واپس نہیں آئے ، شاید جیل میں کوئی کام ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اس زمانے میں’’ مارننگ نیوز ‘‘ سے وابستہ چودھری غلام حسین آن پہنچے۔ انہوں نے کہا جیل کے ٹیلی فون کاٹ دیئے گئے ہیں اور پنڈی سے پتا چلا ہے نہ کسی کو باہر جانے کی اجازت ہے نہ اندر آنے کی ۔ملک صاحب نے کہا شاید آج کی رات بھٹو صاحب کی آخری رات ہے ۔جیل قواعد کے مطابق ملزموں کو صبح چار بجے پھانسی دی جاتی ہے ۔ہم بھٹو صاحب کے بار ے میں باتیں کرنے لگے۔ ان کی خوبیاں ، ان کی خامیاں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم سب د ل گرفتہ تھے۔ بھٹو صاحب یقینا جینیئس تھے، ہاں ان کے مخالفین انہیں Evil Giniuse کہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا وہ اہم کردار تھے اور ہمیشہ یہ بحث ہوتی رہے گی کہ کیا ملک توڑنے میں ان کا بھی کردار ہے۔ ملک غلام جیلانی کے خیال کے میں بھٹو صاحب کو قدرت نے بڑا موقع دیا ، وہ مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے ۔ لوگ سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے انتہائی غمزدہ تھے اور سچ تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب عوام سے یہ اپیل کرتے کہ ایک وقت کا کھانا چھوڑ دو تو کوئی انکار نہ کرتا۔ راجہ منور ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے تاسیسی اجلاس کی باتیں سنا رہے تھے۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی میں کوئی بنگالی نہیں تھا اور میری ڈیوٹی لگی تھی کہ لاہور میں دو چار بنگالی تلاش کروں تا کہ تاسیسی اجلاس میں بٹھائے جا سکیں لیکن کوئی بندوبست نہیں ہور رہا تھا ۔ ایک بنگالی حنیف رامے صاحب نے ڈھونڈ نکالا اور اس کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر جانے پر آمادہ کر لیا۔ان دنوں مال روڈ پر ریگل چوک کے ساتھ واقع شیزان‘‘ میں منڈلی لگا کرتی تھی ۔ ملک معراج خالد، انشورنس والے جنجوعہ صاحب ، صحافی عبدالقادر حسن، راجہ منور ا حمد اور کبھی کبھار میں بھی اس منڈلی میں شامل ہو جاتے ۔ اچانک اس منڈلی کے شرکاء میں سے ایک نے راجہ منور احمد کی توجہ دلائی کہ لارڈز ریسٹورنٹ کے دونوں بیرے جو گیٹ پر کھڑے ہوتے ہیں اور باہر سے آنے والوں کیلئے دروازہ کھولتے ہیں،چھوٹے قد کے بنگالی ہیں جائو اور انہیں کچھ پیسے دے کر کپڑے بدلوا کر اور منیجر سے چھٹی دلوا کر ساتھ لے جائو۔راجہ صاحب نے ایسا ہی کیا البتہ ایک بنگالی ملا ملک غلام جیلانی بار بار بھٹو صاحب کی طبیعت میں موجود سخت گیری کی باتیں کر رہے تھے۔خورشید حسن ، حنیف رامے ، غلام مصطفیٰ کھر، جے اے رحیم ، رسول بخش تالپور ، پیپلز پارٹی کے کتنے ہی سینئر لوگوں کے ساتھ بھٹو صاحب نے بہت برا سلوک کیا۔جے اے رحیم جیسے بزرگ آدمی کو جو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، صرف اس لیے ایف ایس ایف کے جوانوں سے پٹوایا کہ انہوں نے ایک میٹنگ کیلئے بلوانے پر اور بلاوجہ انتظار کروانے پر اعتراض کیا تھا، جس مقدمے میں بھٹو کو سزا ہونے والی تھی وہ بھی احمد رضا قصوری کے والد کو ایف ایس ایف کے انسپکٹر وں سے گولی مروانے کا مقدمہ تھا۔ ڈاکٹر غلام حسین سیکرٹری جنرل کے ساتھ کیا ہوا۔ سیالکوٹ کے ایم این اے ملک سلیمان کو کیسے دھمکیاں ملیں، ملک صاحب کا خیال تھا کہ اگر بھٹو صاحب اپنے اندر چھپے ہوئے آمرانہ رویوں سے خود کو بچا سکتے تو وہ بلا کے مقرر تھے، پورے عوام کو جس طرف چاہتے لگا سکتے تھے لیکن لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے بے شمار لوگوں کو اسمبلیوں کی ممبر شپ دلوانے کے بعد انہوں نے سب کو نیشنل بنک سے کلیم جاری کر کے ٹیوٹا کرولا گاڑیاں دلوائیں جن کی پہلی قسط کے بعد دوسری کسی نے نہیں دی۔عالم اسلام کو جمع کر کے اسلامی کانفرنس منعقد کروانے والا بھٹو کمال کا وزیر خارجہ تھا لیکن حکومت ملنے کے بعد اس نے نیشنلائزیشن کی پالیسی سے ملک کی صنعتی ترقی بالکل روک دی ۔
باتوں ہی باتوں میں رات ہو گئی ۔ راجہ منور نے ایک بار پھر جیل سپر نٹنڈنٹ اور میڈکل افسر کا پتا کیا۔ اب ان کے گھروں کے نمبرز بھی بند ہو گئے تھے۔راجہ منور نے کہا کہ ہم تو بھٹو صاحب کے معتوب تھے اور جیلوں میں بند تھے لیکن سچ یہ ہے کہ پتا نہیں کون بدبخت تھا جو انہیں انتخابات میں دھاندلی کے مشورے دے رہا تھا۔حقیقت میں ہم سب پی این اے والے ہار رہے تھے اور بھٹو صاحب کی جیت یقینی تھی لیکن بلا مقابلہ جیتنے کی خواہش میں ان کے سامنے کھڑ ے ہونے والے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالد کھرل اپنی جیپ میں بٹھا کر 70میل دور چھوڑ آئے تاکہ وہ کاغذات جمع نہ کروا سکیں۔چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھی بلا مقابلہ الیکشن جیتنے کیلئے اپنے اپنے مخالف امیدوار کی پکڑ دھکڑ کی ۔کاش بھٹو صاحب ان غلط مشوروں پر عمل نہ کرتے تو بھی وہ آسانی سے جیت جاتے اور جہاں تک ان کی اپنی سیٹ کا تعلق تھا کوئی مائی کا لعل انہیں لاڑکانہ سے ہرا نہیں سکتا تھا۔

رات گئے بھی بھٹو صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے تو کبھی ان کی غلط سیاسی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ مجلس ختم ہوئی اور ہم اپنے اپنے گھروں کو جانے کیلئے اٹھے تو دل ڈوب سا رہا تھا۔بھٹو صاحب بڑے لیڈر تھے کمال کے مقرر تھے غضب کی ذہانت پائی تھی۔ عوام کے دلوں میں اتر جاتے تھے مگر وہ اپنی اندرونی خامیوں پر قابو نہ پاسکے ۔بڑے بڑے نوابوں اور سردار وں کو جھکانا ، گورنری یا وزارتیں دے کر ذلیل کرنا ان کا شوق تھااور ایسا کرنے میں انہیں مزا آتا تھا۔ملک غلام جیلانی کے بقول بھٹو ٹو ان ون تھے۔ بیک وقت وہ عوام دوست اور غریب پرور بھی تھے تو دوسری طرف وہ جمہوری انداز و اطوار کی بجائے آمرانہ طرز حکومت کے اس قدر شیدائی تھے کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں وہ پہلے وزیر اعظم تھے جن کے دور میں اپوزیشن لیڈروں کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے قومی اسمبلی سے اٹھا کر زبردستی باہر لایا گیا اور سڑک پر پھینک دیا گیا۔ ان میں معروف مذہبی رہنما مولانا مفتی محمود بھی شامل تھے جو مولانا فضل الرحمن کے والد تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے حوالے سے بہت کہانیاں سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں پھانسی دینے سے قبل زدوکوب کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہو گئی اور پھر ان کی لاش کو پھانسی پر چڑھا کر ضیاء الحق نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔ ان کے شیدائیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ تختہ دار تک چل کر گر گئے او ر ان کا آخری خطاب خون کے آنسو لا دینے والا تھا۔ بینظیر بھٹو اپنے باپ کی محبت میں پیٹرینس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے والد کی شہادت کے بعد بھی مہینوں وہ مجھے چاند میں نظر آتے رہے۔ اصل واقعہ کیا تھا آئیے آپ کو جو لوگ موقع پر موجود تھے ان کی زبانی رودادوں پر مشتمل داستان سنائیں ۔
تین اپریل کو بھاری نفری کے ساتھ سہالہ کیمپ سے بیگم نصرت بھٹو اور بی بی بینظیر بھٹو کو راولپنڈی جیل لایا گیا۔ اس وقت بھٹو صاحب کو بتایا جا چکا تھا کہ چاہیں تو وصیت لکھوا سکتے ہیں۔ انہیں اس امر سے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ کو سزا یعنی پھانسی پر عملدر آمد چار اپریل کی صبح چار بجے ہو گا۔ آخری ملاقات کے لئے ان کی اہلیہ اور بیٹی کو سہالہ کیمپ سے جہاں وہ نظر بند ہیں جیل لایا جا رہا ہے ۔ بھٹو صاحب کی شیو بڑھی ہوئی تھی ، انہوں نے شیو کا سامان مانگا اور شیو بنائی ۔ انہیں شیو کا سامان دینے میں کچھ تامل کیا گیا تو بھٹو صاحب کہنے لگے۔ I do not want to die a Molvies death. بظاہر وہ پُر سکون تھے لیکن ظاہر ہے کہ بڑے سے بڑے بہادر انسان کو بھی بہرحال تشویش یقینی ہے ۔ انہوں نے وصیت لکھنے کے لیے کاغذ قلم مانگا یہ چیزیں لا دی گئیں تو بھٹو صاحب نے چند الفاظ لکھے لیکن پھر کچھ سوچ کر ان پر لکیر پھیر دی اور انہیں واپس کر دیا۔ اسی اثنا میں بیگم نصرت بھٹو اور بی بی بینظیر پہنچ گئیں ، بھٹو صاحب نے انہیں حوصلہ رکھنے کے لیے کہا اور نصرت بھٹو صاحبہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے کہ بہت اچھا کیا تم نے اس فوجی ڈکٹیٹر سے میرے لئے رحم کی اپیل نہیں کی ۔ یاد رہے کہ ان کی پہلی بیوی امیر بیگم نے رحم کی اپیل کر دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا، سپر نٹنڈنت جیل احتراماً پیچھے ہٹ گیا اس کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کافی دیر بیوی اور اپنی بچی سے باتیں کرتے رہے پھر اس کے کہنے پر بھٹو صاحب نے الوداعی ملاقات کی اور بیٹی کو پیار کیا جو مسلسل آنسو بہا رہی تھیں۔ جب ماں بیٹی کو باہر لایا گیا تو بینظیر مسلسل ہچکیاں لے رہی تھیں۔ جیل کے دروازے پر پہنچ کر بیگم نصرت بھٹو نے سپر نٹنڈ نٹ جیل سے کہا میری جنرل ضیا سے بات کروائو لیکن موقع پر موجود فوجی افسروں نے معذرت کی اور کہا کہ ہم آپ کی خواہش پہنچا دیں گے اگر صدر صاحب نے چاہا تو وہ آپ سے سہالہ بات کر لیں گے ، جب انہیں فوکسی میں بٹھایا گیا تو بیگم نصرت بھٹو نے دروازہ کھلا رکھنے کے لیے پائوں آگے کر دیا اور ایک بار پھر کہا I want to talk to himلیکن سپر نٹنڈنٹ جیل کی درخواست پر انہوں نے پائوں اندر کیا اور خاموشی اختیار کر لی ۔
رات جتنی مرتبہ بھٹو صاحب کی کوٹھڑی کے سامنے جیل کا عملہ انہیں دیکھنے گیا وہ لیٹے ہوئے تھے لیکن مسلسل جاگ رہے تھے ، رات بارش ہوئی اور جیل کی کچی زمین میں ہر طرف کیچڑ پھیل گیا۔یہ کہانیاں کہ بھٹو صاحب پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا اور وہ پھانسی کی سزا پانے سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے انتہائی غلط ہیں۔جب انہیں صبح سویرے چار بجے سے کچھ پہلے پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے عملہ آیا تو وہ خود بستر سے اٹھے اور بڑے باوقار انداز میں کوٹھڑی کے دروازے تک آئے انہوںنے عملے سے کوئی بات نہیں کی لیکن باہر پھیلے ہوئے کیچڑ کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکے جیل کے عملے نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں انتظار کرنے کو کہا اور پھر کچھ لوگ دوڑتے ہوئے گئے اور ایک کرسی اٹھا لائے ۔ بھٹو صاحب کو کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا تو وہ خاموشی سے اس پر بیٹھ گئے۔کچھ اہلکاروں نے کرسی اٹھائی اور انہیں پھانسی کی طرف لے گئے جہاں بہت لوگ موجود تھے ۔ یہ کہانیاں بھی غلط ہیں کہ انہوں نے وہاں کوئی تقریر کی یا پیغام دیا۔ میں نے تارا مسیح سے جو انٹرویو کیا اور اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اس نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ صاحب بڑے رُعب سے چلتے ہوئے پھانسی گھاٹ پر آئے اپنے آپ پر قابو رکھنے کے لیے انہوں نے ہونٹ سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ دبا رکھے تھے ۔ جب ان کے سر پر سیاہ ٹوپی نما کپڑا چڑھایا گیا اور پھانسی کا پھندا ان کے گلے میں ڈالنے کے کچھ دیر ہو گئی تو انہوں نے صرف دو الفاظ کہے ’’ فنش اٹ ، فنش اٹ ‘‘ اور اگلے ہی لمحے پھانسی کا عمل مکمل ہو گیا۔
دوسری طرف کی کہانی کے راوی بریگیڈ یئر (ر) صدیق سالک مرحوم ہیں جنہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا تھا کہ رات بھر ہم آرمی ہائوس میں رہے اور سب کاموں سے فارغ ہو کر جنرل ضیاء الحق نے ہمیں آرام کرنے کو کہا اور خود نفل پڑھنے لگے ، اس سے پہلے وہ ہدایت کر چکے تھے کہ آج رات کوئی شخص چھٹی کر کے گھر نہ جائے ۔ وقت گزرتا گیا۔ ہم اس فون کال کے انتظار میں بیٹھے تھے جس میں ہمیں پھانسی کے عمل کے بارے میں اطلاع ملنی تھی۔میرے متعدد سوالوں کے جواب میں بریگیڈیئر سالک نے کہا کہ شاید فیصلہ بہت بڑا تھا انسان تو اندر سے بہت کمزور ہوتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کو مطلع کیا کہ یہ پیغام آیا ہے اس کے لئے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیرا اور ہمارا پیغام سنا، جنرل ضیاء الحق نے زیر لب کوئی دعا پڑھی ۔ پھر اٹھے اورجائے نماز تہہ کیا اور ہم سے بولے اب آپ گھروں کو جا سکتے ہیں۔ بعد میں ہمیں اطلاع دینے والوں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ جہاز بھٹو صاحب کی میت لے کر لاڑکانہ کی طرف پرواز کر چکا ہے۔

بھٹو صاحب کے بارے میں آپ کوئی مثبت بات کہیں یا منفی ،برسوں بعد میں نوائے وقت ‘‘ لاہور میں میگزین ایڈیٹر تھا اور کسی کام سے مجید نظامی صاحب کے کمرے میں گیا جو میرے چیف ایڈیٹر تھے وہاں چوہدری ظہور الٰہی مرحوم بیٹھے تھے اور قصہ سنا رہے تھے کہ کس طرح سعودی حکومت نے جنرل ضیاء الحق کو پیشکش کی تھی کہ وہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا نہ دیں۔ سعودی حکومت اس بات کی گارنٹی دے گی کہ اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو سعودی عرب کا ایک طیارہ انہیں اپنے ملک لے جائے گا اور دس برس تک ان کی مہمان نوازی کرے گا اس سے پہلے وہ کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیں گے اور نہ پاکستانی حکمرانوں کے لئے ان کی جماعت کوئی مسئلہ بنے گی۔چودھری ظہور الٰہی نے بتایا کہ اس سے پہلے بھٹو صاحب پر الیکشن میں دھاندلی کے الزام کے بعد سعودی سفیر ریاض الخطیب نے پی این اے سے ان کے مذاکرات کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ بھٹو صاحب سے بات کرتے پھر سہالہ کے کیمپ میں جاتے جہاں نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد نظر بند تھے اور ان سے بات چیت کرتے۔ پھر لوٹ کر بھٹو صاحب سے ملتے۔ ان لیڈروں کی رہائی اور بھٹو صاحب سے مذاکرات میں ریاض الخطیب کا بڑا رول تھا۔بعد ازاں جب ضیاء الحق نے جن کے بارے میں کمانڈر انچیف مقرر کرتے وقت کسی نے بھٹو صاحب سے کہا جناب آپ مولوی کے اس بیٹے پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کر رہے ؟اور کیا وہ بدل نہیں جائے گا اور شرارت تو نہیں کرے گا کیونکہ وہ مودودی صاحب کی کتابیں بہت پڑھتا ہے تو بھٹو صاحب ہنسے اور انہو ں نے وہ جملہ کہا جو اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔ وہ بولے you are talking about that monkey. مجید نظامی صاحب کے کمرے ہی میں چودھری ظہور الٰہی نے تفصیل بیان کی تھی کہ جب سپر نٹنڈنٹ جیل سے کہا گیا جس کی قدرتی طور پر بھٹو صاحب کے ساتھ اچھی سلام دعا تھی انہوں نے جیل میں بند بھٹو صاحب کی کوٹھڑی کے پاس جا کر اشارتاً سعودی عرب کی اس پیشکش کے بارے میں کہا تو بھٹو صاحب انتہائی ناراض ہو گئے اور انہوں نے بہت سخت الفاظ استعمال کئے جنہیں دہرایا نہیں جا سکتا۔وہ چاہتے تو حامی بھر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے ۔بقول چوہدری ظہور الٰہی مرحوم یہ طے پایا تھا کہ بھٹو صاحب کی بیماری کی خبر نکالی جائے گی پھر بعض دوست ممالک ان کی پھانسی کی سزا ملتو ی کرنے اور انہیں علاج کے لئے باہر لے جانے کی درخواست کریں گے اور پاکستانی حکومت اس درخواست کو قبول کر کے خفیہ معاہدہ کے تحت انہیں سعودی عرب بھیج دے گی۔بعینہ میاں نواز شریف اور شہاز شریف اور ان کے اہل خاندان کو بھی اٹک جیل سے چھڑا کر اس یقین دہانی پر سعودی عرب بھیجا گیا تھا کہ وہ دس سال تک پاکستان سیاست میں حصہ نہیں لیں گے لیکن بھٹو صاحب نے یکسر انکار کر دیا۔وہ جب تک جیل میں رہے انتہائی وقار اور عزت سے رہے۔ انہیں کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا گیا ہاں وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے اور یہ کاغذ جیل سے سمگل ہو کر بی بی بینظیر کے پاس پہنچتے رہے اور انڈیا میں ان پر مشتمل انگریزی کتاب If I am assesinated اور جس کا اردو ترجمہ ’’ اگر مجھے قتل کر دیا گیا ‘‘ شائع ہوئی ۔
بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ اور پھانسی کی سزا ایک سپرپاور نے دالوائی ہے اور جنرل ضیاء ایک مہرے کے طورپر استعمال ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ سپر پاور ان سے ناراض ہے کیونکہ انہوں نے عالم اسلام کو متحد کرنے کے علاوہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور دبائو کے باوجود ایٹم بم بنانے کے ارادے سے باز نہیں آئے تھے تاہم مخالفین کا یہ دعویٰ تھا کہ بھٹو صاحب خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور انہیں خوش فہمی ہے کہ امریکہ اور دوسری سپر طاقتیں ان کے خلاف کام کرنے پر تلی ہوئی ہیں وگر نہ الیکشن میں دھاندلی کر نے خود کو اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ کامیاب کروانے کا مشور کیا امریکہ نے دیا تھا۔چودھری ظہور الٰہی سیاستدانوں میں بھٹو صاحب کے سب سے بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے جس قلم سے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کئے تھے۔ ضیاء الحق کا وہ قلم چوہدری ظہور الٰہی نے مانگ لیا تھا اور یوں انہیں پھانسی کی سزا دلوانے میں بالواسطہ ان کا بڑا رول تھا سیاست بھی عجیب دنیا ہے۔چوہدری ظہور الٰہی کے داماد چوہدری پرویز الٰہی کو آصف علی زرداری کے دور صدارت میں نائب وزیر اعظم کا نیا عہدہ تراش کر اقتدار میں شامل کیا گیا تو مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔چوہدری ظہور الٰہی پر حملہ کرنے اور انہیں جان سے مارنے والوں کا تعلق بھٹو صاحب کے جیالوں سے بتایا جاتا تھا اور محترمہ بے نظیر نے پاکستان واپسی سے پہلے نہ جانے کیوں چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے جنرل حمید گل (مرحوم ) اور بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا نام لے کر یہ کہا تھا کہ مجھ پر پاکستان میں کوئی حملہ ہوا تو اس کے پیچھے ان تین لوگوں کا ہاتھ ہو گا لیکن چوہدری پرویز الٰہی کو اس کے باوجود آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں نائب وزیر اعظم بنا دیا ، اس کا جواب تاریخ بہر حال ان سے ضرور مانگے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں