447

قائداعظم پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے تھے ؟

گو کہ پاکستان کے عوام قائد اعظم محمد علی جناح کا 145واں یوم پیدائش منا رہے ہیں یقینا کرونا وائرس نے جس طرح دُنیا بھر میں اجتماعات کو محدود کر رکھا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی ہر تقریب ایس او پیز کے مطابق ہو رہی ہے لیکن قائد اعظم کے یوم پیدائش پر بھر بھی روایتی جوش و جذبہ دیکھنے میں آئے گا ، دن کا آغاز مزار قائد پر گارڈ ز کی تبدیلی کے ساتھ ہو گا عمائدین حکومت روایتی طور پر یہاں حاضری دیں گے، تمام سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرایا جائے گا ، مختلف تقریبات میں بابائے قوم کی زندگی پر روشنی ڈالی جائے گی اور خصوصی پروگرائمز بھی ہوں گے ۔صدر مملکت سمیت کئی دیگر سربراہان ِ حکومت قائداعظم کو صاحب بصیرت انسان قرار دیں گے جنہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک الگ شناخت ، ضروریات اور سیاسی سمت کا تعین کیا تھا۔قوم کا متحد رہنے اور قائداعظم کے فلسفہ پر چلنے اور ان کے فرمودات اپنا کر آگے بڑھنے کی تلقین کی جائے گی۔اتحاد، یقین اور نظم و ضبط کی باتیں کی جائیں گی ۔وزیر اعظم قوم کو یہ بھی کہیں گے کہ ہمیں بحیثیت قوم ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے قائد کے وژن کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کا عزم کرنا چاہیے۔ لیکن پہلے تو موجود ہ حکومت کواس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی ریاست یا مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے تھے یا وہ ایک ایسی ریاست کے خواہاں تھے جس کی بنیاد سیکو لر اصولوں پر رکھی جائے ؟اس سوال کا جواب گو کہ آج تک شفافیت کے ساتھ اس قوم کو نہیں دیا گیا لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کیونکہ تو اتر کیساتھ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کر رہی ہے تو اس ضمن میں اس حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ عوام کو اس مخمصے سے نکالے کہ آخر بابائے قوم کا ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کے مطالبے کا مقصد کیا تھا۔حالیہ صورتحال تو یوں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تو خود اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نہ تو کوئی اچھا کام کر پار ہی ہے اور نہ ہی قوم سے کئے گئے ان وعدوں کی تکمیل کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جن کا نمونا کئی سال سے کیا جا رہا ہے یہ حکومت اپنے کسی بھی وعدے اور جُز وکو عملی جامہ نہیں پہنا سکی ۔اگر چہ قائداعظم نے پاکستان کو مضبوط صوبوں کے ساتھ ایک وفاق کی اکائی کی صورت دیکھا تھا۔قائد کی میراث کا الٹ جانا فقط یہیں تک محدود نہیں ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو اقلیتوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر دیکھا تھاجبکہ آج پاکستان کو امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے مذہبی عدم رواداری کے ریکارڈ رکھنے والے ممالک کی لسٹ میں نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے اور کیا یہ بات حقیقت نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں اقلیتوں کی صورتحال کو بہتر بنانے یا تحفظ دینے کیلئے قطعی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔کیا حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے فرمودات قائداعظم کے فلاحی ریاست کے خواب کو حقیقت بنانے کیلئے ایک قدم بھی اٹھا یا ہے ۔ یہ کام حکومتوں کا تھا اور ہے بھی کہ مصّور پاکستان او ر بابائے پاکستان اس ملک کو سیکولر ڈیموکریٹ بنانے کے خواہشمند تھے یا وہ اسے ایک مذہبی ریاست بنانے کی تمنا رکھتے تھے ۔کیا وہ اس بات کے حامی نہیں تھے کہ ایک ایسی ریاست بنائی جائے جہاں عقیدوں کو کاروبار مملکت سے کوئی واسطہ نہ ہو اور یہی خیال علامہ محمد اقبال کا بھی تھا ؟لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو انتہائی وضاحت کیساتھ قوم کی رہنمائی کی انتہائی ضرورت ہے تاکہ بانیان ِ پاکستان کے فلسفے کی اصل روح کے مطابق اس ریاست کے تاروپور بغیر کسی ابہام کے متعین کئے جا سکیں ۔کیا یہ بات درست نہیں کہ آج 73سال گزر جانے کے بعد بھی یہ سوال جو انتہائی اہم اور بنیادی بھی ہے اپنی جگہ موجود ہے کہ قائداعظم پاکستان کو کیسی ریاست بنانے کے خواہشمند تھے اور یہی سوال آج ان کی 145ویں سالگرہ پر بھی اٹھا یا جا رہا ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟اسلامی یا سیکولر ؟اس ایک سوال پر پاکستانی قوم بدستو ر تقسیم ہے ہر تاریخ دان اور محقق علیحدہ علیحدہ جوابات اپنی تحقیق و مرضی کے مطابق عوام کے سامنے رکھ دیتا ہے جو کہ ایک بڑی کنفیوژن کا باعث بن رہا ہے بلکہ چند مبصرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد خود بھی اس بارے میں واضح نہیں تھے ۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان اسلام پسندوں اور لبرلز کے مابین شائد پہلے کبھی اتنا منقسم نہیں تھا جتنا آج ہے ،پاکستانی ریاست کیسی ہونی چاہیے سیکولر یا اسلامی ؟ یوں نظر آتا ہے کہ پاکستانی عوام برطانیہ سے آزادی کے بعد آج تک بھی اس کنفیوژن کا شکار ہیں،پاکستانیوں کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور جناح خالصتاً ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسا ملک جہاں شرعی نظام ہو،دوسری طرف ملک کے سیکولر طبقہ کو یقین ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا خیال ہی خطر ناک ہے ان کے خیال میں قائداعظم ایک ماڈرن اور آزاد خیال انسان تھے وہ کوئی غیر روا دار ریاست کا قیام نہیں چاہتے تھے ،اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ دونوں قسم کے نقطئہ خیال کے حامی اپنی دلیلیں قائد کی تقریر وں اور تحریروں کے حوالے سے ہی دیتے ہیں۔آج قائد کا 145واں یوم ولادت ہے ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت کے ارباب بست و کشاد اس انتہائی اہم معاملہ کی طرف توجہ دیں گے ۔
بے رونق کرسمس
اگرچہ 25دسمبر کو دنیا بھر میں حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے دن کے حوالے سے کرسمس کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے یہ تقریبات کہیں بالکل نہیں اور کہیں انتہائی محدود پیمانے پر ہوں گی ، برطانیہ میں بھی کیونکہ حکومتی احکامات اس ضمن میں انتہائی سخت ہیں کہ زیادہ افراد کے اجتماعات سے پرہیز کیا جائے اس لیے یہاں بھی کرسمس کی روایتی رونقین ماند ہوں گی، مغربی دنیا میں اس دن کو کر سمس کہا جاتا ہے لیکن پاکستان سمیت برصغیر کے دیگر ممالک میں اس دن کو ’’ بڑا دن ‘‘کہا جاتا ہے ۔کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ’بڑے دن ‘ کی روایات کیا ہیں، اگر ہم پاکستانی ثقافت کو روایات کا مجموعہ کہتے ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی لہٰذا برصغیر میں دیگر تمام تہواروں کی طرح بڑا دن بھی بڑے پیمانے پر عیسائی مناتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ کی ولادت کیونکہ مسلمانوں کیلئے باعث سعادت ہے اس لیے کہیں کہیں مسلمان بھی اس دن کو مقدس جان کر مناتے ہیں۔برصغیر میں کرسمس کو بڑادن پکارنے کی وجوہات جو بھی ہوں یہ حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا احترام تمام مذاہب کے ماننے والے کرتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ زمانہء قدیم میں برصغیر پاک و ہند میں کرسمس کا نام رومن فیسٹول بھی رکھا گیا تھا لوگ اس خوبصورت موقع پر ایک دوسرے کو تحائف بھی دیتے تھے،جب آہستہ آہستہ ہندو ستان میں عیسائیت نے پنپنا شروع کر دیا تو انہوں نے اس تہوار کو بڑا دن کہنا شروع کر دیا اس کے علاوہ بھی حضرت عیسیٰ کی ولادت کے دن کے حوالہ سے کئی دیگر کہانیاں بھی برصغیر میں بیان کی جاتی ہیں۔
(ایڈیٹر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں