258

بریگزٹ کے بعد پاک برطانیہ تجارت

آج جب برطانیہ یورپی یونین سے مکمل طور پرعلیحدگی اختیار کر چکا ہے اور غیر پورپی ممالک سے اپنے تجارتی تعلقات پر بھر پور توجہ دے رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان کے لئے یہ بے مثال موقع ہے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ پہلے سے موجود اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرے ، اس وقت پاکستان کیونکہ سی پیک کی وجہ سے چین کے ساتھ ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہا ہے تو اس لئے یہاں پر تجارتی مواقع موجود ہیں جن سے پاکستان اور برطانیہ دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے ،بنیادی طور پر اس متوقع تجارت کی درجہ بندی تین سطحوں پر کی جا سکتی ہے مثلاً، دوطرفہ معاشی تعلقات ، تحقیق اور ترقیاتی تعاون ،سامان و دیگر مصنوعات کی درآمد اور برآمد کے فریم ورک ، لہٰذا اس منظر نامے میں بہترین فیصلے پاکستان کیلئے وہی ہوں گے جو مستقبل کے منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں گے ،پاکستان کی 220ملین کی آبادی کو سامنے رکھا جائے تو یہ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں اشیائے ضروریہ کی کھپت کے بے شمار مواقع ہیں ۔برطانیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی روابط کو فروغ دے کر انہیں مزید بڑھا کر فوائد اٹھا سکتا ہے ،پاکستان کی 64فیصد آبادی 18سے 30سال کے درمیان ہے، پاکستان چین کوریڈور کے تحت علاقائی رابطے کے اس فریم ورک کے تحت سڑکوں ، ریل اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی مد میں اگلے 15سال کے دوران 62ارب ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبے مکمل کئے جائینگے اور یہ بڑی رقم چینی بنکوں اور دیگر نجی سرمایہ کار مہیا کریں گے ۔برطانیہ یقینا اس صورتحال کو بڑی گہرائی سے دیکھ رہا ہے کہ سی پیک جیسا منصوبہ پاکستان کی درآمدی و برآمدی توانائی کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا اس لئے پاکستان کے ساتھ تجارت کا حجم زیادہ کر کے باہمی فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان نے خود بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے بین الاوزارتی روابط اور معاشی سفارتی حکمت عملی کو کو اپنا یا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پاکستان کی تجارتی پالیسی اور ترجیحات کو طے کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری آسان بنانے کیلئے دفتر خارجہ دیگر وزارتوں کے ساتھ ملک کر کام کرے گا۔اس کے تجارتی شراکت داروں کیلئے پاکستان کے سفیر وں کے حالیہ کنونشن میں ہونے والی بات چیت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی حکمت عملی کے طور پر اقتصادی سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے گی انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے وہ بریگزٹ کے بعد کے ماحول میں پاک برطانیہتجارت کو دونوں ممالک کیلئے بہترین سمجھتے ہوئے اپنے ایجنڈے میں اسے سرفہرست رکھیں گے ،شاہ محمود قریشی نے پاک برطانیہ وزراء خارجہ کے مابین ہونے والے تجارتی معاہدوں پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ، اس ضمن میں یہ صورتحال خوش آئند ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ پہلے ہی مینو فیکچرنگ اور دیگر سروسز کی صنعتوں میں اپنی استعداد کو جانچ چکا ہے اور لاجسٹک اینڈ ٹرانسپورٹ ، تعمیر ، اعلیٰ تعلیم، زرعی ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں معیاری اور کوالٹی کنٹرول ، تحقیقی تعاون اور تربیت کی اعلیٰ مانگ پر اپنا ہوم ورک کر چکا ہے اس پر مزید سنجیدگی سے کام بھی ہو رہا ہے ، تیزی سے بڑھتی ہوئی انٹرنیٹ انڈسٹری اور کامرس مارکیٹ میں بھی برطانیہ کیلئے بیشمار منافع بخش مواقع موجود ہیں۔پاکستان میں ای کامرس ، آٹومیشن میں انتہائی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے ۔برطانیہ اس شعبہ میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر سکتا ہے ،زرعی ٹیکنالوجی ، صحت، تعلیم اورٹیکسٹائل کے شعبہ جات میں بھی بڑا مارجن برطانیہ کیلئے سود مند ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات ، چاول ، کھیل اور چمڑے کے سامان اور جراحی کے آلات شامل ہیں جن میں پاکستان بڑی حد تک منافع کمارہا ہے ،اس کے علاوہ ماہی گیری ، معدنیات ، پولٹری ، گوشت ، جواہرات و زیورات کی نئی منڈیاں بھی تلاش کی جا رہی ہیں ، اس وقت پاکستان میں جو کمی ہے وہ معیاری تحقیق ، تعلیم اور صنعت کے درمیان روابط کے شعبوں میںہے اور برطانیہ یہ کمیاں پوری کرنے میں معاون ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اس آپریشنل مہارت کا فقدان ہے۔ حکومت برطانیہ چونکہ تجارت و سرمایہ کاری کیلئے کاروباری تعاون کو بہتر بنانا چاہتی ہے ۔ یقینا برطانیہ اس ضمن میں ویزے کے حصول کیلئے بھی نرمیاں پیدا کرے گا کیونکہ برطانیہ یہ سمجھتا ہے کہ ویزا اور امیگریشن کے معاملات پاکستا ن کے سرمایہ کا روں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتے ہیں خاص طور پر نئے کاروباری طبقے اور نئے درآمدگان و برآمدگان کیلئے جو عموماً ویزہ کے معاملات میں الجھ کر برطانیہ کے ساتھ سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں