315

سورۃ البقرہ کی آیت154کی تفسیر


وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات’‘ بَلْ اَحْیَاء وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
’’ اور نہ کہا کرو جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں تو وہ مردہ ہیں بلکہ کہا کرو وہ زندہ ہیں ہاں یہ ہے کہ ان کی زندگی تمہارے شعور سے بلند ہے ۔ ‘‘
گزشتہ آیت میں کہا گیا تھا کہ میرے دین میں استقلال اور استقامت کے لیے صبر اور نماز کو خدائی مددوں کا ذریعہ بنائو اور پرعزم رہتے ہوئے اپنی روح اور دل کو اس اعتماد سے بھر دو کہ صبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر تم لوگ فضیلتوں کی یہ خوشبو حاصل کرنے کے لئے اعلائے کلمۃ اللہ کے مقصد کی خاطر اپنے نفوس قربان کر بیٹھے تو یہ خیال نہ کرنا کہ تم ضائع ہو گئے ہیں ۔ اس پختہ یقین کی راہ ہر گز نہ چھوڑنا کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے وہ مرد ہ نہیں زندہ ہوتا ہے ۔
شہید سراپائے شعور ہوتا ہے وہ ایک عظیم مقصد کو زندگی ہی میں پالیتا ہے ۔ وہ روح کی تلاش کر لیتا ہے اسے زندگی کا سرچشمہ مل جاتا ہے ۔ وہ سمجھ جاتا ہے روح اصل ہے اور جسم فرع ہے ۔ شکم مادر میں قلب کو حرکت روح ہی سے ملتی ہے ۔ اللہ نے توانائیوں کا راز قلب اور ضمیر میں رکھا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ وہ شخص جو شہادت کو سمجھتا نہیں وہ بے شعور ہے ۔ ایک بڑے مقصد کی خاطر چھوٹی چیز قربان کر دینا اصل شعور ہے ۔ سنگریزے دے کر سونے کی ڈلیاں لے لینا حماقت نہیں ، دانائی کا عظیم الشان نشان ہے۔ مٹی دے کر روغن بہشت پالینا بے وقوفی نہیں دانشمندی کی علامت ہے۔ جیسے لکڑی کا ٹکڑا ، پانی کی بوتل اور ہوا دار گیند پانی میں ڈوبتی نہیں ایسے ہی روح جلتی نہیں۔ ڈوبتی نہیں اور مٹتی نہیں ۔ شہید وہ عظیم مرتبہ پانے والا رجل عظیم ہوتا ہے جسے اللہ روح واپس لوٹا دیتا ہے ، اس لئے وہ مردہ نہیں ہوتا ، مردے تو وہ ہوتے ہیں جنہیں روح حیات کی تعریف نہیں آتی ۔ شہادت کا بڑا درجہ ہے ، عمیق فضیلت ہے ۔ یہ تھوڑی بات ہے کہ اللہ خود فرما رہا ہے جو شخص اللہ کی راہ میں جان دے دے اسے مردہ نہ کہو اگر کہو گے تو سمجھ لو کہ تم بے شعور ہو۔ میرا خیال ہے آیت کا عمود تقابل شعور ہے ۔ شہید تو شعور کی تابندگی میںمنزل پا گیا ہوتا ہے ۔ ماتم تو ان چلنے پھرنے والے انسان نما حیوانوں کا ہے جو مقام شہادت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ آیت کی اصل دعوت شعور ِ شہیداں تک رسائی ہے۔شہید کو مردہ کہنا تو دور کی بات ہے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اس کے مردہ ہونے کا گمان بھی ذہن میں لانا حرام ہے ۔ شہید کے لئے بڑی روزیاں ہیں، آنکھوں کی ٹھنڈک ، دل کا سکون ، مقصد پا لینے کا اطمینان ، حسن المآب کی سیر یں، جنت کی الطاف ، امام شہیداں کی زیارت ، بارگاہ ایزدی کا شہود ، ان کی راہ چلنے والوں کے عزائم ، نویدیں ، خوشخبریاں ، بشارتیں ، فضل و انعامات کوئی ایک روزی تھوڑی ہی ہے۔ رحمتوں ، برکتوں کی دنیا ئیں ہیں جو شہیدوں کے پائوں میں رکھ دی جاتی ہیں، مالک کی مرضی پانے کے لیے موت کے سمندر میں شعور کی بیداری میں کود جانا چھوٹی بات تھوڑی ہی ہے۔ یہ تو ستاروں سے پوچھو شب بھر جھلملانے کے بعد انہیں نیلگوں گہرائیوں میں چھلانگ لگا دینے سے ملتا کیا ہے ۔کھلی ہوئی گلاب کی پنکھڑیوں سے سوال کرو کہ حدت آفتاب سے خود کو جلانے کا کیا فائدہ ہے اور پروانے سے فتویٰ پوچھو روشنی کے چہرے پر خود کو فدا کر دینا خود کشی ہے یا شہادت ، بات تو شعور اور سمجھ کی ہے ۔
مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے سر پر ضرب شہادت نے ماحول کو خون خون کر دیا لیکن علی کرم اللہ وجہ الکریم کہنے لگے ’’فزت برب الکعبہ ‘‘رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ‘‘ ۔ امام عالی مقام نے جام شہادت نوش کر لیا لیکن سر سے قرآن پڑھنے کی آواز برابر آتی رہی ۔ یہ ختم قل کی آواز نہیں تھی شہادتوں کے ترانے تھے اور جذبوں کی قندیلیں منور کرنا تھیں۔ قاسم و علی اکبر بابا کی دعوت پر فدا ہو گئے ۔ یہ شعور اہل بیت کی چمک تھی اور یزید یت کے نار ِ جہنم میں ذلت کے ساتھ پٹخ دینے کا اعلان تھا۔ شہادتیں طلحہ کے زخم بھی ہیں ، حمزہ کی مظلومانہ تصویریں بھی ہیں ، مصعب کے عزائم بھی ہیں ، عثمان کی تلاوتیں بھی ہیں ، ابن رواحہ کے رجز بھی ہیں اور جعفر کے بدن سے بوند بوند ٹپکنے والے خون کے قطرے بھی ہیں ۔ میں کہہ سکتا ہوں وجود عمر سے فضلیت مآب مقاصد کے فہم کی شعائیں بھی ہیں جو خون کے قطروں کی صورت میں ٹپکیں ۔ زہر حسن المجتبیٰ کو پلائی گئی لیکن موت زہر پلانے والوں کا نصیبہ ہو گیا اور حیات آفتاب و ماہتاب بن کر حسن نام کے ایک ایک حرف سے جلوہ فگن ہونے لگ گئی ۔ بڑی بات ہے جو بڑا اس کا فیصلہ بھی بہت بڑا ہے کہ جو شہید ہو گا اس کی وجہ سے اس کے خاندان کے ستر لوگوں کا گناہ معاف کر دیا جائے گا ۔ ایک مرتبہ ایک مجذوب محبت سے ملاقات ہوئی تھی، اس نے کہا تھا کیا بات ہے چار قطروں کی : مومن محب کی آنکھ کا قطرئہ رشک جس سے کردار پیدا ہوتا ہے اور ابرنیساں کا قطرہ جو درِنایاب تخلیق کر دیتا ہے اور قطرئہ مادئہ تولید جس سے تصویر کائنات میں رنگ آ جاتا ہے اور قطرئہ خون ِ شہیداں جو زندگی کی حکمتوں کا ملکوتی اور لاہوتی معلم بن جاتا ہے ، شعور ِ شہیداں بھی بڑی چیز ہے اور اچھی چیزوں کو نہ ماننا سفلہ شعوری کی بدترین قسم ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے:
شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں۔ جنت میں جہاں چاہیں وہ لطف اندوز ہو لیں اور پھر جب چاہیں عرش کے نیچے لٹکتی قندیلوں پر آ کر بیٹھ جائیں ۔ رب ان سے دریافت کرتے ہیں اب تمہاری تمنا کیا ہے ؟
وہ کہتے ہیں رب ہمارے !تو نے ہمیں وہ دکھا دیا ہے جو کسی کو نہیں دکھایا پھر ہمیں اور کیا چاہئیے دوبارہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنی تمنا کا اظہار اس طر ح کرتی ہیں : ہمیں تو دوبارہ دنیا میں بھیج ہم پھر تیری راہ میں لڑیں ، شہادت مکرر سے لطف مند ہو کر تیری بارگاہ میں حاضر ہو جائیں۔
رب کریم فرمائیں گے ایسے نہیں ہو سکتا میں نے لکھ دیا ہے کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ نہیں سکتا (108)۔
اس آیت کے شان نزول میں فخر الدین رازی نے لکھا (109):
یہ آیات مقتولین بدر کے بارے میں اتریں ، اس دن مسلمانوں میں سے چودہ افراد شہید ہوئے ۔ چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصار تھے ۔ شہداء کے اسماء یہ تھے ۔
1۔ عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب
2۔ حضرت ذوشمالین
3۔ حضرت عمرو بن نفیلہ
4۔ حضرت عمر بن ابی وقاص
5۔ حضرت عامر بن بکر
6۔ حضرت مہجبع بن عبداللہ
7۔ حضرت سعید بن خیثمہ
8۔ حضرت قیس بن عبدالمنذر
8۔حضرت قیس بن عبدالمنذر
9۔ حضرت زید بن حارث
10۔ حضرت رافع بن المعلی
11۔ حضرت تمیم بن الھمام
12۔ حضرت حارثہ بن سراقہ
13۔ حضرت معوذ بن عفرا
14۔ حضرت عوف بن عفرا
شہداء کے بارے میں منافقین نے منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ لوگ مر گئے ، قتل ہو گئے ہیں۔
اللہ نے اس آیت میں منع فرما دیا کہ شہدا ء کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ۔
حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ حضور انور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ حامل قرآن جب مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گوشت کو نہ کھا نا ۔ زمین عرض کرتی ہے رب کریم میں اس کا گوشت کیسے کھا سکتی ہوں کہ اس کے دل میں تیرا کلام محفوظ ہے (110)
علامہ اویسی نے علامہ فناری کے حوالہ سے جو کچھ لکھا تعجب ناک ہے کہ حیات شہدا ء محض خیالی ہے ۔ ہمارے لئے مناسب یہی ہے کہ ہم قرآن کے ساتھ چلیں۔ یہ رویہ افسوسناک ہے کہ ہم شعروں ، خیالو ں اور رویوں سے قرآنی احکام کو منسوخ کر دیں۔ حیات شہداء حقیقی ہے قرآن یہی کہتا ہے اور ہمیں قرآن ہی کی بات ماننی چاہئے (111)۔
بعض شیعہ مفسرین نے بھی کارناموں کو حیات سے تعبیر کر دیا ہے یہ بھی پہلی بات کی طرح تعجب ناک ہے (112)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں