493

سورۃ البقرہ کی آیات 180، 182،181کی تفسیر

’’تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کسی ایک پر موت آئے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو ومیت کر دے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق یہ ضروری ہے اُن لوگوں کے لئے جن میں تقویٰ ہو‘‘
’’کتب‘‘ کا لفظ فرض کئے جانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ’’علیکم‘‘ میں خطاب ایمان والوں ہی سے ہے۔ وصیت عربی زبان میں ہر اس ہدایت اور نصیحت کے لئے استعمال ہونے والا کلمہ ہے جو بڑوں کی طرف سے چھوٹوں کے لئے ہو، ضروری نہیں کہ ہدایت موت کے وقت ہو، عام حالات میں دی جانے والی ہدایت وصیت ہو سکتی ہے۔ علامہ محمدالعثمین اپنی تفسیر الکنز الثمین میں لکھتے ہیں کہ آیت میں وصیت مصدری معنوں میں استعمال ہوا ہے اور کلام میں اپنے فعل سے فاصلہ پر ہے اس وجہ سے مؤنث اورمذکر ہونے کا لحاظ نہ تو فعل میں ضروری ہوا اور نہ ہی بعد کی ضمیروں میں ضروری سمجھا گیا (178)۔
امین اصلاحی کا تجزیہ مناسب ہے کہ آیت میں دو شرطیں لگائی گئیں: ایک یہ کہ آدمی وصیت اُس وقت کرے جب موت اُسے قریب نظر آئے اور دوسری یہ کہ وہ کچھ مال پیچھے چھوڑ رہا ہو۔ پہلی شرط کا ذکر ’’اذا‘‘ کے ساتھ ہوا اور دوسری شرط کا ذکر’’ ان ‘‘کے ساتھ ہوا۔ دونوں پہلوؤں کی رعایت یہ حکمت رکھتی ہے کہ جو چلتی پھرتی زندگی میں وصیت کر دیتے ہیں بسا اوقات الجھنیں انہیں گھیر لیتی ہیں اور جو لوگ مال رکھتے ہوئے وصیت سے گریز کرتے ہیں، ایسے بھی ہوتا ہے کہ وہ پیچھے جھگڑے چھوڑ جاتے ہیں (179)۔
روح البیان کی خوبصورت حکایت
موت کے وقت ایک شخص نے اپنی اولاد کے لئے وصیت کی ۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو آپ نے اُس شخص سے پوچھا تمہارے پاس کس قدر مال ہے ؟ اُس نے عرض کی صرف تین ہزار، آپ نے استفسار کیا اولاد کتنی ہے؟ وہ عرض کرنے لگا چار افراد، ام المومنین نے فرمایا کہ خیر مال کثیر کو کہتے ہیں جب کہ تمہارا مال کم ہے اس لئے اسے ورثاء کے لئے چھوڑ دو (180)۔
راغب اصفہانی نے لکھا کہ خیر اس مال کو کہتے ہیں جس میں تین چیزیں ہوں (181):
(1) طبیعت اُس کی طرف رغبت کرے
(2) اس کا نفع مسلمہ ہو
(3) اس میں کوئی شر کا پہلو نہ ہو
127
خیر کا اطلاق صرف مال پر نہیں ہوتا یہ ا فعال حسنہ کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ یوں ہی اچھی سوچیں بھی خیر ہوسکتی ہیں۔ آیت میں ’’سقا‘‘مفعول مطلق ہے۔ مفہوم یہ ہوگا کہ یہ وصیت ان ڈرنے والوں پر لازم ہے جو مال کو ضائع کرنے اور قریبی رشتہ داروں کو محروم کرنے سے بچتے ہیں ۔ آیت میں’’ معروف“ کا لفظ دستور کے لئے مستعمل ہے جو بذات خود تلقین ہے کہ کوئی وصیت آئین و شریعت کے منافی نہیں ہونی چاہئے۔
’’ہاں تو جس نے وصیت کو سننے کے بعد اُ سے تبدیل کر دیا تو اُس کا گناہ اُن سب پر ہوگا جو تبدیل کرنے کے عمل میں شریک ہوں گے بے شک اللہ سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت میں وصیت کو نافذ کرنے کی راہ میں جو رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کا ازالہ کیا گیا ہے ۔ آیت میں مضمون کی نوعیت روحانی اور نفسیاتی ہے۔ کسی آدمی کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد وصیت کو نافذ کرنے کے لئے روحانی اور اخلاقی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے کہ وصیت کرنے والا دنیا سے جا چکا ہوتا ہے، اگر کوئی شخص مفادات اور اغراض فاسدہ کا شکار ہو جائے تو وہ وصیت میں تبدیلی لاسکتا ہے اس لئے قرآن حکیم نے تبدیلیاں لانے والے کو مجرم قرار دیا ہے اور دوسری طرف جو دنیا سے وصیت کر کے چلا گیا اُسے تبدیلی کی صورت میں بری قرار دے دیا گیا 182۔
آیت یہ بھی بتلاتی ہے کہ وصیتوں میں ہر قسم کا تغیر اور تبدل بدا مانتی ہوتی ہے البتہ ہر قانون میں کچھ استثنائی پہلو ضرور ہوتے ہیں مثلاً قانونِ وراثت کے مطابق وصیت میں اصلاح کر دینا اور وصیت کو صرف تہائی مال میں نافذ کرنا یا پھر موصی کا وصیت کسی ایسی چیز میں کر دینا جو جائز نہ ہو مثلاً شراب، خنزیر اور کسی گناہ کی وصیت کر دینا ایسی صورت میں اصلاح اور تبدیلی جائز ہو گئ (183)۔
ایک اہم بات
قرآن مجید میں وصیت کی آیات یہ حکمت بھی بیان کرتی ہیں کہ قانون اسلام کی جامعیت معاشرے کو زیروز بر ہونے سے بچاتی ہے اور ایک حد تک دنیا سے جانے والے کی آرزوؤں کو ادھورا نہیں چھوڑتی۔ ایک طرف اُس کی خواہشات کا بھی احترام کرتی ہے اور دوسری طرف اس قانون کو بھی ور ہم پر ہم نہیں ہونے دیتی جو اللہ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے عطافرمایا ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنے مال کے تیسرے حصے کے متعلق کوئی پروگرام چھوڑ سکتے ہیں اگرجذ بہ یہی ہو تو معاملات کو مجہول چھوڑنے کی بجائے دستیت سے مستحکم کرنا زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دوصفات لائی گئی ہیں:
ایک اس کا سمیع ہونا اور دوسرا س کا علیم ہونا۔ دونوں کا تعلق وصیت کے ساتھ بھی ہے کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ اس کا کوئی فعل اللہ کے علم میں نہیں۔ جب ہر چیز اس کے علم میں ہے اور وہ ہر ایک کی سنے والا بھی ہے تو آج وصیتوں کو محفوظ رکھا جائے ان میں تبدیلی نہ لائی جائے ۔ انہیں اپنی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تا کہ اللہ کی نظر اور حمایت حاصل ہو اور ظلم سے بچا جا سکے۔
دوسرا یہ کہ آیت کے آخر میں اللہ کا ذکر تلقین کر دیا گیا اُس کے ذکر کی برکت سے آیات اور
احکام پر عمل آسان ہو جائے ۔ واللہ اعلم
’’جو خوف محسوس کرے وصیت کرنے والے کے بارے میں طرف داری یا بد دیانتی کا تو سب میں معاملہ کو سدھار دے ایسی پیش بندی میں کوئی گناہ نہیں بے شک اللہ بخشنے والا بے حد مہربان ہے۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت میں وصیت کے قانون کو معاشرتی اعتبار سے جو چیزیں غیر مؤثر بنا دیتی ہیں ان کا حوالہ قائم کر کے قاری قرآن کو قیام عدل کی تحریص دلائی گئی ہے۔ عدل و انصاف سے انحراف وصیت کی معنویت اور روحانیت دونوں کو برباد کردیتا ہے۔’’ اثم‘‘ ایسے گناہ کو کہتے ہیں جو بر بادی کو ایٹمی آگ کی طرح روح تک جا پہنچاتا ہے اور جنبہ داری در اصل نفس کی رذالت اور کمینگی کا دوسرا نام ہے۔ ’’جنفا‘‘ یہ ہوتا ہے کہ ترکہ ورثاء میں سے بعض کو حاتم طائی بن کر نواز دینا اور بعض حق داروں کو محروم کر دینا اور’’اثم ‘‘کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ مال کو حرام اور گندگی کی باتوں میں کھپانے کی وصیت کرناجس سے شیطانی رجحانات کو تقویت ملے اور اسلام کی روحانی تعلیمات کو نقصان پہنچے۔
قرآن مجید میں’’ فاصلح بینھم ‘‘کے الفاظ اسلام کے اصلاحی مزاج کا پرچم بلند کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ اصطلاح مالی امور میں کئی ایک بے اعتدالیوں کا دروازہ بند کر دینے کی تحریص دلاتی ہے۔ آیات وصیت میں تین اصطلاحیں معنی خیز ہیں جو معاشرے کو ترقی کا مستحکم منہاج عطا کرتی ہیں:
1 ۔خیر2 ۔وصیت اور تیسری اصطلاح معروف خیر اور خوبی کی ہر جہت کا احاطہ کرتی ہے۔
وصیت دوسروں کے لئے سوچ اور فکر کو گہرا اور منفعت خیز بناتی ہے اور اصلاح، فساد اور بربادی کی ہر راہ کو بند کر کے معاشرتی استحکام اور تعمیر کی فضا بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں