135

سورۃ البقرہ کی آیت 186کی تفسیر

اور اے محبوب! جب آپ سے سوال کریں میرے بندے میرے بارے میں تو یقین رکھئے میں اتنا قریب ہوتا ہوں کہ دُعا مانگنے والا جو انہیں دُعا مانگتا ہے میں اُس کی دُعا قبول کر لیتا ہوں تو انہیں بھی چاہئے کہ میرا حکم مانتے رہیں اور مجھ پر ایمان مضبوط رکھیں تا کہ وہ کامیاب رہیں۔
شان نزول
ایک اعرابی نے رحمت عالم ؐکی خدمت میں عرض کی یا سیدی یا رسول اللہ! کیا ہمارا رب قریب ہے۔ اگر وہ قریب ہے تو ہم سرگوشیاں کریں اور اگر وہ ہم سے دور ہے تو ہم اُسے زور زور سے پکار ہیں۔ اس پر حضور انور خاموش ہو گئے اس پر یہ آیت اتری207) )
ابن جریر طبری کی روایت
ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں کہ صحابہؓ کی حضور ؐکی خدمت میں
عرض کی ہمارا رب کہاں ہے؟ اس پر یہ آیت اتری اور معرفت کا فیض ارزاں کر دیا گیا 208) )
مسند امام احمد کی روایت
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں209))
بندہ میرے ساتھ جو عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اُس سے ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں ۔ جب وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اُس کے ساتھ ہی ہوتا ہوں۔
بغوی کی روایت
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو لوگ ایک وادی میں اوپر چڑھے تو کہا اللہ اکبر اللہ اکبر لا اله الا الله آواز میں بلند ہو ئیں تو حضور نے ارشاد فرمایا: ٹھہرو! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ اُسے پکار رہے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بھی ہے اور قریب بھی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ ہے210))
عارف باللہ ابونصر بقلی کی باتیں
عرائس البیان میں بقلی لکھتے ہیں211) )کہ آیت میں محبوب کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: محبوب ! جب آپ سے خاص محبت اور توحید والے میرے بارے میں سوال کریں تو ان کی روحانی طمانیت کے لئے اُن سے فرما دیں میں دور نہیں قریب ہوں، ان کے دلوں میں جو اسرار محبت بھڑک رہے ہیں میں ان سے آگاہ ہوں ان کے نفوس میں محبت کی گرمی خاص میری وجہ ہی سے شعلہ بنی ہے۔ محبوب میرا راز ان پر کھول دیں میں اپنے بندوں سے’’ بلائین “ اور ”بلا بین ‘‘قریب ہوں یعنی جدا بھی نہیں اور مشخص بھی نہیں۔
علامہ بقلی ہی نے لکھا کہ محبوب جب خواص اُمت میرے بارے میں سوال کریں تو انہیں قریب ہونے کا مژدہ سنائیے اور جب مشتاق اور عاشق میرے بارے میں پوچھیں تو انہیں ہر قریب سے اقرب ہونے کی خوشخبری دیں۔ قاضی رویم کہا کرتے تھے کہ ہر شک ، ارتیاد، اعتراض اور غبار کا اٹھ جانا قرب ہے یہ عاشقوں ہی کو حاصل ہے ۔ حضرت جنید بغدادی اس کی تشریح یوں کیا کرتے تھے کہ اللہ اجتماع کے بغیر قریب ہے اور افتراق کے بغیر بعید ہے۔ جس وقت طبائع میں حیا رچ بس جائے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب فیض بار ہوا ہے212))
ابن کثیر لکھتے ہیں(213 )کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ آپؐنے ارشاد فرمایا کہ یہ ارشاد اللہ کا ہے: وہ فرماتا ہے اے ابن آدم ! ایک چیز تیری ہے ایک میری ہے اور ایک تجھ میں اور مجھ میں بین بین ہے، خالص میری یہ ہے کہ تو میری عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تیری یہ ہے کہ میں تیرے ہر عمل کا پورا پورا بدلہ ضرور دوں اور تیری کوئی نیکی ضائع نہ ہونے دوں اور درمیان کی چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں ، دعا کرنا تیرا کام اور قبول کرنا میرا کام ( بزار)۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ دُعا کی آیت کو اللہ نے روزوں کے احکام کے درمیان وارد فرمایا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ ہر روز یہ افطار کے وقت بکثرت دعائیں کریں۔
حضور ملی تم نے ارشاد فرمایا که روزه دار بوقت افطار جو دعا کرتا ہے اللہ اُسے قبول فرماتا(214)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ افطار کے وقت اپنے گھر والوں اور بچوں کو بلا لیتے اور دعائیںکیا کرتے تھے۔ (ابوداؤ ، طیالسی ، ابن ماجہ )
الکنز العثمین کے پندرہ فوائد
علامہ محمد بن صالح العثمین نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر الکنز العثمین میں آیت کے پندرہ فوائد لکھے ہیں۔ چار متفرق اور گیارہ یکجا قلم بند کئے ہیں215))
پہلا فائدہ
آیت میں فانی قریب سے پہلے قل مقدر ہے۔ مفہوم تفسیر یہ ہے کہ رب کریم کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہے لیکن خطاب حضورؐ سے ہے یعنی اے محبوب ! کوئی شخص تیرے در کا سوالی بن کر آئے تو پھر وہ مجھے دور نہیں پائے گا میں اُس سے قریب ہی ہونگا تیرا سوالی بن جانا شرط ہے۔
دوسرا فائدہ
آیت میں محبوب کے لئے ایک بار کہا جو تیرا سوالی ہو پھر اپنے لئے سات بار واحد متکلم کا انداز اختیارفرمایا حسن اسلوب کی نگہتیں ملاحظہ ہوں :
اور جب کوئی تجھ سے سوال کرے
1۔عنی میرے بارے میں
2۔ فَانِي قَرِيبٌ تو پھر میں قریب ہوں
3۔عِبَادِی میرے بندے
4۔ اُجیب میں قبول کرتا ہوں ، جواب استجابت دیتا ہوں
5۔اِذَا دَعَانِ جب مجھے کوئی پکارتا ہے
6۔فلیستجیبوالی تو چاہئے کہ میرے احکام مانیں
7۔ ولیئومنوابی اور مجھ پر ایمان رکھیں
’’لعلھم میں وہ کو آیت نے رحمتوں کی لپیٹ میں لے کر رشد و ہدایت کا انعام ان کے نام کر دیا۔ آیت میں تو ۔۔ میں۔۔ میں۔۔ مرا۔ میری۔۔ مجھ پر ۔۔ مجھ سے اور مجھے اور آخر میں وہ کتنا مزے کا اسلوب ہے خوش بختی کا، جیسے سمندر موجزن ہو ، دل کی دھڑکنیں تو میں تو میں، تو میں عجب کیف پیدا کر رہی ہیں، یہ سب معانی علامہ عثمین کے لفظ قل مقدر ماننے سے مستفاد ہوئے ہیں۔
تیسرا فائدہ
روزوں کی آیت کے بعد دعا بتاتی ہے کہ روزہ دعاؤں کے قبول ہونے کا مؤثر سر چشمہ ہے۔
چوتھا فائدہ
آیت میں بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رافت اور رحمت کے دریا بہادئے گئے ہیں۔
پانچواں فائدہ
آیت اس خاص تعلق کو ظاہر کر دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور محمد ؐکو حاصل ہے۔
چھٹا فائدہ
خاص خاص لوگوں کی دعا ئیں عام لوگوں کی نسبت زیادہ سنی جاتی ہے۔
ساتواں فائدہ
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ممکن ہے، اس لئے یہ آیت پوری طرح اعلان کر رہی ہے کہ یہ ہے سیدھا راستہ جس پر چل کر اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آٹھواں فائدہ
اللہ تعالیٰ کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت سمع ثابت کرتی ہے۔ ایسے نہیں کہ کوئی دعا مانگتا ر ہے اور اُسے سنا نہ جائے ۔ اللہ تعالیٰ دعاؤں کا سننے والا ہے۔
نواں فائدہ
اس آیت سے اللہ کے لئے قدرت بھی ثابت ہوتی ہے کہ صرف اللہ دعاؤں کو سنتا ہی نہیں وہ دعاؤں کو معنی وفا دینے پر بھی قادر ہے۔
دسواں فائدہ
آیت میں اللہ تعالیٰ کے لئے کرم بھی ثابت ہے کہ اُس کی صفت ہے کہ اُسے جب بھی کوئی پکارے وہ ضرور دعاؤں کو پورا کرتا ہے اگر ان دعاؤں کے پورا کرنے سے داع کو فائدہ پہنچتا ہو۔
گیارہواں فائدہ
آیت میں یہ راز بھی کھول دیا گیا ہے کہ دعا مانگنے والا مخلص اور صادق بھی ہونا چاہئے اور اسے ادراک ہونا چاہئے کہ میں جسے پکار رہا ہوں وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔
بارہواں فائدہ
اللہ کو پکارنے اور اُس سے مانگنے کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں جب بھی کوئی چاہے اُسے آواز دے اور اُس سے مانگے ۔ اِذَا دَعَانِ“ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں۔
تیرہواں فائدہ
آیت بتاتی ہے کہ اللہ پالتا ہر ایک کو ہے لیکن دعاؤں کی استجابت ایک مقام قرب ہے جو ایمان والوں کے ساتھ خاص ہے۔
چودھواں فائدہ
یہ آیت اس نکتہ کو بھی مشرح کر دیتی ہے کہ رشد اور ارشاد ایک خاص مقام ہے جو انابت اور قائم علی الا طاعت کی منزل پانے سے اللہ عطا فرماتا ہے۔
پندرہواں فائدہ
پندرہواں فائدہ علامہ محمد بن صالح نے لکھا کہ دنیا میں رہتے ہوئے اسباب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دعا عبادت کا مغز ہے لیکن منعم سے انعام پانے کے لئے دُعا ایک سبب کی حیثیت رکھتی ہے۔
والله اعلم
#(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں