121

سورۃ البقرہ کی آیت 187کی تفسیر


تمہارے لئے حلال ہوا روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے جماع وغیرہ ، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اُس نے تم پر رحمت فرمائی اور جو کچھ ہو چکا تھا اُسے معاف کر دیا سواب تم اُن سے مباشرت کر لیا کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تم پر ظاہر ہو جائے سپیدئہ صبح کی دھاری رات کی سیاہ دھاری سے پھر پورا کرو روزوں کو رات تک اور اس حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو جبکہ تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو ، یہ اللہ کی حدیں ہیں اُن کے قریب بھی نہ جاؤ اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے تا کہ وہ تقوی اختیار کریں۔
أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ القِيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُم
ْ آیت کے اس جملے میں رمضان کی راتوں میں مسلمانوں کے لئے عورتوں سے الرَّفتُ ” کو حلال کر دیا گیا ۔ الرفت کا مطلب ہوتا ہے جنسیت سے متعلق گفتگو کرنا ۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ جنسی تعلق کے لئے استعمال ہونے لگ گیا۔ الفاظ یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ صبح سے لے کر غروب آفتاب تک کھانا، پینا اور جماع اور مباشرت ترک کر دینا روزہ ہے۔ رات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے بیویوں کے ساتھ جنسی میل جول حلال کر دیا گیا۔
قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کے لئے جہاں احکام میں وسعت پیدا کر رہی ہے وہاں عائلی مسائل کو محکم بنیاد فراہم کر رہی ہے۔ بنیادی طور پر آیت کا عمود تفسیر تو روزہ کے مسائل تھے لیکن ایک اہم معاشرتی مسئلہ قرآن حکیم نے بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کر دیا کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان ربط باہمی عمل اورنتیجہ عمل کے لحاظ سے اتنی فضیلت رکھتا ہے کہ معاشرہ پر سکون ، عفت نواز اور جنت نظیر بن سکتا ہے۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ عورتیں مردوں کے لئے لباس کی حیثیت رکھتی ہیں اور مرد عورتوں کے لئے لباس ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے اس مجاز میں کتنا حسن ہے اور بیان میں کتنی ندرت ہے ۔ جنسی مسائل و روابط کے لئے بھی یہ استعاراتی انداز کشش کا حامل ہے۔ معنویت اور مقصدیت کے آسمان کو چھونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم لباس کی خصوصیات دیکھ لیں۔ اس طرح قرآنی تعبیر کی فضیلت و برکت جاننا مزید آسان ہو سکے گا۔
تشبیہ کی پنج جہاتی حکمتیں ایمان افروز ہیں
٭ لباس سے تشبیہ کی پہلی حکمت یہ ہے کہ لباس جسم کے لئے زیب وزینت کا باعث ہوتا ہے۔ یہ بات تو سب کو سمجھ آتی ہے کہ وجود زن سے تصویر کا ئنات میں رنگ ہے لیکن بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کہ وجود شوہر بھی عورتوں کے لئے زیب وزینت کا باعث ہوتا ہے۔
٭ دوسری حکمت یہ ہے کہ لباس انسان کے لئے ستر ہوتا ہے۔ بدن کے جو حصے ملبوس ہونے چاہئیں لباس ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ مرد اور عورت بھی ایک دوسرے کے رازوں کے امین ہوتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے لئے پردہ اور حجاب کا کام دینا چاہئے ۔ اسلامی ازواج میں یہ پردہ داری جتنی گہری ہوگی شادی کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی محکم اور مؤثر ہوں گے۔
٭ تیسری حکمت یہ ہوتی ہے کہ لباس گرمی اور سردی سے جسم کو بچاتا ہے ۔ لباس کی وجہ سے ابدان محفوظ رہتے ہیں۔ عورتیں مردوں کا لباس ہیں اور مرد عورتوں کا لباس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی سیکورٹی ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو سرکشیوں اور فسادات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ لباس کی یہ خوبی جس جوڑے میں زیادہ ہوگی اُس خاندان میں اولاد کی تربیت کا نظام مضبوط، محکم اور اقدار ساز ہوگا۔
٭ چوتھی حکمت ربط کی ہوتی ہے کہ لباس بدن کے ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے۔ لباس کی اس خوبی کی بنا پر قرآن مجید نے عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ بیوی اور خاوند جتنے ایک دوسرے سے ربط میں قرب رکھیں گے، افزائش نسل میں ان کا کردار اتنا ہی گہرا، مؤثر اور انقلابی ہوگا۔
٭ پانچویں حکمت اطمینان اور سکون کی ہے کہ لباس انسان کے لئے زندگی کو پر سکون بنا دیتا ہے، اسی طرح ایک اچھا ، معیاری اور اسلامی جوڑا وہی ہو گا جو ایک دوسرے کوسکون اور اطمینان پہنچا ئیں گے ۔ تعلقات کی یہ پنج گانہ جہات عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کے لئے امن ،محبت اور اعتماد و یقین کا مجسم بنا دیتی ہیں ۔ قرآن مجید اپنے منجز پیغام کے ساتھ الفاظ و ترکیب کا ایسا اعجاز رکھتا ہے کہ کوئی کلام بشر اس کلام کی معنویت کو چھو بھی نہیں سکتا ۔
کوئی ایسی چیز نہیں جس کا علم اللہ کونہ ہو یہ جملہ ماضی کے صیغے سے محکم علم کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ تم لوگ اللہ سے مخفی نہیں تھے ، یہ بات تمہاری نفسی خیانت اور عملی بداحتیاطی کی صورت میں اللہ کے سامنے آگئی کہ تم چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے یعنی تمہارے اندر کی خواہشات تقاضا کر رہی تھیں کہ تم اللہ کے حکم کو توڑ دو اور اپنی بیویوں سے جماع کر لو۔ بعض روایات تاریخ علم وادب میں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عملاً ایسا ہوا بھی لیکن قرآن حکیم کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں کہ اللہ نے ان پر توجہ کی اور انہیں معاف فرما دیا۔ وعفا عنكم” کے کلمات تَخْتَانُونَ سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ جس چیز کو اللہ معاف فرما دے اس پر بحث کی ضرورت نہیں بنتی لیکن یہ ضرور ہے کہ خیانت نفسی کی موجودگی میں دعوت وتحریک کا کام موثر نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ گندی بوٹی صرف تو بہ سے نابود کی جاسکتی ہے اور عفوتو بہ قبول کرنے کا بڑا در جہ ہے اس لئے کہ یہ گناہوں کو جڑ سے اکھیڑ کر ختم کر دینے والا وسیلہ اور سر چشمہ ہے۔
لواب حکم جدید کی سہولت یہ ٹھہری کہ رمضان کی راتوں میں تم اپنی بیویوں سے مباشرت کر سکتے ہو۔ یہاں صیغہ اگر چہ امرہی کا ہے لیکن یہاں امر وجواب کے لئے نہیں بلکہ اجازت اور اباحت کے لئے منفذ ہے۔ اصول فقہ میں کسی چیز کی ممانعت میں جس وقت امر شرعی کے پیسر کو ختم کر رہی ہوں تو امر کا صیغہ مشروعیت میں بشارت اور خوشی کی عظمت و فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایجاد کیا جاتا ہے یہاں یہی قاعدہ نافذ کیا جا رہا ہے۔
وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمُ
یہاں قرآن مجید کے اس حکم میں جماع کرنا جو ظا ہر نفسانی تسکین کا ذریعہ محسوس ہوتا ہے اُسے اللہ تعالی کی رضا کے محل میں اتار کر بیان کرنا ہے یعنی رمضان کی راتوں میں جماع کا جواز اللہ کی رضا کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ جماع کی ظاہری صورت شہوت ہی کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن اس فعل کے ذریعے نیک اولاد تلاش کی جاتی ہے ۔ ” وابتغوا ایک سادہ سا کلمہ ہے لیکن اس میں اللہ کی رضا کے لئے حسن نیت، جماع میں اتباع سنت ، اولاد کی خواہش، رو شہوت، احکام شریعت پر عمل کے لئے نفسیاتی تیاری اور اللہ تعالیٰ کی توحید فعلی پر ایمان اور یقین ایسے متعدد معانی مضمر دکھائی دیتے ہیں۔
مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ
آیت کا یہ حصہ تقدیر پر یقین کا معنی قاری قرآن کے سینہ میں اتارتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
آیت کا اگلا حصہ یہ ہے کہ تم رمضان کی راتوں میں کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے تمہارے لئے نمایاں ہو جائے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آیت میں “الخيط الأبيض ” کا بیان ہوا لیکن الْخَيْطِ الأسود” کا بیان نہ کیا گیا، جواب یہ ہوگا کہ ضمناً الخَيْطِ الأسود” کا بیان آیت میں موجود ہے لیکن صراحت نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ آیت میں تین کام بیان ہوئے: (1) مباشرت (2) کھانا اور (3) شرب کی غایت، آیت میں ان تین کاموں کی فروعات کی طرف مکمل اشارہ ہو گیا۔ مباشرت صبح صادق سے تھوڑا پہلے تک جائز ہوگی تاکہ غسل میں
تاخیر نہ ہو دوسرا یہ کہ جو جنابت کی حالت میں صبح کر دے وہ بعد میں غسل کر سکتا ہے (230)۔
آیت میں تیسر ا حکم یہ ہے کہ روزہ کو رات تک مکمل کرو ۔ اسلوب آیت واضح اور اکمل ہے کہ روزہ کا آغاز اور انجام دونوں کی حدود متعین کر دی گئی ہیں یہ کہ روزہ طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور رات کے آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔
آیت میں چوتھا اور آخری حکم یہ ہے کہ اعتکاف کے دوران تم اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
علامہ اسماعیل حقی نے اعتکاف کے دس فضائل اور فوائد لکھے ہیں (231):
پہلا فائدہ
جو شخص ایک دن اعتکاف کرتا ہے اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقین حائل کر دی جائیں گی ۔ ہر خندق کا دوسری خندق تک فاصلہ اتنا ہوگا جیسے مشرق اور مغرب کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے۔
دوسرا فائدہ
تنہائی اور خلوت میں مکمل یکسوئی نصیب ہوتی ہے اور طبیعت روحانی لحاظ سے غلط کاریوں سے بچنے کی طرف مائل ہوتی ہے۔
تیسرا فائدہ
نفس کشی اور نفسانی تہذیب کا موقع نصیب ہوتا ہے۔
چوتھا فائدہ
دنیا سے اعراض کا سبق ملتا ہے۔
پانچواں اور چھٹا فائدہ
اعتکاف صدق اور خلوص کا پہلا باب ہے اس سے اللہ کا تقرب نصیب ہوتا ہے۔
ساتواںفائدہ
توکل ، اعتماد اور محبوب کی دہلیز پر جم کر بیٹھنا ملتا ہے۔
آٹھواں فائدہ
قناعت کی دولت ملتی ہے۔
تواں اور دسواں فائدہ
جھگڑوں اور فسادات دنیوی سے کنارہ کشی ملتی ہے اور کہائر سے بچنا نصیب ہوتا ہے۔
(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں