633

سورۃ البقرہ کی آیات 177 تفسیر


لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ ٗ وَ الضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ

یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف موڑ لو بلکہ نیکی تو اُس کی ہے جو اللہ پر ایمان لایا اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں کو اُس نے مانا اور دیتا رہا مال محبت میں رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں کو اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرتا رہا اور نماز قائم کی اور زکوۃ دی اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے کئے ہوئے عہد پورے کئے اور صبر کرنے والے تنگی اور مصیبت میں اور لڑائی کے وقت، یہ ہیں وہ لوگ جو کچے رہے اور ایسے ہی لوگ در حقیقت تقویٰ دار ہیں۔،،
نیکی کیا ہے؟
قرآن مجید نے اس آیت میں تمام نیکیوں کی اساس بیان فرمائی ہے اور جس لفظ کے آئینے میں نیکیوں کے حسن اور جمال کو اتارا ہے وہ’’البر‘‘ہے۔ اس لفظ کا اساسی معنیٰ وسعت ہوتا ہے۔ بحر کے مقابلہ میں’’بر‘‘ خشکی کو کہہ دیتے ہیں چونکہ اس میں طویل و عریض کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے بے آب و گیاہ چٹیل میدان کو ’’بر‘‘سے تعبیر کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کثیر اولا در کھتا ہو تو عرب کہہ دیتے ہیں ’’ابر الرجل ‘‘ یعنی آدمی کثیر الاولاد ہو گیا۔ اگر اس لفظ کا مادہ ’’اثم ‘‘ کے مقابلہ میں ہو تو پھر اس کا تلفظ’’بر‘‘ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے نیکی وہ ہوتی ہے جس میں قوت ہو، کثرت ہو اور وسعت ہو ۔ وہ تمام کام’’بر‘‘ہی ہوں گے جن سے کشادگی کی راہ کھلتی ہو۔ ’’بر‘‘ کا مفہوم قرآن حکیم نے وسعت نگاہی کے لئے بھی استعمال کیا ہے اور وفا کا معنی بھی اس لفظ میں سمو دیا گیا ہے (170)۔
آیت کا شان نزول
ابن عاشور نے لکھا (171) کہ قبلہ کی تبدیلی سے یہود و نصاری کی فکری زندگی میں بھونچال برپا ہو گیا۔ وہ طرح طرح کی باتیں کرنے لگ گئے۔ طنز و طعن ان کا قومی شعار بن گیا۔ وہ پرو پیگنڈہ کرتے کہ مسلمانوں کو قدس چھوڑ کر کعبہ کی طرف منہ کرنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی نیکیاں اور حسنات ختم ہو گئیں ۔ قرآن مجید نے انہیں سمجھایا کہ پہلے نیکی کی تعریف تو سمجھو کہ ” بر ” کہتے کس کو ہیں پھر کچھ کہو جب ان کے قول و فکر کو وادی حیرت میں پڑکا دے کر اوندھا کر دیا گیا تو قرآن حکیم نے خود وہ امور بتادے جن سے حسنات اور نیکیوں کا ایک جامع نظام متشکل ہو گیا اور قرآن پڑھنے والوں کو نیکیوں کی اساس مہیا ہو گئی ۔
لفظ کی مصدریت
آیت میں ” البر ” مصدر لایا گیا اس سے مبالغے اور تاکید کی انتہا تعبیر میں سمودی گئی ، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص “نور” ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ انتہا درجے پر روشنیوں سے ملتا جلتا انسان ہے۔ جس آدمی کو کسی نے سرا پائے عدل کہنا ہو اسے ”عدل“ ہی کہہ دیا جاتا ہے۔ آیہ کریمہ میں نیکی کے لئے البر مصدر لایا گیا تا کہ لوگوں کو سمجھ آ جائے کہ وہ کون سے امور ہیں جو عظمتوں اور فضیلتوں کے
آسمان کو چھو لینے والے ہیں ۔
آیت میں ایمانیات کا درس
انسان مصور کائنات کی ادھوری تصویر نہیں اسے بنانے والے نے احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کامل بنانے کے لئے ذہن و فکر، قلب و نظر اور علم و ہنر کی خوبیاں عطا کی ہیں ۔ اسے منفیت اور ضلالت سے بچانے کے لئے ایمان کی راہ چلنے کی ہدایت کی ہے۔ انسانی عظمتوں اور فضیلتوں کے پروان چڑھانے والے نے انسان کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھے۔ مبدا و معاد پر اس کا یقین ہو، فرشتوں اور تمام آسمانی کتابوں کو وہ تسلیم کرتا ہو۔ انبیاء و مرسلین کی دعوتوں کو اپنی تعمیر تعلیم کے لئے ضروری سمجھے اور حضور انور ؐ جوخاتم النبین ہیں خود کو ان سے مربوط کر لے یہی وہ ایمان کے سرچشمے ہیں جن کے ذریعے تزکیہ نفوس ممکن ہے اور ان اصولوں پر ایمان لانے سے انسانی وجو د روشن اور منور ہو جاتا ہے۔
نفس گزاری نہ که نفس شماری
قرآن مجید کی یہ آیت ایمانیات کے بعد ایثار اور بخشش کو روحانی ترقی کے لئے ضروری قرار دیتی ہے۔ دعوتی اور اصلاحی حکمتوں کا یہ خوبصورت فلاح نامہ تحریکوں کے لئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کا درس خوبصورت درس ہے۔ وہ زبانی جمع خرچ کے رویوں کا معلم نہیں، عملی ایثار اور انفاق سے ایمانی زندگی کا عملی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ مسلمان کی روزی اکیلی اس کے لئے نہیں ہوتی ، یتیم مسکین،مسافر، سائلین اور قیدی اس کی روزی میں حصہ مند ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی محبت میں مال خرچ کرنے کو دنیا کی اساسی تعلیم سمجھتا ہے۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے خرچ کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتا (172)۔
ایک خوبصورت نکتہ
آیت میں حاجت مندوں کے پانچ طبقات بیان کئے گئے ہیں: پہلے درجے میں وابستگان اور آبرومند رشتہ دار ہیں، دوسرے طبقہ میں یتیم اور مسکین ہیں، تیسرے طبقے میں وہ ہیں جن کی ضرور تھیں وقتی ہوتی ہیں مثلاً مسافرین ہیں، چوتھے طبقے میں سائلین ہیں، پانچویں وہ لوگ ہیں جن کی گردنیں جکڑی ہوئی ہوتی ہیں ، ضروری نہیں کہ وہ غلام ہی ہوں ۔ قیدی اور مظلوم طبقہ جب حالات کی رسیوں میں جکڑ دیا جائے ان کی آزادی کے لئے کوشاں ہونا بھی قرآنی اخلاق ہے۔ جس کا معلم خود صحیفہ نور ہے۔ یہ سارے کام صرف تلاوت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے عملی تحریک اور عملی اظہار ہی ان احکام کا حقادا کر سکتا ہے (173)۔
نیکیوں کا تیسرا دروازہ
قرآن مجید نماز کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ اس آیت کی اس تیسری سکیم سے لگایا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت نماز کو مومنین کے لئے روحانی غذا قرار دیتی ہے جس کی توانائی سے کراماتی نتائج کا ظہور ممکن ہو سکتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے نماز کا قیام انسان کے باطن کو پر جوش اور محبت مست بنا دیتا ہے، ذہن کو نشو و نما دینے کے لئے نماز مؤثر ذریعہ ہے۔ انسان کے اندر فلاحی توانائیاں مضمر ہیںانہیں تیز متحرک اور مؤثر بنانے کے لئے نماز ضروری وسیلہ ہے۔
نیکیوں کا چوتھا پروگرام
قرآن مجید کی یہ آیت مومنین کو زکوۃ کی ادائیگی کا فریضہ یاد کرواتی ہے۔ مال خرچ کرنا ایک خوبصورت عادت ہے لیکن زکوۃ ادا کرنا کسی پر احسان نہیں یہ مسلمان کی مسلمانی نکھارنے کا ذریعہ ہےاور اس سے مال اور نفس دونوں صاف ہو سکتے ہیں۔
قرآن کا نیک مشخص
قرآن حکیم کی یہ آیت نیکی کے خاکے میں رنگ بھر کے ایک مسلمان کی تصویر کومکمل کر دیتی ہیں اور اعلان کرتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اجتماعی زندگی کے حسن کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں ایسے کر دار ابھارے جائیں جن میں یہ صفات بھر پور طریقے سے موجود ہوں :
1 ۔ وہ عہد و وعدہ کو پورا کرنے والے ہو
2۔ وہ امانتوں کو ادا کرنے والے ہو
3۔ اور گھر سے لے کر ریاست تک ہر جگہ ایفائے عہد کی روح تابندہ رہے
قرآن مجید کی یہ آیت کردار کے گل سرسبد کو اور نکھار بخشتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ لوگ محرومی،
فقر و فاقہ، مرض، رنج ، مصیبت اور جنگ ہر حال میں صبر کرنے والے ہوتے ہیں ان کے جینے میں تقویٰ اور صدق کا حسن ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔
زندگی اللہ کا عطیہ ہے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کردہ آیت کی روشنی میں اللہ کے اس عطیے کو نکھار دے سکتے ہیں۔ اسے بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ اپنی ذات میں مخفی خزینے تلاش کر سکتے ہیں اور انسان کی انسانیت کو سر بلند ، توانا، پر خلوص اور منفعت خیز بنا سکتے ہیں۔ ضرورت ایمان، کوشش عمل اور تحریک کی ہے کم از کم مسلمانی کا تقاضا تو یہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں