70

سورۃ البقرہ کی آیات 191-192-193کی تفسیر


حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ

“اور انہیں قتل کرو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ ہو اور نکال دو تم انہیں وہاں سے جہاں سے اُنہوں نے تمہیں نکالا اور اُن کا فساد مچانا قتل سے بھی بڑی چیز ہے اور اُن سے قتال مسجد حرام کے پاس نہ کر و وہاں جبکہ وہ تم سے خود ہی وہاں قتال کرنے لگ جائیں اور اگر وہ تم سے لڑائی کریں تو پھر اُن کو تم قتل کر دو کافروں کی سزا ایسی ہی ہونی چاہئے”۔
قرآن مجید کی اس آیت میں عمود تعبیر فہ’’فتنه‘‘ کا فہم ہے۔ یہ موذی مرض قتل سے بھی زیادہ تباہ کن ہے اس لئے ہم چاہیں گے کہ قدرے تفصیل کے ساتھ فتنہ پر بحث کریں۔
فتن ‘‘ کا لغوی معنی سونے یا چاندی کو آگ میں پگھلانے کے لئے ڈال دینے کے ہوتے ہیں تا کہ اس میں سے کھوٹ نکل جائے ۔”ورق فتین ” اس چاندی کو کہتے ہیں جو جلائی تپائی گئی ہو۔ اسی طرح وہ دینار جسے آگ میں تپایا گیا ہو’’ دینار مفتون‘‘ کہلاتا ہے ۔ کسوٹی کو ” الفتانہ “ کہہ دیتے ہیں (254)۔
’’”فتنه ‘‘ کا معنی جنگ، مصیبت اور عذاب ہوتا ہے۔ راغب نے اس کا معنی آزمانا اور امتحان لینا بھی لکھا ہے۔ کہیں کہیں یہ لفظ فساد انگیزی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وہ رکا وٹیں جن سے دین کو روکنا مقصود ہو وہ بھی فتنہ ہی ہوتی ہیں۔ آیت کے اندر ’’فتنه‘‘ سے مراد دین سے روکنا ہے، فساد انگیزی اور شر پروری ہے (255) ۔
شرک کے وسیع مفہوم میں بت پرستی اور شرک ایسی گندگی بھی شامل ہوتی ہے اس لحاظ سے فتنہ شرک اور بت پرستی کی صورت میں قتل سے بڑا جرم ہے ۔ حرم کے تقدس والے ماحول میں اس کی کوئی بھی صورت قابل برداشت نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو حرم میں اور اس کے مقدس ماحول میں لڑائی سے روکا گیا لیکن اگر مشرکین خود پہل کر دیتے ہیں تو مسلمانوں کے لئے ضروری نہیں رہتا کہ وہ جنگ سے پر ہیز کرتے رہیں ، فتنہ گروں کی سرکوبی پھر ضروری ہو جاتی ہے تی ہے۔ والله اعلم
’’تو اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بے حد مہربان ہے‘‘۔
یہ آیت اسلام کے مزاج کی عکاسی کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات تو حید بیان کرتی ہے تا کہ وہ لوگ جو فتوں ، کفر پرستی اور بت پرستی کے ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے دل میں شعور کی کرن جگہ پکڑے اور وہ گندے کرتوتوں سے باز آجا ئیں ۔ آیت کا سبق کس قدر واضح ہے کہ کفر اور شرک سے تو بہ کر لینے کی صورت میں ان کی توبہ قبول ہو جائے گی اور وہ اللہ کو بخشنے والا پائیں گے اور اللہ کی رحمت ان لوگوں کو اسلامی معاشرت اور دینی اخوت کی نعمت سے مالا مال کر دے گی۔
والله اعلم
’’اور فتنہ کے نابود ہونے تک اُن سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ نظام اللہ ہی کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو زیادتیوں کا خمیازہ صرف ظالموں ہی کو بھگتنا چاہئے‘‘۔
اسلام دین امن ہے۔ اس عظیم المرتبت قدر کے فروغ کے لئے اور سلامتی کی ترویج کے لئے قرآنی دین کی مساعی قابل رشک ہیں ۔ مسند امام احمد بن حنبل میں روایت موجود ہے:
حضور می ؐنے ارشاد فرمایا (256)
’’اللہ تعالی امن اور سلامتی کے قیام میں تمہارا اس طرح مددگار ہے کہ گھر کی چار دیواری میں زندگی گذرانے والی ایک عورت ہوگی ۔ وہ پردہ نشین تن تنہا کسی محافظ اور معاون کے بغیر مدینہ سے البحیرہ کا یا اس سے بھی لمبا سفر بلا تامل کر لیا کرے گی ۔ راستے میں کوئی چور اور کوئی رہزن اُسے خوف زدہ نہ کر سکے گا‘‘۔
قرآن مجید نے سلامتی کے راستوں کی تعریف کی ہے اور سورہ قریش میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ اُس نے تمہیں خوف سے نجات دے کر امن سے نوازا ہے۔
سورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (257)
’’اگر دشمن صلح اور سلامتی کا ہاتھ پھیلائے تو تم بھی اپنے ہاتھ آگے کر دو اور اللہ پر توکل کرو کہ وہ سمیع ولیم ہے”۔
زیر تعبیر آیت میں زور لڑائی کرو پر نہیں بلکہ زور اس پر ہے کہ فتنہ نہیں رہنا چاہئے اس لئے کہ شرارت انگیزی ، فساد قتل و غارت اور ڈکیتی ایسے فتنے امن عالم کو تباہ کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو بدی کا ہر سوراخ بند کر دینا چاہئے گویا جنگ کا ہدف دفع فتنہ و فساد ہے۔
وہ لوگ جو باطل نظریات کو لوگوں میں رائج کرنے کے لئے کوئی کردار نہ رکھتے ہوں تو ان کے بارے میں اس آیت میں اسلام کے مزاج کو پڑھا جاسکتا ہے۔
’’وہ لوگ جنہوں نے تمہارے ساتھ جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا بھی نہیں ہے، اللہ تمہیں منع نہیں فرماتا کہ ان سے نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں ہی سے پیار کرتا ہے‘‘۔
آیت میں سبق ظالموں سے مروت نہ برتنے کا ہے ۔ یہ قول بہت خوبصورت ہے کہ اسلامی ریاست کفر کے ساتھ قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ ہر گز قائم نہیں رہ سکتی ۔ جہاد اور قتال اس لئے ضروری ہے کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے اور فتنے اور فساد کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے ۔ واللہ اعلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں