139

سورۃ البقرہ کی آیت 186کی تفسیر( 2)

گذشتہ سے پيوستہ
عہد نامہ جديد کے خوبصورت الفاظ مانگو! تو تمہيں ديا جائے گا تلاش کرو! تو تم پاؤ گے دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے لئے کھولا جائے گا اس لئے جو کوئي مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے (216)۔
سقراط کا دعا پر يقين يونان ميں حق گوئي اور رسوخ عقيدہ کي طرف قدم بڑھانے کے جرم ميں جب اژدھام جہلانے سقراط کے لئے سزائے موت تجويز کي اور عدالت نے اس پر مہر ثبت کر دي اور زہر کا پيالہ اس کے سامنے رکھ ديا گيا ۔ اس کے چہرے کا رنگ مؤرخين لکھتے ہيں کہ نکھرتا جا رہا تھا۔ زہر کا پيالہ پينے سے پہلے اُس نے دعا کي افاديت پر کہا تھا (217): مجھے ضرور بالضرور اللہ سے دعا مانگني چاہئے تا کہ اگلے جہاں کي طرف ميرا سفر کامياب رہے ميري آبرومندي دعا ميں ہے اور دعا ہي ميري منزل کا سکون ہے۔
جابر بن حيان کي سحر انگيزي اور دعاؤں کي گرمي
اسلامي دنيا کا بڑا نام جابر بن حيان ہے۔ وہ کيميا دان تھا ليکن اس کي تحقيقات کا راز شب خيزياں تھيں۔ وہ حج کے لئے گيا تو مدينہ شريف بے تاب حاضري دي اور بغير کسي توقف کے حضرت جعفر صادق رضي اللہ عنہ کے قدموں ميں حاضر ہوا۔ وہيں پر اُس سے کسي شخص نے پوچھا تم ساري ساري رات جعفر پاک کي محفل ميں حاضر رہ کر کرتے کيا ہو؟ اُس بوڑھے صوفي کيميادان نے کہا کہ ميري کيمياداني جعفر پاک کے مرہون منت ہے ، وہ ميرے پير ہيں، ان کي دعائيں اور مناجاتيں ميري کاميابيوں کا اصل راز ہيں۔ آپ فرمايا کرتے تھے : ” دعا قوت کا سرچشمہ ہے (218)۔
مشکلات کے ہجوم ميں مشکلات ، مصائب اور مايوسيوں کے گھپ اندھيرے ميں جو آواز اور فرياد دل کي دھڑکنوں ميں گونجتي ہے وہ دعا ہوتي ہے اور اُسي فرياد کي حقيقت کو مذاہب اپنے اپنے انداز ميں بيان کرتے ہيں ۔ اسلام سچائيوں کا دين ہے وہ ايسي آواز ميں جو روحوں ميں گونج پيدا کريں انہيں دبا تا نہيں بلکہ صراط مستقيم پر انہيں منزل کا واقعي تصور ديتا ہے۔ اسي لطيف لمحے ميں انسان حق کي پہچان پيدا کر ليتا ہے۔ دعا فريادي کرتے ہيں اور انہيں قبول قادر و قدير ہي کر سکتا ہے۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ معنويت کي خوشبو سے لبريز ہيں ۔ انسان کي مصيبت جتني بڑي ہوتي ہے اسے دلا سا بھي اتنا ہي بڑا در کار ہوتا ہے يقينا وہ رب ہي ہو سکتا ہے جو فريادوں کو يقين اور اطمينان سے بدل ديتا ہے۔ ہرن کتوں کے نرغے ميں جب پھنس جاتا ہے تو مدد کے لئے اُس کي گونجنے والي آواز کو غزل کہتے ہيں اور بندے جب مدد کے لئے اپنے رب کو آواز ديں اُسے دُعا کہتے ہيں ۔ دعا پر يقين رکھنے والا شخص کبھي مايوس نہيں ہوتا۔
دعاؤں کا ثمر پنج تني ہے
دعاؤں سے لذت کام دہنے والے شخص کو اللہ پانچ انعامات عطا فرماتا ہے:
1۔پہلا انعام يہ ہوتا ہے کہ انسان دعاؤں کي موجودگي ميں پريشان اور مضطرب نہيں رہ سکتا ہے۔ دعا ئيں خود توقع سے زيادہ مدد کرنے والي ہوتي ہيں۔
2۔دوسرا بڑا انعام دعا يہ ديتي ہے کہ بندے سے احساس تنہائي ختم کرتي ہے۔ دُعا بوجھ بانٹنے کا احساس دلاتي رہتي ہے۔ دُعا مانگنے والے شخص کو قرآن تربيت ديتا ہے کہ وہ تنہا نہيں کوئي فَانّي قَرِيبٌ کہنے والا بھي اُس کے ساتھ موجود ہے۔
3۔تيسرا انعام دُعا کا يہ ہوتا ہے کہ انسان ميں عملي رويوں کي نشوونما ہونے لگ جاتي ہے۔ کثرت سے دُعا مانگنے والا شخص انتہا درجے کا عملي انسان ہوتا ہے اور يہ دنيا اور آخرت ميٹھي اور حسنہ اسي شخص کے لئے ہو سکتي ہے جو ايماني اور عملي انسان ہو۔
4۔چوتھا انعام دُعا کي برکت سے يہ ملتا ہے کہ نفسياتي اعتبار سے بندہ مستحکم ہو جاتا ہے۔حضورؐ نے ارشاد فرمايا: ” قوي مومن ضعيف مومن سے بہتر ہوتا ہے ۔
5۔ دُعا کا پانچواں انعام مسرت اور خوشي کا ہے ۔ زندگي ميں ہر شخص نے اس تجربے کا شمر کھايا ہوگا کہ کوئي صالح شخص اُسے دعا دے تو اس کے ساتھ ہي طبيعت ميں ايک گہري اور روحاني خوشي کا احساس پيدا ہو جاتا ہے ۔ حضرت ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ کے عہد خلافت ميں جب آپ گليوں ميں گشت کرتے تو چھوٹے بچے دوڑ دوڑ کر آپ کے دامن کو تھام ليتے اور کہتے اے ہمارے پيارے سردار ہميں دعا ديجئے ۔ حضرت ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ أن کے سر پر ہاتھ پھيرتے اور انہيں دُعائيں ديتے ۔ دُعا بندہ خود کرے يا کوئي دعا دے مسرتوں کي جنت مناجات کرنے والے اور دعا کا ثمر پانے والے شخص کے قدموں سے لپٹ جاتي ہے۔
دعا ايک نفسياتي سہارا
روح کي طرح نفس انساني کي بھي ان گنت اقليميں ہيں ۔ کہيں شعور کي بالا دستياں ہيں اور کہيں لا شعور کي معجز نمائياں ہيں۔ ہمارے ذہن ہي کا ايک حصہ تحت الشعور کہلاتا ہے۔ اگر زندگي ميں تحت الشعور پر قابو پاناممکن ہو جائے تو انسان بڑي ظلمتوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ يہ تحت الشعور ہي ہے کہ رات کو آپ اُسے يہ کہہ کر سو جا ئيں کہ مجھے تہجد کے وقت جگانا تو تحت الشعور آپ کو تہجد کے وقت جگا دے گا۔ يہ تحت الشعور ہي ہے جس کي مدد سے ہم بھولي ہوئي باتيں ياد کر ليتے ہيں اور کھوئي ہوئي چيزيں پا ليتے ہيں۔ بدن انساني ميں يہ خاموش مددگار خود دعاؤں کا محتاج رہتا ہے۔ بہت سارے نفساني گندا يسے ہيں جنہيں ہم دعاؤں کي مدد سے دور کر سکتے ہيں۔ نفسياتي طريقہ علاج دراصل دعاؤں کا شمر بن سکتا ہے۔ ايک ماہر نفسيات اے اے برل کا قول ہے : ” جو شخص صحيح معنوں ميں مذہبي ہوتا ہے وہ کبھي اعصابي اور ذہني امراض کا شکار نہيں ہوتا۔ ايک دوسرے ماہر نفسيات ڈي کا زنگي کا خيال ہے کہ مضبوط مذہبي عقيدہ پريشانيوں ، تشويشوں اور اعصابي الجھنوں کو دور کرنے ميں مدد ديتا ہے ۔ اس طرح دُعا چند لفظ ہوتے ، کشم ہيں ليکن زندگيوں ميں بڑا کام کر جاتے ہيں۔ اسلام کي يہ تعليم کتني زبردست ہے کہ ملاقات کے وقت تبادلۂ سلام کرو، سلامتي کي يہ مذہبي دعا معاشرہ کو مضبوط کرتي ہے اور اللہ تعاليٰ پر يقين اور ايمان کو روحوں ميں اتار ديتي ہے۔ صحت مند معاشرہ در اصل نفسياتي لحاظ سے مضبوط لوگوں سے تخليق پاتا ہے اس کے لئے بہر حال دُعاؤں کا اسلحہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ يہ مقالہ لکھنے ميں فلسفہ دُعا سے استفادہ کيا گيا ہے (219)۔
واصف علي واصف کي باتيں
دعا کي خوبي يہ ہوتي ہے کہ جہاں دُعا مانگنے والا ہوتا ہے وہيں دعا منظور کرنے والا بھي موجود ہوتا ہے۔ اگر آپ دعا باآواز بلند مانگيں تو وہ دور سے سنتا ہے اور اگر آپ دل ميں دعا مانگيں تو وہ وہيں موجود ہوتا ہے۔ دعا کا اندازہ تقريب کے اظہار کا اعلان ہوتا ہے۔ دعا ميں الفاظ بھي ضروري ہوتے ہيں اور دعا الفاظ سے بے نيا ز بھي ہوتي ہے۔ دعا منظور کرنے والا خود ہي انداز عطا فرماتا ہے۔ ہاتھ اُٹھانا بھي دُعا ہے اور نگاہ اٹھانا بھي دُعا ہے ۔ ہم اللہ سے وہ چيز مانگتے ہيں جو حاصل نہيں کر پاتے مثلاً ہم کبھي يہ نہيں مانگتے کہ خدايا ہميں پرندوں جيسے پر عطا کر، ہاں يہ کہہ سکتے ہيں ہم کوعشق کے پر لگا کر اڑ نا دے دے۔ دعا پر اعتماد ايمان کا اعليٰ درجہ ہے۔ يہ نصيب کي بات ہوتي ہے کہ انسان دعا کا سہارا ہاتھ سے جانے نہ دے۔ جب کسي قوم يا فرد کا دُعا سے اعتماد اُٹھ جائے تو آنے والا وقت مصيبت کا ہو سکتا ہے۔ گناہ اور ظلم انسان سے دُعا کا حق چھين ليتے ہيں (220) ۔
المستدرک کي خوبصورت روايت حضور ؐنے فرمايا:
اپنی حاجات اللہ کي بارگاہ لے جاؤ اور حوادث کي صورت ميں اللہ کي پناہ ميں جاؤ۔ اسي کي طرف گريہ زاري کرو اور اس کو پکارو کيونکہ دعا عبادت کي روح ہے۔ آپؐکا ارشاد ہے کہ تم اللہ کي بارگاہ ميں قبوليت کے يقين کے ساتھ دعا (221)
حضرت علي المرتضيٰ کرم اللہ وجہ الکريم اور فلسفہ دعا
حضرت علي المرتضيٰ رضي اللہ عنہ ارشاد فرماتے تھے کہ الدعاترس المومن دعا مومن کي ڈھال ہے تم دير تک دعا کے ساتھ دروازے پر دستک ديتے رہو گے تو ايک وقت دروازہ کھل جائے گا۔ آپ ہي کا ارشاد ہے کہ محمدؐ اور آل محمد پر درود بھيجنے تک دُعا اور آسمان کے درميان پردہ حائل رہتا ہے (222)۔
حضرت علي رضي اللہ عنہ نے ايک مرتبہ حضرت حسن رضي اللہ عنہ سے فرمايا (223) اور کبھي يہ بھي ہوتا ہے کہ تم ايک چيز مانگتے ہو اور وہ حاصل نہيں ہوتي مگر دنيا يا آخرت ميں سے بہتر چيز تمہيں مل جاتي ہے يا تمہارے کسي بہتر مفاد کي خاطر تمہيں اس سے محروم کر ديا جاتا ہے اس لئے کہ تم کبھي ايسي چيزيں بھي مانگتے ہو کہ اگر تمہيں دے دي جائيں تو تمہارادين تباہ ہو جائے۔
حضرت امام جعفر صادق رضي اللہ عنہ کے ارشادات
آپ ارشاد فرماتے ہوتے تھے (224):
دعا قبوليت کا خزانہ ہے جس طرح بادل بارش کا خزانہ ہے۔
آپ کا ارشاد گرامي ہے (225):
چاليس مومنوں کے اجتماع ميں دعا اس کي قبوليت کي علامت ہے۔
آپ کا ايک مبارک قول ہے (226):
کسي مصيبت ميں مبتلا ہونے کي صورت ميں بھي اگر دعا کرنے کو جي چاہے تو سمجھ لو کہ يہ مصيبت تھوڑي دير کے لئے ہے۔
حضرت سہل کا خوبصورت قول حضرت سہل بن عبد اللہ فرماتے ہيں (227)
اللہ تعاليٰ نے مخلوق کو پيدا فرمايا تو انہيں حکم ديا کہ مجھ سے راز داري سے باتيں کريں، اگر تم يہ نہ کر سکو تو مجھے ديکھتے رہنا، يہ بھي اگر نہ ہو سکے تو ميري بات سنتے رہنا ، يہ ممکن نہ ہو تو ميرے دروازے پر آجانا اور اگر ايسا بھي نہ کر سکو تو ميرے سامنے اپني حاجات پيش کرتے رہنا۔ آپ ہي کا ارشاد ہے: ” سب سے جلد قبول ہونے والي دعا وہ ہے جو صاحب حال کيا کرتے ہيں اور صاحب حال کا مطلب يہ ہے کہ وہ مانگے وہي جو اس کے لئے ضروري ہو“۔
رسالہ قشيريہ کي ايک حکايت
کہتے ہيں کہ حضرت موسيٰ عليہ السلام ايک ايسے آدمي کے قريب سے گذرے جو دعا کر رہا تھا اور گريہ زاري کئے جا رہا تھا۔ حضرت موسيٰ عليہ السلام نے فرمايا (228) الہي ! اگر اس شخص کي ضرورت ميرے اختيار ميں ہوتي تو ميں پوري کر ديتا۔ اس پر اللہ تعاليٰ نے وحي فرمائي کہ اے موسيٰ! ميں تم سب سے زيادہ رحم کرنے والا ہوں ليکن ديکھو وہ دُعا کر رہا ہے ليکن اس کي توجہ اس کي بکريوں ميں لگي ہوئي ہے ميں ايسے شخص کي دعا قبول نہيں کرتا جو دُعا تو کرے ليکن اس کا دل ميرے بغير کسي اور کي طرف متوجہ ہو۔
حضرت يحيي بن معاذ کا ارشاد
آپ فرمايا کرتے تھے (229)
الہي ميں کيونکر تجھ سے دُعا کروں ميں تو گناہ گار ہوں اور ميں تجھ سے دُعا کيوں نہ کروں جب کہ تو بڑا کرم فرمانے والا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں