302

سورۃ البقرہ کی آیت155کی تفسیر

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ
’’ اور ہم ضرور نکھار یں گے تمہیں کچھ خوف و خطر اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان میں مبتلا کر کے اور خوشخبری سنائیے اُن صبر والوں کو ‘‘
قرآن مجید کی آیت سے ایک آیت پہلے رب العالمین نے ارشاد فرمایا : یہ بات پکی سمجھو کہ جہاں صبر ہو گا وہاں تمہارا مالک، معبود اور محبوب ضرور موجود ہو گا لیکن یہ قسمت اس شخص کی ہو گی جس کا معبود اور محبوب لطیف ہو گا ۔ صبر لفظ ہو یا معنٰی جوں ہی دل اور نطق کو چھوتے ہیں سماں بدل جاتا ہے ۔ یہ آیت منظر کو ایک نئی جہت کا حسن دیتی ہے اور معبود کا یہ کلام ہدیہ کرتی ہے کہ تم دلبری یا ناموری جس فضیلت کی آرزو کو عمل کا روپ دینا چاہو گے ’’ ابتلا ‘‘ سے تمہیں ضرور گزرنا ہو گا۔ دلبری کے امتحانات بھی بڑی کڑے ہوتے ہیں اور ناموری کی راہ میں آزمائش کی بھٹی ہوتی ہے ۔ کہا جا سکتا ہے آزمائش خود چہرے پر نقاب ڈال کر زندگی کے صحن میں اترتی ہے پھر بندے کو ہلاتی ہے ، گداگداتی ہے ، خود مسکراتی ہے اور بندے کو رلاتی ہے ۔ اسی موقع پر آدمی کبھی ’’ رجل منصور ‘‘ ہو جاتا ہے اور کبھی ’’ عباء منشور ‘‘ ہو جاتا ہے ۔ ابتلا مصیبت ہو تو اس کے پیٹ سے ایک اور مصیبت جنم لیتی ہے اور یہ خوشی کے روپ میں جلوہ گری کرے تو شبنم کا قطرہ اور آنکھ کا آنسو بن سکتی ہے اور کبھی خار ِ مغیلاں کی چبھن بھی ہوجاتی ہے لیکن قرآن مجید کی یہ آیت کہتی ہے کہ معبود کی بھیجی ہوئی آزمائش پنجتنی ہے : خوف بن کر سینا تان لیتی ہے ، بھوک بن کر آنتوں میں چٹکیاں کاٹتی ہے ، آفت کا روپ دھار کر اموال چاٹ لیتی ہے ۔ موت بن کر چلتے پھرتے متحرک وجودوں کو پیوند خاک بنا دیتی ہے اور بجلیوں کا شعلہ اور نامراد یوں کی آتش بن کر ثمرات اور آرزوئوں کے تازہ چمنستانوں کو اجاڑ دیتی ہے اور زبان فطرت ہو کر پوچھتی ہے سنائو کیا حال ہے ؟پریشان تو نہیں ہو طبیعت پر بوجھ تو نہیں آیا ، اس عالم میں کیا سکت ہے ؟ کہ ترانہ حمد تمہاری زباں سے نکل جائے ۔ تکبیر و تہلیل تمہاری نطق کے بوسے لے اور خالق کی محبت نعرہ بن کر روح میں گونجے اور ذکر بن کر دل کی دھڑکن ہو جائے ۔ کیفیات کے اس رنگ کے پھول جب مصیبتوں آفتوں ، نقصانات اور ایثارات کے جہاں میں مسکرانے لگ جائیں تو پھر بشارات کا نزول ہوتا ہے، خوشیاں اترتی ہیں ، براتیں روح کی دنیا میں روشنی سلگاتی ہیں ، نعرے گونجتے ہیں اور یوں کائنات کی پاکیزہ ترین زباں سے یہ لفظ صادر کروائے جاتے ہیں صابرین کو بشارت دے دو :
بقول کسے (113) :
تاروں پہ ڈالنے کے لئے جو کمند تھی
دیوار اپنی راہ میں اس سے بلند تھی
وہ شے جو اس نے اپنے لئے منتخب نہ کی
وہ چیز اس کو میرے لئے کیوں پسند تھی
اس آیت کی تفسیر میں علامہ محمد النودی الجادی لکھتے ہیں کہ آزمائش ناکام کرنے کے لئے نہیں ہوتی فوز و فلاح کے خزانوں سے نوازنے کے لئے ہوتی ہے ۔ بندے کو احوال کے آئینے میں رکھ دیا جاتا ہے کہ دیکھتے ہیں تصویر کیسی ابھرتی ہے ؟نامرادیوں کا ماتم نوحہ کناں ہوتا ہے یا تسکین کی جنتیں مومنوں کو وجود میں نور ورنگ بکھیرتی ہیں (114)۔
آیت میں خوف اور جوع سے مراد کیا ہے ؟
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے اور بھوک سے مراد قحط ہے (115)۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ خوف سے مراد اللہ کا خوف ہے ، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے مراد زکوٰۃ و صدقات ، جانوں کا نقصان بیماریاں اور پھلوں کا نقصان اولاد کا مرنا ہے (116)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے (117):
رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا :
جب کسی شخص کا بچہ فوت ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کیا تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی
فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ جی ہاں ‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
کیا تم نے اس کے دل کی ٹھنڈک کو لے لیا ، فرشتے عرض کرتے ہیں : ’’ جی ہاں ‘‘
اللہ فرماتے ہیں : میرے بندے نے اس موقع پر کیا کہا ؟
فرشتے کہتے ہیں :
اس نے کہا ’’ انا للہ و ا نا الیہ راجعون ‘‘ اور اے اللہ اس نے تیری حمد کی ۔
اللہ فرماتا ہے :’’ اچھا تم میرے اس بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تیار کرو اور اس کا نام ’’ بیت الحمد ‘‘ رکھ دو ‘‘ ابوحیان اندلسی نے ان مصائب کو جہاد کے ساتھ جوڑا ہے اور لکھا ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے تکلیفیں اٹھانا آزمائش اور امتحان ہے لیکن جو صبر کرے یعنی ڈٹا رہے اور استقامت سے اللہ کے دین کے کام کو آگے بڑھاتا ہے اس کے لئے بشارتیں ہیں (118)۔ واللہ اعلم
قرآن مجید نے سورئہ بنی اسرائیل میں خوف اور رجا کو رو برو بیان کیا ہے (119):
ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ
’’ اور اُس کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں اور اُس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ‘‘۔
اس اعتبار سے درپیش خطرہ کا اندیشہ خوف کہلاتا ہے اور مطلوبہ فائدہ کی توقع کو رجا کہتے ہیں ۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی ؓ کی ایک روایت ہے (120):
’’ رسول رحمت کی سیرت میں ایسی چیزیں ہیں جو تمہیں دنیا کے عیوب اور قبائح سے آگاہ کرتی ہیں۔ آپ اس دنیا میں اپنے مقربین سمیت بھوک سے رہاکرتے تھے اور دنیا سے آپ رجوع کی کیفیت ہی میں رخصت ہوئے اور آخرت میں آپ سلامتی کے ساتھ پہنچ گئے ‘‘ ۔
آزمائش کا تیسرا مرحلہ اموال کا نقصان ہے ۔ قرآن مجید نے کہا کہ تمہارے اموال اور اولادیں آزمائش ہیں ۔
حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ خواہشات کا سرچشمہ مال ہے (121)۔
آیت ہمیں کیا سکھاتی ہے
1۔ زندگی ابتلا اور آزمائش ہے اسے احتیاط سے برتنا چاہیے۔
2۔آزمائش اضافی امر نہیں ضروری ہے اس طرف اشارہ ’’ لنبلو نکم ‘‘ میں نون ثقیلہ کر رہا ہے ۔
3۔ مصیبتوں کا ہجوم ایک ہی دفعہ نہیں ہو جاتا ہے دھیرے دھیرے ہوتا ہے یہ بات ’’ بشئی ء ‘‘ میں تنوین سے سمجھ آتی ہے ۔
4۔دشمن دین حق سے روکنے کے لئے عام طور پر یہی طریقے استعمال کرتے ہیں :
ا۔ خوف دلاتے ہیں
ب۔ اقتصادی نقصان پہنچاتے ہیں ، جیسے حضور ؐ کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا ۔
ج۔ مالوں میں نقصان پہنچاتے ہیں ۔
د۔ جانیں لینے کے لئے حملے کرتے ہیں ۔
ح۔ فوائد والی چیزوں اور اولاد وں سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
5۔ بشارتیں ساری صابرین کے لئے ہوتی ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے قرآن کی آواز سن لی ۔
6۔ آزمائش کا مقصد دبانا اور کچلنا نہیں صلاحیتوں کو نکھارنا ہوتا ہے ۔
7۔ زندگی کا ہرمرحلہ رضا و رغبت سے طے کرنا چاہیے ۔
8۔ صبر کے تینوں معانی ذہن میں ہر وقت تازہ رہنے چاہئیں
ا۔ گناہوں سے رکنا ۔
ب۔ مصیبت میں واویلانہ مچانا ۔
ج۔ حق پر ڈٹ جانا
9۔ قرآن کتاب تربیت ہے، اس لئے ان نصائح اور تنبیہات کو تربیتی اسباق ہی سمجھنا چائیے۔
10۔ بشارت کا صحیح معنوں میں مزا وہی شخص اٹھا تا ہے جو صابرین کی جماعت کی اہمیت سمجھتا ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں