323

سورۃ البقرہ کی آیت156کی تفسیر


الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن
’’ کہ جب بھی انہیں مصیبت پڑے گی وہ پکار اُٹھیں گے ہم تو ہیں ہی اللہ کے لئے اور ہم نے یقینا اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ‘‘
قرآن مجید کی یہ آیت صابرین کا نظریہء حیات بیان کرتی ہے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کا عرفان حق اس جملے کی صورت میں ان کی زبانوں سے ’’ ہویدا‘‘ ہونے لگ جاتا ہے کہ ’’ ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہم نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ‘‘
نظریہ ء حیات کے لحاظ سے ادیان فقط دو قسم کے ہوتے ہیں : ایک وہ جن میں اثبات حیات پایا جاتا ہے اور دوسری وہ ہیں جن میں نفی ِ حیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ایک وہ ہیں جو زندگی سے گریز کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو زندگی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے بعض فنا ء پرزور دیتے ہیں اور بعض بقاء پرزور دیتے ہیں ۔ اسلام کے سوا ہر جگہ رہبانیت کی تعلیم ہے اور دنیا کو سنوارنا مطمع نظر نہیں، ترکِ دنیا مقصود ہوتا ہے ۔ یہودیت میں اگر چہ ترک دنیا کی تعلیم نہیں لیکن شرکیہ عقائد کی وہاں بھی بھر مار ہے۔ اسلام نے انسان کے فکر و عمل میں بہت سے انقلابات پیدا کئے ہیں۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان حالت سفر میں رہتا ہے اس کس منزل رب ہے۔ والی ربک المنتھی ’’ موت ایک مرحلہ کے سوا کچھ نہیں ‘‘ ۔
ابن عربی ’’ امنتھی ‘‘ کو بھی منزل نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کا معنیٰ اللہ کی شان جامعیت سے اقرب ہونا مراد لیتے ہیں ۔
مولانا روم بھی منزل تو رب ہی کو سمجھتے ہیں لیکن وہ ارتقا ء کو لامتنا ہی تصور کرتے ہیں۔
مولانا کے معروف اشعار ہیں :
من غلام آں کہ او در ہر رباط
خویش را واصل نہ داند بر سماط
بس رباطے کہ ببابد ترک کرد
تابمکن در رود یک روز مرد
’’ میں اس کا غلام ہو ں جو ہر مقام سکونت کو اپنی منزل و صل تصورنہیں کرتا بلکہ اس کی بے تابی ہر مقام کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے پھر ایک وقت آ ہی جاتا ہے کہ عالم منتہیٰ میں اسے مسکن میسر آ جاتا ہے ۔ ‘‘
اس بحث کو شیخ اکبر کے اس جملہ پر مختتم کروں گا :
الرب رب وان تنزل
والعبد عبد وان ترقی
’’ اللہ اپنی شان کے مطابق طبقات حیات میں نزول بھی فرمائے تب بھی وہ رب ہی رہتا ہے اور بندہ کتنا ہی عروج کر لے وہ عبد معظم ہی رہتا ہے خدا نہیں ہوتا ‘‘۔
انا للہ وانا الیہ رجعون میں عقیدہ بھی ہے ، عزم بھی ہے اور ارتقائی عمل کی تصویر بھی ہے۔ مراجعت اور موت دونوں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
حضور انور ؐ سے مروی ہے (122)
’’ جو مصیبت کے وقت انا للہ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کا تدارک فرما دیتا ہے ۔ اس کا انجام بہتر بنا دیتا ہے اور اسے پسندیدہ اورنیک نعم البدل عطا فرما دیتا ہے ‘‘ ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بتایا : رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اللہ کی طرف اسے پھیر دے اور یہ پڑھ لے :انا للہ وانا الیہ رجعون
اللھم عندک احتسبت مصیبتی فاجرنی فیھا و عوضنی خیرا منھا الا اجرہ اللہ علیھا و عوضہ خیر امنھا
’’ اے اللہ !تیرے علم میں ہے میری مصیبت تو اس میں مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا عوض بہتر عطا فرما تو اللہ اس پر اس کو اجر اور عوض فرما دیتا ہے ۔ ‘‘
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو میں نے یہ دعا پڑھی تھی تو اللہ نے مجھے ان کا بدل حضور ؐ کی صورت میں بہت ہی بہتر عطا فرمایا (123)۔
علامہ فخرالدین رازی لکھتے ہیں کہ حضور انور ؐ نے ایک مرتبہ چراغ بجھایا اور پڑھا انا اللہ واناالیہ راجعوان آپ سے عرض کیا گیا یا سیدی یا رسول اللہ کیا یہ مصیبت ہے ؟ فرمایا ہاں مسلمان کو جوشئی بھی تکلیف دے دہی اس کے لیے مصیبت ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ؐ کا تسمہ ٹوٹ گیااور انگوٹھے میں کانٹا چبھنے پر بھی انا اللہ پڑھا تھا (124)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مومن جب معاملات اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور مصیبت کے وقت انا اللہ پڑھتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے لئے تین چیزیں لکھ دیتا ہے (125):
٭اللہ کی طرف سے صلوٰۃ
٭اللہ کی طرف سے رحمت
٭ اور سیدھے راستے کی ہدایت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آسمان سے گرنا میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ میں اللہ کے کسی فیصلے پر کہوں کاش !یہ نہ ہوتا (126)۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ چار عادتیں جس میں جمع ہو جائیں اس کے لئے جنت میں گھر بنتا ہے (127) :
1۔ سب کاموں میں اللہ سے التجا کرے
2۔ مصیبت کے وقت انا اللہ پڑھے
3۔ نعمت ملنے پر الحمداللہ کہے
4۔ اور جب کوئی گنا ہ جائے تو استغفراللہ کہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں