1,241

حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کی اسلام کے لیے خدمات

پیغمبرِ اسلام کی پہلی بیوی جنھوں نے اپنے شوہر اور دین کی خاطر وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھا
‘انھوں نے اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو گرا دیا۔ یہاں تک کہ آج کی خواتین بھی وہ کرنے کی خواہش مند ہوں گی جو انھوں نے 1400 سال قبل کر دکھایا۔’
انھیں معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل تھا، وہ بہت امیر اور بااثر خاتون تھیں جو کئی امرا کی جانب سے شادی کی پیشکش ٹھکرا چکی تھیں۔
ان کی دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ ایک شوہر کا انتقال جبکہ دوسرے شوہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے خود ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
انھوں نے طے کر لیا تھا کہ اب شادی نہیں کریں گی لیکن ان کا یہ ارادہ اس وقت بدل گیا جب وہ اس شخصیت سے ملیں جو ان کے تیسرے شوہر بنے۔
اصل میں حضرت خدیجہ نے پیغمبرِ اسلام کو منتخب کیا اور شادی کی پیشکش کی۔ حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال جبکہ پیغمبرِ اسلام 25 سال کے تھے۔ یہ صرف ان دونوں کے رشتے کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہیں سے ایک ایسے مذہب نے جنم لیا جس کے پیروکار آج اپنی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
مثال کے طور پر انھوں نے اپنے کزن کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا تھا جبکہ ان کا خاندان روایتی طور پر اس رشتے کی حمایت کرتا۔ لیکن وہ اپنے شوہر کا انتخاب خود کرنا چاہتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ایک ایسے کامیاب تاجر کی بیٹی تھیں جس نے اپنے خاندانی کاروبار کو ایک وسیع کاروباری سلطنت میں تبدیل کر دیا تھا۔
والد کی جنگ میں ہلاکت کے بعد حضرت خدیجہ نے کاروبار سنبھال لیا۔
حضرت خدیجہ مکہ سے جو کاروبار کرتی تھیں اس کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے بڑے شہروں میں ان کے تجارتی قافلے سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی قافلے طویل سفر طے کر کے جنوبی یمن اور شمالی شام جیسے شہروں تک جایا کرتے تھے۔
پھر انھیں ایک ایسے شخص کے متعلق معلوم ہوا جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ بہت ایماندار اور محنتی ہے۔
حضرت خدیجہ نے اس شخص سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے ایک تجارتی قافلے کی سربراہی کرنے کا کہا۔ جلد ہی وہ اس شخص کی مداح ہو گئیں۔
حضرت خدیجہ پیغمبرِ اسلام سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے ان سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد پیغمبرِ اسلام کو اپنے مقصد کے لیے زبردست استحکام اور معاشی مدد ملی۔
حضرت خدیجہ کی طرح پیغمبرِ اسلام بھی قریش قبیلے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس علاقے میں اکثر لوگ کئی خداوں کی عبادت کرتے تھے۔
جب پیغمبرِ اسلام کو روحانی تجربات کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ مکہ کے قریب پہاڑوں پر جا کر مراقبہ کرنے لگے تو ان کی شادی کو کئی برس ہو چکے تھے۔
حضرت خدیجہ اور ان کا خاندان مکہ میں مقیم تھا جسے آج اسلام کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے
اس کے بعد انھیں فرشتے حضرت جبرائیل کے ذریعے اللہ کی جانب سے وحی آنے لگی۔
پیغمبرِ اسلام نے فیصلہ کیا کہ وہ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں کسی کو بتائیں۔ وہ حضرت خدیجہ پر بےانتہا اعتماد کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان کی بات سنی اور انھیں دلاسا دیا کیونکہ ان کے دل نے کہا کہ یہ کوئی عظیم اور انتہائی مقدس تجربہ ہے۔
کئی مورخین کی نظر میں پیغمبرِ اسلام پر اترنے والی آیات کو سب سے پہلے حضرت خدیجہ نے سنا تھا اس لیے وہ تاریخ کی پہلی مسلمان خاتون بن گئیں اور اسلام قبول کرنے والی پہلی شخصیت بھی۔
مورخ بیٹنی ہیوز کا کہنا ہے ‘میرے خیال میں حضرت خدیجہ کی حمایت سے پیغمبرِ اسلام کو اپنا پیغام عام کرنے اور اپنے قبیلے کی اشرافیہ کی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔’
پروفیسر فوزیہ بورا کے مطابق جب پیغمبرِ اسلام نے تبلیغ شروع کی تو مکہ کے معاشرے میں ان کی بہت مخالفت ہوئی کیونکہ مختلف خداؤں کی عبادت کرنے والے معاشرے میں وہ ایک خدا کو ماننے کا پیغام دے رہے تھے۔
اس موقعے پر حضرت خدیجہ نے وہ حمایت اور تحفظ فراہم کیا جس کی پیغمبرِ اسلام کو اشد ضرورت تھی۔
حضرت خدیجہ نے زندگی کے آخری دنوں تک اپنے شوہر اور اسلام کی حمایت اور مدد کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھا۔
اس وقت پیغمبرِ اسلام اور ان کی رفاقت کو 25 سال ہو چکے تھے اور حضرت خدیجہ کا بچھڑنا ان کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔
حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ کی کہانیاں اسلام میں خواتین کے کردار کے بارے میں بہت سے لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرتی ہیں
حضرت خدیجہ کی تاریخ کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ اس تصور کو غلط ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمان عورتوں کو گھروں تک محدود رکھا جاتا تھا۔
پیغمبرِ اسلام نے حضرت خدیجہ کو ان کی پسند کے کام کرنے سے کبھی نہیں روکا تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس زمانے کے لحاظ سے اسلام نے عورتوں کو زیادہ حقوق اور اہمیت دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں