346

سورۃ البقرہ کی آیات148،149کی تفسیر


’’اور ہر ایک کی توجہ کے لئے ایک مرکز ہے جس کی طرف وہ رُخ کرتا ہے تو کیا دیر ہے نیکیوں میں دوسروں سے آگے آگے رہو تم کہیں بھی ہوئے تو اللہ تم سب کو اٹھا لے آئے گا بے شک اللہ ہر چاہے پر قادر ہے ۔‘‘(148)
اس آیت میں زندگی کی اصل قیمت بتائی جا رہی ہے۔
گفتگو ، بحث اور اختلافات کی ہر کتاب بند کر کے مسلمانوں میں نیکیوں کا عشق اور شوق پیدا کیا جارہا ہے ۔ عمود آیت تک رسائی کے لئے قرآن مجید کے بیان قاطع پر قرآن مجید کی روحانی مقناطیسیت نے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور فہم و ذکاء کے ملکوتی پھول طالبین کی جھولی میں ڈالتے ہوئے سمجھایا جا رہا ہے کہ ہر فرقے نے اپنا ہی ایک قبلہ بنا لیا ہے ۔ یہودی الگ ایک سمت سے چمٹے ہوئے ہیں اور عیسائی اپنے ہی من زاد شوق سے ایک جہت پر ہستی کے جنوں کا شکار بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمانو !تمہارے لئے سمجھ کے لائق نکتہ یہ ہے کہ تم جہات اور سمتوں کے حصار میں قیدنہیں ہو ، تمہاری غلامی کی ہر رسی کو کاٹ دیاگیا ہے، تمہیں جہاں قیامت کے دن جمع کیا جا رہا ہے ، وہاں سمتیں ، جہتیں ، رنگ نخرے اور دعوے ، بڑکیں نہیں دیکھی جائیں گی وہاں نیکیوں پر نظر کی جائے گی ، انہیں تولا جائے گا اور انہیں پرکھا جائے گا ، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کسی کا قبلہ درست بھی ہو تو اس کے مخزن روحانی میں خیرات اور نیکیاں نہ ہوں تو وہ مظلوم بے چارہ ہنگامہ محشر کیا کرے گا ۔اصل زندگی کی قیمت توشوق ، وارفتگی اور عشق سے نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے نکلنے کی ہے اور نیکی کا تعلق اللہ کے امر سے ہوتا ہے ، وہ جو کہتا جائے تم وہ کرتے جائو ، دین دوستوں اورتاریخ کی پوجا کانام نہیں ، دین تو اللہ کے سامنے ہر اعتبار سے جھکنے کا نام ہے ۔
٭شیخ اصم کا قول ہے کہ ’’لکل ‘‘ میں تمام لوگ شامل ہیں ، مسلمان ، یہود ونصاری اور مسلمان شامل ہیں ، مسلمان ، یہود ، نصاری ٰ اور مشرکین۔
دوسرا قول تابعین کا ہے کہ اس میں مشرکین شامل نہیں یہود و نصاری ٰ اور مسلمان شامل ہیں ۔
٭رازی نے تیسرا قول مسلمانوں کے بارے میں نقل کیا کہ یہاں صرف مسلمان مراد ہیں کہ وہ جس سمت سے بھی نماز ادا کریں مقصود عبادت پورا ہو سکتا ہے(68)
٭چوتھا قول یہ ہے کہ ہرایک سے روحانی مخلوق مراد ہے ۔ مرسلین ، اصحاب ِ شریعت اور روحانیوں کا قبلہ اس طرح ہے۔ مقربین کا عرش، اہل محبت کا قبلہ کرسی ، فرشتوں کا بیت المعمور ، سابقین کا قدس اور حضور ؐ کا کعبہ ہے (69)۔
’’ وجھۃ‘‘ پر بھی مفسرین نے چند اقوال نقل کئے ہیں :
٭فخر الدین رازی نے لکھا کہ ’’وجھۃ ‘‘ اور وجۃ ‘‘ دونوں ایک ہی ہے ۔ وہ سمت یا وہ چیز جس طرف چہرہ موڑا جائے ’’وجھۃ ‘‘ ہے (70)۔
٭فرانے معانی القرآن میں لکھا کہ عربوں کے مقولہ کے مطابق آیت میں ’’ وجھۃ ‘‘ لایا گیا ۔وہ کہتے ہیں یہ کام ایسا ہے جس کی کوئی وجہ ہی نہیں شاید اس میں مقصود اورسبب ہونے کی طرف اشارہ ہے (71)۔
٭زجاج کا کہنا یہ تھا کہ ’’ وجھۃ ‘‘ کا معنیٰ ’’ وضعہ ‘‘ ہے کسی کام کو کرنے کا طریقہ اور اسلوب وضعہ کہلاتا ہے ۔
٭تفسیر کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو رازی کی بات فہم سے زیادہ قریب ہے (72)۔’’ھو مو لینا ‘‘ میں مفسرین نے لکھا کہ حقیقت تک پہنچانے والا اللہ ہی ہے ۔ یہاں اللہ کی اسی ’’ تولیت ‘‘کی طرف اشارہ یعنی اللہ کی طرف سے تولیت کعبہ ہی کو حاصل ہے وہ لوگ جواس کے سوا اور سمتوں کی طرف پھر رہے ہیں ان کی تولیت رحمانی نہیں شیطانی ہے (73)۔
منشورآیت
آیہ کریمہ کا منشور نیکیوں کی طرف استباق ہے ۔ تمنائوں ، عقیدوں اور آرزوئوں کو تحریک و عمل کے مرکز کی طرف کھینچنا ہے۔ قرآن مجید نے نیکیوں کو مطلق رکھا تا کہ نفسیانی اعتبار سے شوق کی بارات ہر نیکی کی طرف کشاں کشاں اور خراماں خراماں بڑھے لیکن وہ مفسرین بھی غلط نہیں جنہوں نے نیکیوں اور خیرات کو کعبہ کی تاریخ کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور کعبہ کو قبلہ بنانے کے بعد اس کی زیارت کے شوق کو مقصود بنایا جا رہا ہے تا کہ دنیا بھر سے عاشقوں کے قافلے اس گھر کی زیارت کے لئے سفر کرتے رہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں یہ جذبہ تڑپتا رہے کہ میں وہ پتھر دیکھوں جس پر ابراہیم علیہ السلام کا نقش پا ہے، میں اس محبوب نظر ادا کے چہرے پر بوسہ لے لوں جسے حضور ؐ نے اللہ کے داہنے ہاتھ سے تشبیہ دی ہے ،میں اس جگہ طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کا لطف لوٹوں جہاں انبیاء ، مرسلین اور لاکھوں صلحاء کے قافلے عشق میں دست برجگر چلے ہیں ، میں شہر نور کے قدسی نظر پر بتوں کو دیکھوں ۔ جی ہاں ابل دل مجھے کچھ آنسو دے دو ، دلوں کی دھڑکنیں دے دو ، وفور ِ شوق دے دو ، مجذوبو !کچھ جذب و جنوں مجھے بھی دے دو تا کہ میں اس شہر کی راہ میں پڑے خار مغلاں سے آبلہ پائی نہیں جگر پائی کا مزا لے لوں ۔ یہ شہر قسم سے جنت کی کیاری اس لئے ہے کہ میرے آقا کی ولادت بھی تو ادھر ہی ہوئی ، آئو مکہ اور مدینہ کی راہوں میں نسبتیں تلاش کرتے ہیں ،ان ایسی نیکیاں اور کیا ہوں گی اللہ نصیب جگا دے ۔
قرآن حکیم کہتا ہے تم جہاں بھی ہو گے اللہ تمہیں لے آئے گا ، قیامت بھی بپا ہو گی اور عاشقوں ، چاہنے والوں اور تڑپنے والوں کے لئے عرفات بھی سجے گا ، منیٰ میں لوگ زنان مصر سے تاریخ چھین کر چھریاں ہاتھ میں لے کر مداوا ئے عشق بھی تلاش کریں گے ۔شیطانوں کے سروں پر عاشقوں کے ہاتھوں سے سنگ زنی بھی کرائی جائے گی ، غم نہ کھائو ، مہبط حاجرہ میں مل کر تھوڑا دوڑ و گے بھی ، پرانی ، بوسیدہ ار بیکار سوچوں کو سر کے بالوں کے ساتھ مونڈ کر ضر ور تم بالوں کے قبر ستان میں پھینک دو گے ۔
لبیک لبیک کے گیت تم گنگنائو گے اللھم اللھم کی عبادتیں ملیں گی اللہ اکبر اللہ اکبر کے ترانے گونجیں گے ،رنگ اڑیں گے ، جلوے بکھریں گے، ماحول ضوفشاں ہو گا تم سب کے سب مل کر دعوت دو۔
ہائے نی منڈیو
تے
ہے نی کڑیو
آئو سنگ رل کے مدینے چلئے
توبہ قبول ہوویسی
اللہ اکبر کیبر اولحمد اللہ کیثراو سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا
آیت میں اسباق
1۔چہروں کی طرح دلوں کے بھی قبلے ہوتے ہیں ، دھڑکنوں کی رہبری اہل ذکر ہی کر سکتے ہیں ۔
2۔چہرں کا نظام اپنا ہے جو آنکھوں کو بینائی دیتا ہے وہی چہروں کو دل رہائی بخشتا ہے ۔ مسلمانوں کا قبلہ حضور ؐ کے چہرے ہی کی بخشش ہے ۔
3۔روحانیت کے مرکز بے رخی برداشت نہیں کرتے۔ رخ پروری شرک نہیں ہوتا وفا ہوتی ہے ۔
4۔نیکی کی طرف پھیرنے والا خدا خود ہے ۔
5۔ زندگی کی قیمت نیکیوں سے ہے تو اس خزانہ کے حصول کے لئے تڑپ ہی نہیں کوشش بھی ہونی چائیے ۔
6۔قیامت کے دن اللہ کے حضور ہر ایک نے پیش ہونا ہے ۔
7۔بحث و جدال فیض سوز ہوتے ہیں ۔ عملی زندگی کی تحریک مسائل میں حل اطمینان عطا کر دیتی ہے ۔
8۔کعبہ ہی قبلہ ہے وہاں کی تاریخ سے مستفیض ہونے کے لئے بار بار وہاں جانا چاہئے ۔
9۔اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
10۔انسان کو جدالی بننے سے فائدہ نہیں تعمیری سوچیں فائدہ دیتی ہیں ۔
11۔حسد اور بغض انسان کو فیض اور حق سے محروم کر دیتے ہیں ۔
’’اور آپ جدھر سے بھی باہر نکلیں اپنا چہرہ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرے رکھیں اور یقینا یہی حق ہے تمہارے رب کی طرف سے اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ‘‘۔(149)
آیت کی تفیسر میں تخصیص کے بعد تعمیم ہے ۔ اس اشکال کو قرآن مرفوع کر رہا ہے کہ تولیت قبلہ کا حکم صرف اہل مدینہ کے لئے نہیں ہے بلکہ آفاق کی بستیوں میں مسلمان جہاں بھی بستے یں سب کے لئے حکم ہے کہ نماز میں اپنے چہروں کو رخ کعبہ کی طرف کر لیں ۔ذہن اوردل کسی الجھن اور کھٹک کا شکار نہیں ہونے چاہئیں۔ذرا غور کریں اور زندگی کے نمونہ کو دیکھیں ہم محبوب کو حکم دے رہے ہیں پیارے !اپنا چہرہ مسجد الحرام کی سمت کر لیں ،آپ کے اسوئہ حسنہ سے پوری اُمت فیض یاب ہوتے ہوئے ادھر ہی گھوم جائے گی جدھر آپ اپنا منہ موڑ لیں گے ۔آیت میں یہ درست ہے کہ خطاب حضور انور ؐ سے ہے اور مراد حضور ؐ کی پوری اُمت ہے ۔حکم ہوا ہے تم جہاں بھی مدنی رہنمائی کو آفاقی تصور کر کے اطاعت و وفا بجائو اسلام کی صداقت اور حقانیت کے روشن نشان قائم ہو جائیں گے ۔
آیت کے آخر میں سازشیں کرنے والوں کو دھمکی انگیز انداز میں کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے اور بلاشبہ مسلمانوں کو بھی خبردار کیا جا رہا ہے تمہاری اطاعت ووفا کی خصلتوں سے اللہ بے توجہ نہیں ،تم لوگ ہمہ دم اللہ نظر میں رہتے ہو۔
امام فخر الدین رازی نے ’’ من حیثُ حرجت ‘‘پر پانچ اقوال نقل کئے جن کا جان لینا خالی از فائدہ نہیں (74)۔
پہلا قول
انسان تین حالتوں سے خالی نہیں ، وہ مسجد حرام میں ہو گا یا پھر وہ مسجد حرام سے باہر ہو گا لیکن مکہ میں ہو گا یا پھر مکہ سے بھی خارج ہوگا ۔تین مرتبہ بات کو دہرایا اس لئے گیا ہے پہلی مرتبہ پہلی حالت ، دوسری مرتبہ دوسری حالت اور تیسری مرتبہ تیسری حالت بیان ہوئی ہے ، تکرار میں تعلیم کا اکمال ہے۔
دوسرا قول
پہلی مرتبہ یہ واضح کیا گیا کہ اہل کتاب جانتے ہیں کہ نبوی ہدایت اور یہ قبلہ حق ہے اس لئے کہ انہوں نے تورات میں اس کا مطالعہ کیا ہوا تھا ۔دوسری دفعہ یہ واضح کیا گیا کہ اللہ گواہ ہے ۔ نبوت محمدی اور کعبہ کا قبلہ ہونا حق ہے اور تیسری مرتبہ آشکار کیا گیا کہ لوگوں پر کوئی حجت نہ رہے ۔
تیسرا قول
یہ بات کھول دی گئی کہ مسجد الحرام کو قبلہ بنانا محض محبوب کی خواہش پر نہ ہوا بلکہ یہ اللہ کا حکم تھا اور محبوب اس کے پابند تھے ۔رازی کو اللہ قبر میں خوش رکھے کئی اور مقامات پر بھی تو اللہ نے محبوب کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ، البتہ یہ بات خوب ہے کہ پہلی آیت میں تمام مقامات پر کعبہ کا قبلہ ہونا ، دوسری آیت میں تمام مقامات اور زمانوں میں اور تیسری مرتبہ ہرزمانے میں دوام کی طرف اشارہ ہوا کہ سمجھا جا سکے کہ اب کعبہ کا قبلہ ہونا کبھی منسوخ نہ ہو گا ۔
چوتھا قول
امر اول کا تعلق اس قبلہ سے مسلمانوں کے اکرام کا ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں ۔ دوسرے کا تعلق اللہ کے اس حکم سے ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک قبلہ ہے ۔اشارہ اس طرف مقصود ہے تاکہ آشکار ہو جائے کہ ہر صاحب دعوت و ملت کاقبلہ کعبہ ہے اور تیسرے کا تعلق اس سے ہے کہ اللہ کا حکم قطعی ہے جو اس کے لئے حجت پر مبنی ہے ۔
پانچواں قول
محمد ی شریعت میں چونکہ کسی حکم کے منسوخ ہونے کا معاملہ پہلا تھا اس لئے تربیت کو محکم کرنے کے لئے بات بار بار دہرائی گئی ۔ واللہ اعلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں