451

المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی ویکسین بیداری مہم

کورونا وائرس ویکسین سے متعلق مسلمانوں سمیت بعض دیگر مذاہب کے افراد کی ایک قلیل تعداد میں مختلف قسم کے ابہام پائے جاتے ہیں اور برطانیہ بھر میں یہ کمیونٹی ویکسین کے انجیکشن لگوانے سے گریزاں ہے جبکہ انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروسز اور دیگر حکومتی ادارے پوری ذمہ داری سے ترویج کر رہے ہیں کہ ویکسین سے متعلق سب ہی افواہیں غلط ہیں، ان حالات میں برطانوی حکومت نے ہر کمیوٹنی کے سرکردہ لوگوں اورمذہبی رہنمائوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر یقین کرنے والوں کے دلوں سے ویکسین کا خوف نکالنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں۔ایسے میں ’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ نے ویکسین کے بارے میں افواہوں اور منفی باتوں کو دور کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دینے اور اپنی کمیونٹی کو ویکسین لگوانے کی طرف راغب کرنے کا عملی قدم اٹھایا ہے، اس ادارے نے لاکھوں کی تعداد میں پوسٹر شائع کرکے انہیں گھر گھر پہنچانے کا بندوبست تو کیا اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کو بھی آن بورڈ لیا ہے ۔ حکومت کے سائنسی مشیروں کی دستاویزات کے مطابق سائنسی ایڈوائزی گروپ کی جانب سے کئے گئے کئی ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ سیاہ فام ایشیائی خصوصاًپاکستانی و بنگلہ دیشی کمیونٹی میں ویکسین کے حوالے سے ابہام زیادہ پائے جاتے ہیں اور وہ ویکسین لگوانے میں شدید ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ نے اپنی پوسٹر مہم کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھی یہ آگاہی مہم شروع کی ہے تاکہ کمیونٹی کے اندر جو افواہیں اس ویکسین کو لگوانے سے متعلق گردش میں ہیں انہیں ختم کر نے کیلئے اپنا انسانی فریضہ ادا کر سکیں ،المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی اس انسانی خدمت کے کام میں جہاں علماء و مشائخ نے اس ادارے کا پھر پور ساتھ دیا وہاں کمیونٹی کے سرکردہ افراد نے بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ، یقینا اس ادارے کا یہ اقدام صائب اور قابل تحسین ہے۔

کیا کررونا وائرس کے بعد برطانیہ بدل جائیگا
یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو عام لوگوں سے لے کر خواص تک کے اذہان پر چھا یا ہوا ہے ملک بھر میں سیاسی و سماجی محققین اس بات کا جائزہ لینے کیلئے ’’ سرجوڑ ‘‘ رہے ہیں کہ جب کووڈ 19مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو کیا برطانیہ بدل جائے گا ؟یقینا یہ ایک اہم ترین سوال ہے کیونکہ گذشتہ سال کے آغاز میں آنے والی اس وہانے جہاں لاکھوں زندگیوں کو نگل لیاہے وہاں معاشی اور معاشرتی سطح پر بھی انتہائی سے زیادہ نقصان ہوا ہے ، دنیا بھر کی طرح برطانیہ کو بھی کھربوں پائونڈ کا نقصان ہوا ہے، لوگوں کی نفسیات بھی تبدیل ہوئی ہے ۔ یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا یہ تمام چیزیں کبھی نارمل ہو سکیں گی اور اگر ہوں گی تو اس میں کتنا عرصہ لگے گا ،محققین سوچ رہے ہیں کہ جب 1930ء کی دہائی کے آخر میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور اس کے بعد لوگوں کی معاشی اور دماغی حالت کیا تھی ،بلکہ اس سے پہلے بھی لوگ بھوک سے لڑ رہے تھے اسی طرح ممکن ہے کہ کرونا وائرس تو ختم ہو جائے لیکن قومی سطح پر ایک انتہائی سنگین بحران شروع ہو جائے ، سوسائٹی میں نا انصافی کا دور دورہ ہو جنگ عظیم کے بعد بھی لوگ غربت اور بدامنی کا شکار تھے،بیروز گاری و بدامنی عروج پر تھی ، ممکن ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والابحران بھی اسی قسم کے حالات پیدا کر دے۔ کورونا وائرس نے جو دو بڑے نقصانات کئے ہیں ان میں ایک معاشرتی بحران کو بڑھا وا دینا اور یہ ثابت کرناہے کہ جب حکومت کی مرضی ہو گی وہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گی ، کئی ملین افراد بیروز گار ہوئے ، معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سماجی اور نفسیاتی بحران بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔آج کرایہ دار اپنے لینڈ لارڈز کے رحم و کرم پر ہیں، ائر لائنز ، ریسٹورنٹس ، ہوٹل اور دیگر کاروبار تباہ حال ہیں ۔یہ تمام حالات اشارہ کرتے ہیں کہ وائرس اگر ختم بھی ہو گیا تو ملک ایک مختلف قسم کے بحران کا شکار ہو جائے گا ۔یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ بڑھتی ہوئی بیروز گاری مختلف طرح کے جرائم کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے ۔اگرچہ ٹوری حکومت اربوں پائونڈ اس معاشی گراوٹ کودرست کرنے کیلئے خرچ کر رہی ہے جیسے کہ 350ارب پائونڈ بیروز گاروں کی سپورٹ کیلئے رکھے گئے ہیں۔ حکومت کو اب یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ بڑے بڑے کاروبار بند ہونے کی وجہ سے اسے ٹیکسیوں کی مد میں بھی رقم نہ ملنے سے نقصا ن ہو رہا ہے ،حکومت کے سامنے یہ سوال بھی سر اٹھا رہا ہے کہ وائرس ختم ہونے کے بعد کس طرح اس قدر بڑے مالی خسارے سے نمٹا جائے گا ؟یقینا جب حکومت اپنے مالی خسارے کو پورا کرنے کیلئے عوامی بینیفٹ میں کٹوتیاں کرے گی تو یہ بھی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ یہ حکومتی قدم بڑے پیمانے پر عوام کے اندر غصہ اور عدم تحفظ کا احساس بڑھانے کا باعث ہو گا چنانچہ غربت بڑھنے کا برائے راست اثر لوگوں کی نفسیات و عادات پر بھی ہو گا ،معاشرتی ابتری بھی خارج از امکان نہیں ہو گی ، لہٰذا برطانوی معاشرے میں اس قسم کی شکل کسی بھی طرح سے ناگزیر ہے ۔ اُدھر بنک آف انگلینڈ نے بھی کہہ دیا ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے معیشت 14فیصد سکڑ سکتی ہے جوکہ برطانیہ کیلئے 1706ء کے بعد یہ سب سے بڑا معاشی جھٹکا ہے۔بیروز گاری کی شرح 4سے بڑھ کر 9فیصد ہو چکی ہے برطانیہ کے مرکزی بنک کی طرف سے شرح سود میں کمی کر کے اسے صفر اشاریہ ایک فیصد کی ریکارڈ سطح پر لایا جا چکا ہے ۔ماہرین کے مطابق معیشت سے متعلق تخمینوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آنے والے مہینوں میں کوروناوائرس پر کب تک قابو پالیا جائیگا لیکن اگر مکمل طور پر اس وائرس کو قابو نہ کیا جا سکا تو اقتصادی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں