270

’’اسلام میں‘‘غربت کے خاتمہ کا حل

برطانیہ کے کوآپریٹوز کو قانونی خدمات فراہم کرنے والےادارے کے ڈیٹا کے مطابق چیریٹیز کیلئے وراثت کے تحائف دینے والوں کی شرح میں سال بہ سال اضافہ ہورہاہے اور اب ان کی شرح میں 53 فیصد اضافہ ہوگیا ہے،ادارے کا کہناہے کہ گزشتہ12 ماہ کے دوران کوآپریٹو کی جانب سے جو ہزاروں وصیتیں لکھی گئی ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ لوگ زیادہ مخیر اور فراخدل ہوتے جارہے ہیں اور چیریٹیز کیلئے تحائف چھوڑ رہے ہیں،اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2018 سے جون2019 کے دوران لکھی گئی وصیتوں میں اس قبل کی اسی مدت کے مطابق چیریٹیز کووراثت تحفے میں دینے میں کی شرح میں ہونے والے 53فیصد اضافے کاجائزہ لیاگیاتو یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ وراثت کینسر کی روک تھام اور کینسر کے مریضوں کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز کو دینے کی وصیت کی گئی اس کے بعد جانوروں کی بہبود کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز ،بین الاقوامی چیریٹیز ،بچوں سے متعلق چیریٹیز،مقامی مسائل حل کرنے کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز ،لوگوں کی جان بچانے والی چیریٹیز، مذہبی مقاصد کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز غربت کے خاتمے کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز اور بے گھروں کی بہبود کیلئے کام کرنے والی چیریٹیز کے علادہ ہسپتالوں یعنی علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے والی چیریٹیز اور ریسرچ فائونڈیشنزشامل ہیں۔
آج پوری دنیا میں مہنگائی کے بڑھتے طوفان نے غربت کا دائرہ بڑھادیاہے اوراسی تناسب سے غریبوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے۔غربت اب صرف تیسری دنیا کی خاصیت نہیںرہ گئی ہے بلکہ دوسری اورپہلی دنیا میں بھی غربت نے اپنے پائو ں پھیلالئے ہیں اور وہ ممالک جو کبھی خوابوں کی سرزمین کہلاتے تھے یعنی امریکہ اوریوروپ وہ بھی بے روزگار کی بڑھتی شرح اورغریبوں کی تعداد میں اضافہ سے پریشان ہیں۔گویاکہاجاسکتاہے کہ غربت کا بھی گلوبلائزیشن ہواہے۔
ملک کاارب پتی طبقہ:حقیقت یہ ہے کہ اگریہ طبقہ چاہتاتوملک سے غربت کو دور کرنے یاکم کرنے میں موثر اورنمایاں کردار اداکرسکتاتھا جیساکہ امریکہ اوریوروپ میں مالدارمخیرافراد نے کیاہے۔اگرمبالغہ نہ کہاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ امریکہ کی موجودہ ترقی بہت حد تک امریکہ کے ارب پتی اورمالدار طبقہ کے افراد کی عوام الناس کی فلاح وبہبود کیلئے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بالمقابل ہندوستان کاارب پتی طبقہ ہمیشہ اس کوشش میں رہاکہ وہ عوام سے کتناکماسکتاہے اس نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ جس عوام سے ہم کماتے ہیں ہمیں بھی کچھ ان کو ریٹرن کرناچاہئے۔ جس سے ہماری تجوری اورخزانے بھررہے ہیں ان کی بھی حالت سدھارنے کی جانب کوئی قدم بڑھاناچاہئے۔
اقوام متحدہ غربت کے خاتمے کیلئے بڑے بڑے پروگرام چلاتاہے۔ غریبوں کی عملی امدادبھی کرتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی اب تک کی کارگزاری کیارہی ہے اوراس کا عملی نتیجہ کیانکلاہے۔ اقوام متحدہ کو وجود پذیر ہوئے اورغربت کے خاتمے کیلئے پروگرام چلاتے ہوئے دہائیاں گزرچکیں لیکن ہرگزرے دن کے ساتھ متوسط طبقہ غریب،غریب مزید غریب اورامیر امیرتراورامیرترین ہوتاجارہاہے۔ دولت چند خاندان اورچند افراد تک سمٹتی جارہی ہے۔ ذرائع ووسائل پر کچھ مخصوص افراد کاقبضہ ہے۔مارکیٹ پر کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری قائم ہورہی ہے۔ بلاشک وشبہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ غربت سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے اوراس کی ہرتدبیر مرض بڑھتاگیاجوں جوں دوا کی کی مثال بن گیا۔
ایک بڑاسوال یہ ہے کہ کیاغربت کو مکمل طورپر ختم کیاجاسکتاہے ۔جواب ہے کہ نہیں ۔ اللہ نے دنیا کانظام ہی ایسارکھاہے اس میں کچھ افراد کو امیر اورکچھ افراد کو غریب بنایاہے۔ کمیونزم نے بہت کوشش کی کہ وہ تمام لوگوں کی یکساں حیثیت کرسکے لیکن وہ اس میں ناکام رہااور80سال کے تجربے کے بعد پوری دنیا پر یہ بات کھل گئی کہ تمام افراد کو بزور طاقت یکساں حیثیت کا نہیں بنایاجاسکتا۔ یہ خدا کی بنائی دنیا ہے کہیں پہاڑ ہیں توکہیں کھائی،کہیں صحرا ہے تو کہیں دریا ۔ویسے ہی انسانوں کی دنیامیں کچھ لوگ مالدار اورکچھ لوگ غریب ہوں گے۔ اس کو بزور بازوختم نہیں کیاجاسکتا۔ معلوم تاریخ سے لے کر آج تک کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ کوئی ایسامعاشرہ ،ایساملک وجود میں نہیں آیا جہاں امیر غریب نہ ہوں۔سب یاتو امیر یاپھر سبھی غریب ہوں۔
سرمایہ دارانہ نظام یاپھرکمیونزم دونوںنے غربت کا حل اورطریقہ کار پیش کیاہے لیکن دونوں میں افراط وتفریط موجود ہے ۔یعنی دونوں دوانتہائوں پر کھڑے ہیں ،درمیان کی اعتدال وتواز ن والی راہ کسی نے اختیار نہیں کی۔ کمیونسٹ ملک نے اگرفرد کی آزادی چھین کر اس کو مکمل طورپر معاشرہ اورسماج کے تابع کردیا توسرمایہ دارانہ نظام میں فرد کی آزادی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ معاشرہ کے اجتماعی مصالح اورفوائد بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔جب کہ اسلام نے دونوں انتہائوں سے بچتے ہوئے درمیان کی راہ اختیار کی ہے اوراس کی تعلیم ہے کہ فرد کی آزادی ضرور اہم ہے لیکن اجتماعی فوائد اورمصالح کے آگے دوسرے لفظوں میں اگرمعاشرہ اورفرد کے مفاد میں ٹکرائو ہوگا تو معاشرہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔
نظام زکوٰ ة:ہروہ شخص جوصاحب نصاب ہے۔ یعنی جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا یااس کی مالیت ضروری اشیاء ،گھراورسواری وغیرہ کے علاوہ ہے تو وہ اپنی سال کی آمدنی کا ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ یعنی اگرکسی کے پاس ایک لاکھ روپے ہیں تو وہ ڈھائی ہزار اللہ کے راستے میں نکالے اورغریبوں ومسکینوں پر خرچ کرے۔ زکوٰة کی رقم کس کس کو دی جاسکتی ہے اوراس کے مستحقین کون ہیں اس کی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔ یہاں تفصیل سے بتانے کا موقعہ نہیں ہے۔
نظام زکوة سے دوبنیادی فائدے حاصل ہوتے ہیں نمبرایک مال گردش میں رہتاہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس ایک کڑور ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ڈھائی لاکھ روپے کی زکوة نکالے ۔اسی طرح مالیت جس قدر بڑھتی جائے گی ۔زکوٰة کی رقم کا تناسب بھی بڑھتاجائے گا۔اس طرح دیکھیں تو مال کی بڑی مقدار سالانہ طورپر گردش میں رہتی ہے۔
دوسرے غریبوں اورمسکینوں کی مدد ہوتی ہے۔ان کی مالی معاونت کرکے ان کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچایاجاتاہے۔ (اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نظام حکومت ختم ہونے سے زکوة کا نظام بری طرح متاثر ہواہے یعنی ایک مرکزی بیت المال کے تحت زکوٰة کی رقم لی جائے اورپھر منظم طورپر غریبوں کو دیاجائے۔
نظام خیرات:اسلام نے زکوٰة کو لازمی کرنے کے علاوہ اس کی تاکید کی ہے کہ ہرمسلمان اپنی آمدنی میں سے کچھ رقم غریبوں اورمسکینوں کو دے، ان کی حاجت روائی کرے، ان کی ضرورت میں کام آئے، اگران کے پاس کپڑے نہیں ہیں توان کو کپڑے دے ،اگران کے پاس کھانانہیں ہے توان کو کھانادے اورمدد کی سب سے بہترشکل یہ ہے کہ ان کو اپنے پائوں پر کھڑاکیاجائے یاتوانہیں قلیل مدت میں ایساہنرسکھادیاجائے جس کی وجہ سے وہ برسرروزگار ہوسکیں یاپھرانہیں کم ازکم اتنی رقم دے دی جائے جس کی وجہ وہ اپناکاروبار چھوٹے پیمانہ پر شروع ہوسکرسکیں۔
سب سے بڑاطریقہ کار یہ ہے کہ ایسے افراد جو بے روزگار ہیں لیکن تعلیم یافتہ ہیں اورکچھ کرنے کاجذبہ رکھتے ہیں توانکوایس افراد جن کے پاس سرمایہ ہیں لیکن کاروبار کیلئے وقت نہیں یاپھر اس کا تجربہ نہیں وہ ان تعلیم یافتہ بے روزگارافراد کو نفع میں شریک بناکر معاشرہ کا ایک بڑامسئلہ حل کرسکتے ہیںاسلام میں اس کومضاربت کے نام سے جاناجاتاہے یعنی ایک جانب سے محنت اوردوسری جانب سے سرمایہ ہو۔
نظام میراث:ایسانہ صرف ممکن ہے بلکہ تجربہ ومشاہدہ ہے کہ اگرکسی ایک شخص کو تجارت میں کامیابی ملتی ہے تورفتہ رفتہ اسی خاندان میں دولت کے انبار لگ جاتے ہیں۔اس کے مرنے کے بعد اس کی دولت محضبیٹوں تک محدود کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے دولت پر کچھ افراد کا ہی قبضہ برقراررہتاہے۔ اسلام نے اس تصور کونظام میراث کے ذریعہ ختم کیاہے ۔اسلام نے میراث کاپورانظام قائم کیاکہ اگرکسی فردکاانتقال ہوتاہے تواس کے اولین وارث کون کون ہوں گے۔ ان کی غیرموجودگی میں بقیہ کون کون وارث ہوں گے۔ واضح رہے کہ اسلام نے شوہر وبیوی کو بھی میراث میں حق دار بنایاہے۔ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دیاہے۔ مرنے والے کے ماں باپ کو بھی حصہ دیاہے اورمرنے والے کو اختیار دیاہے کہ وہ اگرچاہے تو کسی کے حق میں تہائی مال کی وصیت کرسکتاہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام میراث بے توجہی کا شکار ہے۔ دیندار گھرانے بھی اس سے غفلت برتتے ہیں۔جس کی وجہ سے دولت کی گردش نہیں ہوپاتی اوردولت کچھ افراد تک سمٹ کررہ جاتی ہے۔خاص طورپر بیٹیوں کے ساتھ اس معاملے میں زیادتی کی جاتی ہے
اس کے علاوہ اسلام نے دولت کی گردش کو رواں دوراں رکھنے اورمعاشرہ کے کمزور طبقہ کی مالی امداکیلئے اوقاف کا نظام قائم کیاہے۔اس کی بنیادی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی جائداد کو کارخیر کیلئے وقف کردیتاہے ۔مثلاایک شخص اپنی زمین وقف کردیتاہے ۔اب اس زمین میں گھر بناکر یادکان بناکر اس کو کرایہ پر دے کر آمدنی کومسلمانوں کے حق میں استعمال کیاجاسکتاہے۔ یاایک شخص نے کوئی دینی درسگاہ بنادیاکسی نے مسجد بنادی ۔کسی نے کچھ اور۔وقف کیلئے ضروری ہے کہ وقف کی آمدنی کو واقف کے منشاء کے مطابق ہی صرف کیاجائے۔
ایڈیٹر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں