400

سورۃ البقرہ کی آیت150کی تفسیر


’’اور جہاں سے بھی آپ (مسجد ِ حرام ) سے نکلیں تو کرلیں اپنا چہرہ مسجد ِ حرام کی جانب اور تم سب بھی جہاں ہوپھیر لو اپنے چہروں کو اُسی کی طرف تاکہ لوگ تم پر خواہ مخواہ اعتراض نہ کریں سوائے ان کے جو اندھیروں میں گر گئے ہوں ، اُن سے تو تم ڈروہی نہ اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو تا کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تم بھی راہ ِ ہدایت پر ثابت قدم رہو ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں دس نکات کا جاننا ضروری ہے :
پہلا نکتہ
آیت میںمفہومات اور کلمات کا تکرار کمال معنویت کی طرف اشارہ کر رہا ہے :
1۔ جمالیاتی لذوذ رکھنے والے جملے دہرائے جاتے ہیں اس لئے کہ یہ قوالی کی طرف محبت کی رگیں کھولنے والے ہوتے ہیں۔ جیسے فرحت بخش مشروب گھونٹ گھونٹ پیا جاتا ہے تاکہ لذتیں بدن میں برودت اور سکون بکھیر رہیں ۔
2۔تکرار کسی چیز کو یاد کرنے اور یاد رکھنے میں مدد دیتا ہے ۔
3۔ ایک جملے پر تکراری توقف اگلی بات کو سمجھنے کے لئے آمادہ کردیتا ہے۔
4۔ بعض اوقات کوئی شخص کسی چیز کا مانتا نہیں تو متکلم اپنی بات کو راسخ اور پکا کرنے کے لئے دہرادیتا ہے۔
5۔ جمالیاتی کشش اور جاذبیت کے لئے تکرار ذوق ، چاہت او ر عمل کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے ایسا ضروری ہوتا ہے ۔ آپ کے پاس سرخ ، سبز ، سفید ، نیلے اور پیلے پھولوں کے دستے پڑے ہوں تو آپ سب سے خوشنما پھولوں کو رکھتے ہوئے قطاروں میں تکرار کریں گے ۔ پہلے سرخ پھر نیلے اور پیلے اس کے بعد پھر سرخ سمجھ لگی کہ سرخ رنگ میں تکرار اچھا سا لگتا ہے جیسے آپ سورئہ رحمان میں محسوس کریں گے ۔
6۔احکام میں تاکید پیدا کرنے کے لئے بات کو مکرر لایا جاتا ہے ۔
7۔کسی کام کے فوائد اور حکمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے حکمتوں کو بیان کرنے کے لئے حکم بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے انگور خوش رنگ ہوتے ہیں، انگور خوش ذائقہ ہوتے ہیں ، انگور بدن سے کئی بیماریاں دور کر دیتے ہیں ، انگور دماغ کو سوچنے کی صلاحیت دیتا ہے اور انگور شفاء دینے میں ماں کے دودھ کی طرح ہوتا ہے۔ یہاں انگور انگور کا تکرار اس کے فوائد کو مصرح کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
8۔اختلاف کا شور و ہنگامہ ہو تو بات دہرائی جاتی ہے تا کہ لوگ اصل تک آسانی سے پہنچ جائیں ۔
9۔ بات کو دہرانا غبی آدمی کو بیدار کرتا ہے اور ذکی آدمی میں نشوونما کی بہترین صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
10۔ متکلم کے مخاطب زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ابلاغ کا تقاضا ہوتا ہے کہ بات دہرائی جائے ۔
11۔ بعض اوقات اعتراض اور تنقید کی کالک میں آلودہ لوگ ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے نہ نہ نہ کر رہے ہوتے ہیں اور متکلم ان کے نطق پرگرہ بند اعتراض کے پندار کو توڑنا چاہتا ہے اس لئے وہ بات دہرادیتا ہے ۔
12۔ ایسے بھی ہوتاہے کہ کلام میں ایجاز اور ابلاغ اور ترادف اور تراکم اور تخالف اورتصادم کی کیفیات ایک بار کہنے لکھنے سے واضح نہیں ہوتیں تو بات مکر ر لائی جاتی ہے۔
13۔ عقل اور محبت کے تقاضے کو الگ الگ قاری کے سامنے لانے کے لئے بات کو مکرر رنگوں میں بیان کیا جاتا ہے ۔
14۔ بعض اوقات بات وہی ہے لیکن ایک جملے میں حروف کم ہوتے ہیں اور دوسرے جملے میں حروف زیادہ ہوتے ہیں۔ قاری کم اور زیادہ دیکھتا ہے تو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہاں وہ غور و فکر کرے ایسے ہی نہ گزر جائے ۔
15۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک قاری اور سامع خطر ناک کنویں کے کنارے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا کسی باغ میں گل چینی کر رہا ہے ، دونوں کے ماحول کو دیکھ کر بات کو دہرایا جاتا ہے تاکہ ہر شخص اپنے ماحول کے مطابق غور کرے۔
16۔ ہدایت کے ازدیاد کے لئے بھی تکرار مفید اور مانع ہوتا ہے ۔ ایک پیالی جائے کا مزا اپنا ہے اور دو پینے کا لطف اپنا ہے ۔
17۔ یہ جملہ شاید اچھا نہ ہو محبوب کو دیکھ کر ویسے ہی نغمے ، گیت بڑھ جاتے ہیں ۔ قرآن مجید میں بھی کوئی کسی کو دیکھتا ہو گا ۔
دوسرا نکتہ :
آیت کی تفسیر میں تحویل قبلہ کی حکمتیں اور فوائد ، فلسفہ اور ضرورت کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ ذہن کی ہر گرہ کھل جائے اور دل کی طرف جانے والا ہر راستہ صاف ہو جائے ۔
تیسرا نکتہ :
اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں کے پاس حجت اور دلیل آ گئی اور اطمینان ذہنی اور قلبی روحانی تحفہ بن گیا اور مسلمان اس قابل ہو گئے کہ وہ یہودیوں کو دندان شکن جواب دے سکیں۔
چوتھا نکتہ
اہل کتاب کا غیر منطقی مئو قف قرآن مجید نے کھول کر بیان کر دیا اور ہر طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ یہودی اور عیسائی ہٹ دھرم لوگ ہیں اور ان کے ہر شورو شغب کے پیچھے ان کی نامعقولیت پوشیدہ ہوتی ہے۔
پانچواں نکتہ :
بار بار مسلمانوں کومسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس حکم اور بیان کے بعد ذرّہ برار شک نہ رہا کہ اب قبلہ کعبہ ہے، کوئی حضر میں ہو یا سفر میں نمازوں میں منہ کعبہ ہی کی طرف کرے۔
چھٹا نکتہ:
آیت کی تفسیر میں یہ جان لینا ہے کہ حجت کیا ہوتی ہے اور اس کی تعریف کیا ہے ؟اس لفظ کا اساسی معنی دلیل ہوتاہے ؟تاج نے لکھا (75)کہ کسی کو روک دینا بھی حجت کے مفہوم میں شامل ہوتا ہے ۔دلیل چونکہ دوسرے کو روک دیتی ہے اور بات کو اتنا واضح اور واضح کر دیتی ہے کہ کوئی دوسری بات قابل تسلیم نہیں رہتی ۔ ’’المحاجہ ‘‘ جھگڑا کرنے کوکہتے ہیں ۔’’بینہ ‘‘ ایسی دلیل کو کہتے ہیں جس سے بات کا ہرپہلو خوب واضح ہو جائے اور حجت اس دلیل کو کہتے ہیں جو مخالف پر ہر طرح چھا جائے اور اس سے مئوقف کو تسلیم کروالے ۔ یوں ہی مخالف سے بات منوا لینے کا قصد اور ارادہ کر لینا بھی حجت ہوتا ہے۔قرآن مجید نے ’’الحجتہ البالغۃ ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے (76)۔ معنی مخالف کی روح، ذہن اور دل تک پہنچ جانے والا مئو قف حجت ہوتا ہے۔
ساتواں نکتہ :
’’ الا الذین ظلمو ا ‘‘سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ظلم کیا ‘‘۔ اس جملہ سے مراد وہ تمام حیلہ گر اور بہانہ ساز لوگ مراد ہیں جو ظلم و ستم کر کے دین کے راہ میں رکاوٹ بنتے ، مفاہیم کو بدل دیتے ۔ اعتراضات سے دعوت اسلام کی روشنی مدھم کرنے کی کوشش کرتے ۔
آٹھواں نکتہ :
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت میں یہ کہا گیا تاکہ ظالم مسلمانوں کے خلاف حجت نہ قائم کر سکیں۔ کفار کی گندی باتوں کو حجت سے کیوں تعبیر کیا گیا ۔علامہ اسماعیل حقی نے لکھا (77)کہ گندے اقوال کو حجت سے تعبیر کرنا مجازا ہے اس لئے کہ وہ لوگ بھی اپنی باتوں کو قومی سمجھ کر پیش کر دیتے ہیں۔قرآن مجید نے ازروئے ہمددری ان کی ہدایت کے لئے ان کی بات کو لائق اعتنا سمجھ کر جواب دیا ہے ۔
نواں نکتہ :
’’ ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو ‘‘یہ اسلامی تربیت کا ایک قوی اور محکم قانون ہے کہ اللہ کے سوا کسی چیز ، شخص ، تنظیم اور سازش سے نہ ڈرا جائے ۔خشیت صرف اللہ کی ہونی چا ہئے ، خشونت پسند ظالموں سے ڈرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔انسان کی روح اور ذہن پر اگر مکمل حکمرانی اللہ ہی کی قائم ہو جائے تو کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ۔ہر چیز پر قدرت اللہ ہی کی قائم ہے۔
دسواں نکتہ :
اتمام نعمت سے مراد کیا ہے ؟حدیث میں اتمام نعمت سے مراد خول جنت ہے۔حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم نے فرمایا ۔اتمام نعمت اسلام پر موت ہے ۔ آیت کے سیاق و سباق سے کہا جا سکتا ہے ۔احکام کی تکمیل ، ایمان کا استحکام ، قبلہ کی تبدیلی ، قرآن کا نزول ، کعبہ کی طرف منہ کرنا اور دخول جنت سب اتمام نعمت ہی کی صورتیں ہیں (78)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں