299

ہائی رسک ممالک کی لسٹ اور پاکستان

برطانیہ نے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی لسٹ میں شامل کر دیا ہے یہ 21ممالک کی وہ لسٹ ہے جنہیں منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی سے متعلق فنانسنگ کوکنٹرول کرنے میں کمی کی وجہ سے خطرہ سمجھا گیا ہے ، یقینا پاکستان کیلئے یہ اچھی خبر نہیں ہے بلکہ ارباب بست وکشاد کیلئے لمحہء فکریہ ہے ۔ اس قسم کی لسٹ بنانے کا فیصلہ قبل ازیں یورپی یونین نے کیا تھا لیکن بریگزٹ کے بعد برطانیہ نے ابتدائی طور پر فنانسنگ ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ یا بلیک لسٹ پر مبنی ممالک کی ایک اپنی لسٹ تیار کی ہے جن میں البانیہ ، بار بارڈوش ، بوٹسوانا ، برکینا فاسو، کمبوڈیا، کیمین جزائر ، شمالی کوریا ، گھانا، ایران ، جمیکا،ماریشس، میانمار ، مراکش، نکارا گوا ، پاناما، سینگال ، شام ، یوگنڈا ، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔
پاکستان کے مذکورہ لسٹ میں آ جانے کا مطلب ہے کہ اگر اس کے بعد بیرونی دنیا کا کوئی شخص یا گروپ پاکستان میں کاروبار کرنا چاہے گا تو اسے برطانیہ کے متعلقہ اداروں سے رجوع کرنا اور انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنے اس ادارے پر غورکرنا ہو گا اور کسی قسم کے لین دین کے ضمن میں اگر وہ برطانوی شہری ہے تو حکومت کی اس سلسلہ میں طے کی گئی گائیڈ لائن کو فالو کرنا ہو گا ۔ برطانوی حکومت نے اس تازہ ترین قانون سازی کے پیچھے اپنی بنیادی پالیسی کا مطلب و مقصد بتاتے ہوئے ایک وضاحتی نوٹ بیان کیا ہے کہ ہم منی لائنڈرنگ اور دہشت گردوں کو رقوم کی فراہمی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ریگولیٹڈ سیکٹر کو اس کی ضرورت ہے اور اشد ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس پر معیار کے مطابق مستعدی سے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، تاکہ منی لانڈرنگ کی روک تھام توہو ہی اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کا راستہ بھی روکا جا سکے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب مختلف طریقوں سے انہیں فنڈز کی فراہمی روکی جا سکے ، گو کہ پاکستان کی حکومت برطانیہ کے اس فیصلے سے ناخوش ہے اور اگلے روز دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا ہے کہ انہیں اُمید ہے کہ برطانیہ حقائق کی روشنی میں اپنے قوائد وضوابط پر نظر ثانی کرے گااور پاکستان کے بارے میں سیاسی محرکات پر لئے گئے اقدامات کو واپس لے گا۔
دوسری طرف 2018ء سے پاکستان ’’ ایف اے ٹی ایف ‘‘ کی گرے لسٹ میں ہے اور اس اتھارٹی نے صاف طورپر کہا ہے کہ پاکستان نے ہمارے طرف سے دیئے گئے 27نکات میں سے 24نکات پر نمایاں پیشتر فت کی ہے اور باقی تین نکات پر عمل درآمد کیلئے پاکستان کو تین ماہ کی مہلت بھی دی گئی ہے اور پاکستان آئندہ دو مہینوں یعنی جون تک مذکورہ باقی ماندہ نکات پر مکمل طورپر عمل در آمد میں کامیاب ہونے کے قریب تر ہے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی یہ بات قدرے درست بھی ہے کیونکہ ابھی حال ہی میں میڈیا پر اشتہارات کی صورت جاری کردہ ایک لسٹ کے مطابق پاکستان نے تقریباً 85کے قریب ایسی جماعتوں اور گروہوں پر پابندی لگا رکھی ہے جس پر انتہا پسندی یا دہشت گردی کا شبہ ہے اور اس سلسلہ میں مناسب تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی بھی کر رہا ہے ۔ پاکستان نے گو کہ فوری طور پر برطانیہ کو جواب بھی دیا اور احتجاج بھی کیا ہے کہ برطانیہ زمینی حقائق کی روشنی میں اپنے فیصلے اور قوائد وضوابط کا جائزہ لے اور غلط اقدامات سے باز رہے ۔ دفتر خارجہ نے برطانیہ سے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو تھری زیڈ اے یعنی ہائی رسک ممالک کی لسٹ سے نکالا جائے ۔ پاکستان نے تفصیل سے بتایا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے انسداد کے سلسلہ میں قانون سازی اور ادارہ جاتی انتظامی اقدامات کے ذریعے بے مثال اقدامات کئے ہیں، چنانچہ پاکستان کے ان اقدامات کو ’’ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ‘‘ اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ مشترکہ عالمی برادری نے بڑے پیمانے پر سراہا ہے اور یہ پاکستان کے عزم کا واضح ثبوت بھی ہے ۔
پاکستان کی طرف سے ان تمام سنجیدہ کوششوں کے بعد چند روز پہلے ملک کے طول و عرض میں ایک مذہبی تنظیم کی طرف سے پیش آنے والے واقعات کو برطانیہ سمیت دنیا بھر میں تشویش کی نظر سے دیکھا گیا ہے اگر چہ حکومت نے اس تنظیم کو کالعدم قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی لیکن ا س کے باوجود حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آئی اور پورے ملک میں سڑکیں بند اور پُرتشدد واقعات ہوئے۔ حکومت نے اس وقت اپنی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیاجب دو روز پہلے جس تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا انہی سے حکومت نے مشروط مذاکرات بھی کئے اور ان کے بنیادی نکات مان بھی لئے ، لہٰذا حکومت کے اس عمل سے ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ میں پاکستان کا کیس کمزور ہوا اور برطانیہ کے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی لسٹ میں ڈالنے کے فیصلہ کو مزید تقویت ملی ۔ حکومت نے صرف اس ایک تنظیم کے سامنے بے بسی ظاہر کر کے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ہم ایک گروہ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو دہشت گردی کی روک تھام اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں کہاں تک اورکیسے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟اُدھر برطانیہ کی طرف سے مذکورہ اقدام سے جہاں ’’ ایف اے ٹی ایف‘‘ میں پاکستان کا وجود یا کم از کم اس کا گرے لسٹ میں رہنا خطرے میں پڑ گیا بلکہ بریگزٹ کے بعد پاک برطانیہ بڑے پیمانے پر ٹریڈ ڈیل بھی کھٹائی میں پڑ چکی ہے اور مد نظر یہ بھی رکھنا جانا چاہیے کہ اس قسم کے حالات میں دنیا بھر کے انویسٹر بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچائیں گے۔ ایسے نامساعد حالات میں حکومت پاکستان کیلئے از حد ضروری ہے کہ وہ ملک کے اندر کی غیر ضروری ’’مہمات ‘‘ سے درگذر کرتے ہوئے خارجی معاملات پر بھرپور اور سنجیدہ توجہ دے کر عالمی سطح پر اپنا اعتماد بحال کرے اور اس منفی پراپیگنڈے کے قلع قمع کیلئے بھی بھرپور کوشش کرے ۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں موجود اپنے سفارت خانوں کیلئے بھی گائیڈ لائن جاری کر ے تاکہ وہ پاکستان کا درست امیج دنیا کے سامنے رکھ کر اپنی اصل ڈیوٹی نبھائیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں