529

سورۃ البقرہ کی آیت 151کی تفسیر


’’جیسا کہ تم پر انعام کیا کہ بھیجا ہم نے تم میں تم ہی سے ایک عظیم رسول پڑھ پڑھ سناتا تمہیں ہماری آیتیں اور پاک کرتا ہے تمہیں اور تعلیم دیتا ہے تمہیں کتاب کی اور حکمت کی اور سکھاتا ہے تمہیں وہ وہ باتیں جنہیں تم جانتے تک نہ تھے ‘‘۔
گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو مکمل کرنے کی بات کی تھی، اتمام نعمت کا عنوان مخلوق کی ہدایت اور قبلہ کی تبدیلی قرار دی تھی۔ یہ آیت ’’ کما ارسلنا ‘‘ سے شروع ہو رہی ہے ۔ یہاں کاف تشبیہ کا ہے۔ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ اس میں مفسرین کے دو اقوال ہیں: ارباب معافی کا پہلا قول یہ ہے کہ ’’ کما ‘‘ کا تعلق کلام ماقبل سے ہے ، اس صورت میں مفہوم یہ ہو گا جیسے اس نے تمہیں قبلہ کی تبدیلی سے نعمت اور ہدایت سے مالا مال کیا ہے۔تمہیں دنیا میں شرف و عزت سے نوازا ہے یونہی وہ تمہیں نعمت رسالت دے کر سرفراز فرما رہا ہے۔تمہارے رسول تمہیں میں سے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں وہ اپنی نوع بشر کی تکایف ، ضروریات اور مسائل سے آگاہ ہیں۔ یہ سب باتیں کہ جیسے اولاد ابراہیم میں ایک تابع اُمت رکھی ۔ دعائے ابراہیم میں نعمت شریعت کے اتمام کی طرف اشارہ ہوا (79)۔
دوسرا قول مجاہد، کلبی ، مقاتل اور عطا کا ہے جسے البحر المحیط میں ابوحیان اندلسی نے نقل کیا وہ فرماتے ہیں کہ اس ’’ کما ‘‘ کا تعلق ’’فا ذ کرونی اذکرکم ‘‘ سے ہے کہ جیسے ہم نے تم پر بعثت رسالت کے ساتھ نعمتوں کا اہتمام فرمایا ہے ایسی ہی ایک نعمت اللہ کے ذکر کی بھی ہے لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ کاشکر ادا کرو تا کہ یہ نعمتیں اور زیادہ ہوں (80)۔
جاحظ کی رسالۃ النبوۃ
’’کما ار سلنا ‘‘ سے میں چاہوں گا کہ قرآن مجید کے طرز استدلال کے حوالے سے تھوڑی سی بات کر لوں ۔ جا حظ رسالۃ النبوۃ میں حجیت کو دو طریقوں میں محصور کردیتا ہے: ایک قابل مشاہدہ حجت اور دوسری محکم خبر، خیال ہے جا حظ نے حجت اور استدلال کو عقلی شعور پر موقوف کر دیا ہے جو لازمی طور پر مناظرہ اور محاجہ کے ساتھ اپنی فکری تاروں کو جوڑ دینا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جبکہ جمالیاتی اور مشاہداتی یک صوتی، فکری اور بصری نظام ہے جس میں ہدایت کو دلوں اور روحوں سے متقارب کردیا جاتا ہے (81)۔
آیت کریمہ جس کی تعبیر اور تفسیر میں ذہن او ر روح مصروف اور مشغول ہیں کچھ الفاظ پر سمع اور بصر کو مرکوز کر دیا جاتا ہے۔ الفاظ کی برجستگی اور باطنی دعوت کو ترتیب سے لکھا جاتا ہے:
کما ارسلنا ۔۔۔ فیکم
رسولا ۔۔۔ منکم
یتلوا ۔۔۔ علیکم
ا ٰیتنا و ۔۔۔ یز کیکم
۔۔۔۔ ۔ویعلمکم
الکتب و ا لحکمۃ ۔۔۔۔
۔۔۔۔ ویعلمکم
مالم تکونو۔۔۔ تعلمون
’’ فیکم ،منکم ، علیکم ‘‘ کے بعد ہر فعل پر ’’ کم ‘‘ کا دخول ایک فرد و سی لذت روحوں ، ذہنوں اور دلوں میں گھول دیتا ہے۔ یہ وہ سادہ دلچسپ اور روحانی اسلوب اور استدلال ہے جو معاشرتی مسائل کو چھو لیتا ہے۔
مضامین کی کتنی لطیف اور حسین تنظیم ہے سبحان اللہ :
تمہارے اندر آنا
تم میں سے ہونا
تم پر پڑھنا
تم کو صاف ستھرا کرنا
تم کو سکھانا
اور
تم کو وہ کچھ سکھا نا جو تم نہیں جانتے
علامہ فخر الدین رازی نے اچھا لکھا (82) کہ ’’ کما ‘‘ میں ’’مّا ‘‘مصدر یہ ہے جو معنیٰ دیتا ہے کہ تم میں رسول بھیجے ، اشارہ اس طرف ہے کہ ایسی بات نہیں کہ ’’ میں میانوالی تے ڈھول ملتان وے ‘‘ رسول کا رشتہ تمہیں اپنے ساتھ باندھے ہوئے ہے ۔ معاشرت کے باطن میں رسولی دعوت اتری ہے اور رسول معظم کے مبارک پائوں گویا تمہارے صحن میں ہیں ۔ ’’ فیکم ‘‘ اور’’ منکم ‘‘ میں بلاغت کے سمندر میں مجذوب ساز لہریں اٹھا دینے والا اسلوب ہے اور پھر اس پر مستزاد ’’ علیکم ‘‘ کہنا ہے۔ رازی نے ’’مّا ‘‘ کے کافہ ہونے کا قول بھی کیا ہے۔ ’’ فیکم ‘‘ اور ’’منکم ‘‘ کا استدلال قیادت کے آسانی کے ساتھ قبول کرنے کی طرف اشارے ہیں۔
پیغمبر آیات تلاوت کرتے ہیں
تلاوت کا مادہ اشتقاق ’’ ت،لاور وائو ‘‘ ہے۔ اس کا لغوی معنٰی پیچھے پیچھے چلنا ہوتا ہے۔ ’’ تلو ‘‘ کا معنیٰ وہ چیز ہوتی ہے جو پیچھے پیچھے آئے۔ ’’ التوالی ‘‘ اور’’ التالیات ‘‘پچھلے حصوں کو کہتے ہیں۔ راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ ا س لفظ کا معنیٰ ایسی متابعت کا ہے جو کبھی جسمانی طور پر ہوتی ہے اور کبھی معنوی انداز میں ہوتی ہے (83)۔ تلاوت کا معنیٰ احکام کو اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کرنا ہوتا ہے وگرنہ صرف پڑھ تو کوئی شخص بھی سکتا ہے ۔ آیات کی معنویت عمل و تحریک میں اُجاگر کرنا تلاوت ہوتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تلاوت میں روحانی حیرتوں ، کرامتوں ، معجزات کا دخل بھی ہوتا ہے ۔ تلاوت میں پے در پے لانے کا مفہوم بھی ائمہ لغت نے شامل رکھا ہے۔ مفسرین نے لکھا عمارتیں جب کسی صحیح اور درست نظام کے تحت مسلسل تعمیر ہو رہی ہوں تو وہاں بھی تلاوت کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ’’ یتلو ‘‘ کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ؐ ایک محکم نظام کی دعوت سے قرآنی آیات کی تلاوت فرماتے ہیں۔ اسی تلاوت کا اثر ہوتا ہے کہ لوگ آیات کو قبول کرتے ہیں اور دلوں میں رسولی اطاعت کے لئے مئو ثر جذبہ پیدا کرلیتے ہیں (84)۔
تزکیہ ایک نظام ہے
پیغمبر ؐ کا کام تزکیہ کرنا بھی قرآن حکیم نے بیان کیا ۔ یہ اصطلاح انتہائی بلیغ اور معنیٰ خیز اصطلاح ہے۔ تزکیہ کا مطلب صرف صاف ستھرا کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ نفس انسانی سے لے کر معاشرہ تک ہر چیز کو نشوونما کی زینت سے آراستہ کرنا ہوتا ہے ۔ آیت کے تعبیری آئینہ میں مقام نبوت کی بھی تصویر دیکھنا ممکن ہو رہا ہے۔
رسول رحمت ؐ تمہارے اذہان کو صاف ستھرا کرتے ہیں ، تمہارے نفوس کو دھوتے ہیں، تمہاری باطنی اہلیت میں اپنے اعجاز نگاہ سے اضافہ کرتے ہیں، تمہاری فکری اور نظری امامت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، تمہاری زندگی میں عملیت کا فیض جاری فرماتے ہیں، تمہیں مادہ کا استعمال روحانی منہاج پر کرنے کے اصول دیتے ہیں ، تمہاری عقل کی پرورش کرتے ہیں ، تمہارے اجسام کو مقامات ضر ر سے بچاتے ہیں، تمہاری اجتماعی زندگی کے ہر حسن کو وہ ضمانت دیتے ہیں اور نفسیانی ، عمرانی ، اخلاقی عظمتوں اور فضیلتوں کے حصول کے لئے تمہیں صراط مستقیم پر چلنے کا طریقہ بتاتے ہیں ۔ یہ سب چیزیں تزکیہ میں آتی ہیں۔
تعلیم کتاب
مقاصد نبوت میں تیسری چیز تعلیم کتاب گنی گئی ۔ حلفاً یہ بات کی جا سکتی ہے کہ تکمیل انسانیت کے لئے نفس ، روح اورجسم کا کتاب کی دہلیز پر آنا فریضہء حیات ہے ۔ کتاب پڑھنا ، کتاب پڑھانا، کتاب سیکھنا اور کتاب سکھانا، کتاب کے سمندر میں اترنا اور غوطہ زنی اور شناوری سے علوم اور معارف کے موتی نکالنا واجب ہے اور لازم ہے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ اس کے لئے عقل اور ادراک عشق دونوں کی روشنائی ضروری ہے ۔ زبان اور عملیت کے قلم درکار ہیں اور جمالیاتی الطاف اور روحانی تو دیعات کا کوئی مرقعہ چاہئے ۔ اللہ پیغمبر آخر الزماں ؐ کو معلم کتاب بنا دیا ۔ آپ ؐ نے حراسے کتاب لاکر تحفہ ء لا ہوتی ہی سے قافلہء آدمیت کو نہ نوازا بلکہ نطق نوازش میں نسیم سحر کی سی نرمی ، گلہائے فردوس کی خوشبو اور نور قمر کی الطافت کا آمیزہ دیا اور لوگوں کوقرآن اور کتاب سیکھنے کی دعوت دی اور انسانی قافلوں کو ہلایا ، جگا یا اور فکرِ فردا کی دعوت دی۔ مسرتوں کا راز بتایا اور پتلا خاک کو آسمانی علم کا روشن نشان بنا دیا اور قرآن کی تعلیم کی ایسی حرکت دے دی کہ قرآن کے پہلے تلامذہ حروف کے ساتھ بہتے محسوس ہوئے۔ سچے جذبوں نے انہیں وحی کی آواز کے ساتھ چلنا سکھا دیا ۔ ’’رب زدنی ‘‘ کی تمنا ان کے بوترابی و جودوں میں کچھ اس انداز سے گوندھی کہ ان کی عظمتوں کے پھر یرے سرعرش لہرانے لگ گئے ۔ نوروبصیرت کے ان چراغوں کو آپ صحابہ رضوان اللہ عنیہم اجمعین بھی کہہ سکتے ہیں اور تلمیذ قرآن بھی کہہ سکتے ہیں۔ دونوں ہی قول سچے اور روحانی ہیں۔ زبر الاولین کی کچی قوالی کرنے والے کہنے لگ گئے کہ انسان مٹی ، ہوا ، آگ اور پانی سے تخلیق ہوا۔ یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ مٹی سے سونا تلاش کرنے والے ، ہوا میں طیارے اڑانے والے ، آگ سے شعلہ ایٹم کا راز چرانے والے اور پانی سے یاقوت و مرجان کی ٹوکریاں بھرنے والے ہوا، پانی اورمٹی ، آگ ہی میں غرق ہو گئے لیکن ’’ تلمیذ قرآن اور تلمیذ رسول الرحمان ‘‘نے آگ کے شعلوں میں خالق نیر ان کا کفرو شرک پر غضب پڑھ لیا دیکھ لیا اور اعوذ باللہ کا ورد شروع کر دیا ۔ اس نے مٹی کے تودوں کو زیر وزبر کرکے رسول رحمت کا اعجاز اور قرآن کا معجزہ دیکھتے ہوئے خاک ریاض الجنہ کا سراغ لگا لیا جسے رشک ِ ارض و سما ہونے کا شرف حاصل ہے ۔جی ہاں کتاب کی تعلیم ہی نے ہوائوں میں ’’ فنفخت فیہ من روحی ‘‘ کی تلاش لوگوں کے سینوں میں تڑپادی ، یوں وہ زمین اور آسمان کے درمیان وحی کے نورانی رنگوں کی قوس قزح دیکھنے لگ گئے اور انہوں نے پانیوں کے دیس میں انابت الی اللہ کی ایسی سیاحی کی کہ ساتوں سمندروں کے پانیوں کو درد و محبت کی آہوں کی تپش سے اڑایا اور پھر اپنی آنکھوں کا آنسو بنا لیا ۔ہمارے ادوار و قران اور دانشکدوں اور دانشوروں کو ایک بار ضرور
صداقتوں کے امین ابوبکر
سچائیوں کی تصویر عمر
تلاوتوں کے رتجگوں کے نقیب عثمان
تسبیح و سجادہ اور گرجتی شمشیروں سے کفر کو نابود کر دینے والے ابو تراب ، راز و لایت کے پرچم بردار اور بت شکنی کی تاب دار روایت کے تاجدار علی
تدبر و ایثار کا افق تابندہ حسن المجتبیٰ
آدم سے مصطفی تک تاریخ شہادت کو لوح کربلا پر نقش کر دینے والے حسین گونجتی اذانوں کے ہجوم میں مالی معاملات کے امین بلال
سب سے ایک مرتبہ ضرور پوچھ لیں
آسمان ِ عظمت کے جگمگاتے ستارو!یہ نور کہاں سے لیا
سب کہیں گے تعلیم کتاب اور نگاہ ِ رسالت کا یہ اعجاز ہے۔
تعلیم حکمت
آیت کے افق پر حکمتوں کا سراج منیر طلوع ہوا ہے، غور سے سنو !رب قدوس کی آواز ہے کہ میں نے جسے رسول بنایا ہے، وہ وہی ہے جس کے لئے ابراہیم کی دعا تڑپی تھی ۔ ہاں نوید مسیحا کی لطافت کا راز بھی وہی تھے ۔ انہیں میں نے حکمت سکھانے والا بنا کر مبعوث کیا ۔ حکمت دانش ہے ، دانائی ہے عقلمندی ہے ، زمانہ شناسائی ہے ۔ دانش نہ ہو تو حکومت کی نہیں جا سکتی اور سچ کی حکومت مانی نہیں جا سکتی ۔ حکمت ایمان ہے اور حکمت جلوئہ اسلام ہے ، اس لئے اللہ کے جو پیارے ہوتے ہیں اللہ انہیں حکمت ضرور عطا فرماتا ہے ۔ رسول رحمت کی صحبت میں جو بیٹھا ہے معلم حکمت نے اسے حکمت ضرور سکھائی ۔ اعلان سننا ہو تو سماعت فرمالیں :
’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ‘‘
دانا اور دانشمند جو ہو گا وہ تعظیم اور انکساری کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ضرور ہو گا۔ علی رضی اللہ عنہ اگر حکمت کا فروزاں ستارہ ہیں تو ساتھ ’’ ابو تراب ‘‘ بھی ہیں۔ انسان کی اصل قیمت کارناموں اور مہم جوئیوں میں نہیں علم و عرفان اور عقل و حکمت کی فضیلتوں میں پوشیدہ ہے۔ علم و حکمت کو ڈاکو لوٹ نہیں سکتے اور موت ختم نہیں کر سکتی ۔ حکمت زندگی بھی ہے اور زندگی نواز بھی ، اس لئے کہ یہ سرمایہ نبوت ہونے کی سندر کھتی ہے۔
ایک عربی شاعر نے کتنی اچھی بات کردی تھی :
’’ بے وقوف اور احمق آدمی سے دوستی رکھنا شرابیوں سے بحث کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور کسی دانا ، دانشمند اور رجل حکیم کی صحبت میں بیٹھنا نور کی سواریوں پر بیٹھ کر سوئے مدینہ پہنچنا ہوتا ہے ‘‘۔
یہ قول غالباً لقمان حکیم کا ہے :
’’ دانا ، حکمت مند اور سچا شخص تنہا ہو پھر بھی وہ ایک لاکھ بے وقوف ، اندھے اور بے وقعت لوگوں کے لشکر کوشکست دے سکتا ہے اس لئے طاقت ساری علم ، عمل ، عرفاں اور صدق کی ہے ‘‘ ۔
میں کہہ سکتا ہوں حضور ؐ نے اسی لئے علم کی عین سے علی، عمل کی عین سے عثمان ، عرفان کی عین سے عمر اور صدق کی صد سے صدیق دے دئے ۔ کسی کو بھی محروم نہ چھوڑا ۔ حکمت کی حاسے روشنی کشید کر کے ایک کو حسن بنا دیا اور دوسرے کو حسین بنا دیا ۔
حکمت سیکھنے اور سکھانے سے مادیت کو قید و بند کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور رسول رحمت ؐ کی شاگردی میں آیا جا سکتا ہے ۔
ان پر درودوسلام ہو جائے
اور ان کے آل و اصحاب اُمت سے خوش ہو جائیں۔
ویعلمکم مالم تکو نو اتعلمون
قرآن مجید کا یہ جملہ بڑا حیات آفرین ہے۔ اس کی قدیم تفسیر جو بھی ہو تعبیر کی ایک تازگی اور بہار دلوں کا یقین کا لطف دے رہی ہے ۔ جدید انسان کمند تسخیر جب کسی نئے جہاں اور جدید دنیا پر ڈالتا ہے اور تڑپ کر تسخیر کا کوئی نیا صفحہ پلٹنا چاہتا ہے، قرآن حکیم اسے جھنجھوڑ دیتا ہے ، نبی اور رسول ؐ کی شاگردی میں آئو ۔ باب نبوت پر زانوے تلمذ تہہ کرو وہاں آقائے کرم کو معلم تسلیم کر لو جو بھی نہیں جانتے ، تم جو بھی نہیں جان سکے اور تم جو بھی جاننا چاہتے ہو، اسی درسے تمہیں مل سکے گا ، یقین رکھو کہ جس کو جوملا ہے اسی در سے ملا ہے اور جس کو جوملے گا اسی در سے ملے گا ۔
معلومات انسان کان لگا کرٹیلیو یژن سے بھی حاصل کر سکتا ہے لیکن علم خوبصورت دلوں، خوبصورت ذہنوں اور لطیف روحوں کی خوراک ہے اور دنیا کے جتنے خوبصورت علوم اور خوب سیرت معارف حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ جو خوبصورت دلوں ہی کی عطا ہو سکتے ہیں ۔تلمیذ الکتاب اور تلمیذ الرسول ہونے سے حسن حقیقی کے جلووں کو چھوا جا سکتا ہے ۔
ایک شخص نے ایک ہاتھ پر بنے ہوئے خاکے میں سرخ رنگ بھرا اور اپنے دو شاگردوں سے پوچھا یہ کیسے لگتے ہیں ؟ایک نے کہا جیسے ہاتھ میں خون بھرا ہوا ہے لیکن دوسرے نے کہا نہیں ایسے جیسے کسی نے ہاتھوں میں پھول اُگا دیئے ہیں، تلمیذا لکتاب دوسرا ہی ہو سکتا ہے۔
انسان کوو ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی ایک سمندر ہے اس میں کوئی سمت اور کوئی رخ نہیں، یہ ازل سے ابد تک محیط ہے، اس میں اگر کوئی چاہے کہ علوم ومعارف کے ان دیکھے جزیروں تک رسائی حاصل کرے تو اسے چاہئے سمع، بصر ، دل اور روح سب کچھ معلم و ماکان و یکون کے لئے وقف کر دے ۔ عمود آیت تو یہی ہے ۔ واللہ اعلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں