308

اسرائیل، فلسطین تنازع اوربین الاقوامی قوانین

ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دریائے اردن اور بحیرہِ روم کے درمیان علاقے کا مالک بننے کے لیے یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اسرائیل نے سنہ 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کو کئی مرتبہ کچلنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی وہ ابھی تک جیت نہیں سکا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے میں تقریباً٣٠٠ افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں ۔جب تک یہ تنازع جاری ہے دونوں میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال میں کم از کم ایک بات یقینی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ہر کچھ سال کے بعد ایک سنگین اور پرتشدد بحران پیدا ہو گا۔ گزشتہ تقریباً 15 برس سے اکثر یہ کشیدگی غزہ کو اسرائیل سے تقسیم کرنے والی خاردار تاروں کو پار کر کے غزہ پہنچ جاتی ہے۔ بین الاقوامی قانون ریاستوں کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال کی نگرانی کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں فریقین کے اقدامات کی قانونی حیثیت پر شدید بحث جاری ہے۔ غزہ میں اپنی سابقہ کارروائیوں کی طرح امکان ہے کہ اسرائیل دلیل دے گا کہ اس کی حالیہ کارروائی بھی اپنے دفاع کے تحت جائز ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر 51 کے مطابق اپنے دفاع کا حق بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔ اگرچہ اس اصول کچھ پہلو متنازع ہیں لیکن عالمی سطح پر اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک ریاست مسلح حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہے۔ اس بارے میں کچھ بحث ہے کہ اس مسلح حملے کی شدت کیا ہونی چاہیے کہ جس کے بعد کوئی ریاست قانونی طور پر اپنے دفاع کے حق کا سہارا لے سکے۔ زیادہ تر بین الاقوامی قانون کے وکلا اس بات پر متفق ہوں گے کہ شہریوں پر داغے گئے راکٹ، جو کسی ملک کے کچھ حصے کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم کر دیتے ہیں، آرٹیکل 51 میں مسلح حملے کی تشریح پر پورا اترتے ہیں۔ تاہم حقِ دفاع کے بنیادی حقائق اکثر متنازع رہے ہیں۔ کسی بھی تنازعے میں فریقین اس بات پر کم ہی رضا مندی ظاہر کرتے ہیں کہ حملہ آور کون ہے اور اپنا دفاع کون کر رہا ہے اور اسرائیل اور فلسطین کا تنازع بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سب سے پہلے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اپنے دفاع کا حق کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن غزہ جیسی غیر ریاست کے خلاف نہیں۔ ریاستی عمل، خاص طور پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سے، اپنے دفاع کی اس تشریح سے متصادم ہے لیکن بین الاقوامی عدالت انصاف نے ابھی تک اس سوال کا حل تلاش نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی ایف آر سی) اور دوسرے بہت سے اداروں کا یہ ماننا ہے کہ غزہ اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہے کیونکہ اس علاقے پر اور اس کے آس پاس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ سنہ 2005 میں غزہ سے انخلا کے بعد اس نے اس علاقے پر قبضہ نہیں کیا اور یہ کہ کسی علاقے میں ’وہاں داخل ہوئے بغیر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے دفاع کا حق کوئی آسان کام نہیں۔ بین الاقوامی قانون ریاستوں کو صحیح حالات میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ بھی صرف اس طاقت کے ساتھ جو ضروری اور متناسب ہو۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اپنے دفاع میں توازن کا مطلب آنکھ کے بدلے آنکھ ، راکٹ کے بدلے راکٹ، یا کسی جانی نقصان کی صورت میں جانی نقصان ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے: بین الاقوامی قانون میں بدلے کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی جگہ نہیں۔ کچھ معاملات میں ایک لازمی اور متناسب ردعمل میں اصل حملے میں استعمال ہونے والی فوجی طاقت سے زیادہ طاقت کا استعمال ہو سکتا ہے تاہم کچھ دیگر معاملات میں ایک ملک کم طاقت کے استعمال سے بھی اپنا دفاع کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کا ایک اور حصہ تنازعے کے شروع ہو جانے کے بعد جارحانہ کارروائیوں کے بارے میں بھی ہے جسے مسلح تصادم کا قانون کہا جاتا ہے۔ مسلح تصادم کا قانون صرف ان حالات پر لاگو ہوتا ہے جب بین الاقوامی یا غیر بین الاقوامی مسلح تنازعات کے قواعد کے تحت اس کی درجہ بندی کی جا سکے۔ مسلح تصادم کا قانون ان وجوہات سے قطع نظر لاگو ہوتا ہے جن کی وجہ سے ایک فریق نے طاقت کا سہارا لیا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی ریاست نے مسلح تصادم کے دوران طاقت کا استعمال غیر قانونی حرکتیں کرنے کے لیے کیا ہو۔ مسلح تصادم کے قانون میں جارحانہ کارروائیوں کے مختلف پہلوؤں (شہریوں کا تحفظ، جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک، مقبوضہ علاقے وغیرہ) پر تفصیلی قواعد شامل ہیں۔ یہ تمام قواعد چار اہم اصولوں کے توازن پر منحصر ہیں: انسانیت اور فوجی ضرورت، اور تفریق اور تناسب۔ انسانیت کے اصول کے تحت غیر ضروری تکلیف اور ظلم سے بچنے کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کا ہم پلہ فوجی ضرورت ہے۔ یہ دلیل کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری غیر مؤثر ہے کیونکہ وہ راکٹ حملے روکنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں، ایک لحاظ سے اس تناظر میں طاقت کے استعمال کے کارآمد نہ ہونے کا ثبوت ہو سکتا ہے۔ لیکن فوجی ضرورت کے زاویے سے یہ حملوں سے بچنے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کا جواز بھی بن سکتا ہے۔ یقیناً یہ حقیقت ہے کہ اگر قانون کسی خاص اقدام کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سیاسی، اخلاقی یا سٹریٹجک اعتبار سے بھی درست ہو۔ کسی بھی صورت میں فوجی ضرورت ان اقدامات کے لیے جواز پیش نہیں کرسکتی جو مخصوص اصولوں کے تحت ممنوع ہیں یا اس کا عام طور پر نتیجہ ’تکلیف یا بدلہ لینا ہو۔‘ اقوام متحدہ اگرچہ بیشتر دوسرے عالمی اداروں کی طرح امریکہ اور دوسری سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہے تاہم اس کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کر کے اپنے تیئں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ پاکستان فلسطینیوں پر مظالم رکوانے میں اپنی سی تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کئی ملکوں کے رہنمائوں سے ٹیلیفونک رابطے کئے ہیں جس کیلئے وہ ستائش کے مستحق ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ خیر کی قوتیں بالآخر شرکی طاقتوں پر غالب آئیں گی اور ارض فلسطین کا المیہ جلد ختم ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں