431

سورۃ البقرہ کی آیت152کی تفسیر

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْن
’’تو خوب ذکر کرو میرا، میں بھی تمہیں یاد میں رکھوں گا اور شکر ادا کیا کرو میرا اور کبھی بھی کفر نہ کرنا ‘‘ ((152
اس آیت کی تفسیر میں علامہ بقاعی اور مفتی احمد یارخاں بدایوانی سے پچھلی آیات سے چارا سباب کی بنا پر آیت کو مربوط مانا ہے (85):
پہلا تعلق
اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں بڑی نعمتیں بیان کیں۔ مثلاً تحویل قبلہ ، عظیم الشان رسول کی بعثت اور مسلمانوں کا بہترین اُمت ہونا، اس آیت میں نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
دوسرا تعلق
گزشتہ آیات میں رب تعالیٰ کی وہبی نعمتیں مذکور ہوئیں۔ اب اس آیت میں وہ امور بیان ہوئے جن کا تعلق کسب سے ہے۔ دراصل تحریص عملیت کی ہے اور رغبت ذکر و فکر کی طرف مبذول کروائی گئی ہے۔
تیسرا تعلق
اب تک نعمتوں کی عطا کا ذکر تھا اب نعمتوں کی بقا کے اسباب بیان کئے جا رہے ہیں۔
چوتھا تعلق
گزشتہ آیت میں علم کا ذکر تھا اب اس آیت میں اس عمل کا حکم دیا گیا جس سے روحانیت مستحکم ہو سکتی ہے۔
ایک خاص بات
اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تم پر نعمت کو مکمل کر رہا ہوں۔ ایک خاص رسول تمہارے پاس تشریف لا رہے ہیں وہ آیات تلاوت کریں گے ، تمہارا تزکیہ کریںگے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں گے ۔ اب اگر تم یکسوئی کے ساتھ میرے ذکر میں لگ جائو اور شکر گزاری اور سپاس گزاری کو شعار بنا لو تو میں ان نعمتوں کی تکمیل مزید عطائوں کے ساتھ کروں گا، یعنی تمہاری فضیلتیں اور زیادہ منشر کروں گا ، گلی گلی تمہارے تذکرے ہوں گے اور سو بہ سو تمہارا چرچا ہو گا، اُمت مصطفوی کی دھوم سارے جگ میں مچ جاگے گی۔
یہ قرآن ہے ادبی لٹخارا اور چٹخارا نہیں ، جان لو جو قرآن میں وارد ہوتا ہے وہ آفتاب کی روشنی سے بھی بڑا سچ ہوتا ہے۔
کثرت سے اللہ کا ذکر
قرآن مجید کی یہ آیت کس قدر اطمینان فروغ ہے (86):
اَلاَ بِذِکُرِ اللّٰہِ تَطْمَٔئنُّ الُقُلُوْبُ
’’خبردار اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے ‘‘۔
مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایمان افروز اسلوب میں فرمایا (87):
وَالذّٰکِرِیئنَ اللّٰہ کَثِئیرً اوَّلذّٰکِرٰتِ
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ۔‘‘
ایک مقام پر ارشاد فرمایا (88):
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااذُکُرُواللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرً اوَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً
’’اے ایمان لانے والو ! بہت زیادہ کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو اور ہر صبح اور ہر شام اس کی تسبیح کرو ـ‘‘
پھر فرمایا (89):
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ِاذَالَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْاوَاذْکُرُوااللّٰہ کَثِیْرًا
’’ اے ایمان لانے والو !تمہارے اموال اور اولادیں تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں ‘‘۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا (90):
’’ اے ایمان والو: جب تم کسی فوج سے مقابلہ کے لئے نکلو تو جم کر جہاد کرو اور اللہ کی یاد کثرت سے کرو ‘‘۔
ایک مرتبہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا (91):
’’ مفردون آگے بڑھ گئے
لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ مفردون کون لوگ ہیں؟
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :
مرد اور عورتیں جو کثرت سے اللہ کو یاد کریں ‘‘۔
ایک صحیح حدیث میں یوں آیا ہے (92):
؁ٍؐایک شخص حرم رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا سیدی یا رسول اللہ ؐ اسلام کے احکام بکثرت ہیں لیکن مجھے بڑھاپے نے محاصرے میں لے لیا ہے ، مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیں جس پر میں جم جائوں ، فرمایا :
’’ بس تمہاری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔‘‘
فَاذْکُرُونِئیٓ پر فَا
مفسرین نے لکھا ہے کہ’’ فَاذْکُرُونِئی ‘‘پر ’’فا‘‘ تفریعی ہے۔ یہ حرف سابق کلام کے نتیجے کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اشارہ اس طرف ہے کہ جب اللہ نے اُمت مرحومہ کو اُمت وسط کو اعزاز دے دیا ہے تو اسے اپنے منصبی فرائض سے عہدہ بر آ ہونا چاہئے اور کثرت کے ساتھ میرا ذکر نا چاہئے اور میری نعمتوں کا شکر ادا کرنا چائیے۔
دو کوٹھڑیاں
رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا (93):
’’ ہر آدمی کے دل میں دو کوٹھڑیاں ہیں: ایک میں فرشتہ رہتا ہے اور دوسرے میں شیطان ، جب آدمی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان دور بھاگ جاتا ہے اور جب وہ شخص اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اپنی تھوتھنی اس کے دل میں گھسا دیتا ہے اور اسے بہکاتا ہے ‘‘۔
آیت میں دوسرا حکم
قرآن مجید کی آیت میں دوسرا حکم اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہے۔ عائض القرنی نے بڑا خوب صورت مقالہ لکھا ہے۔ آپ خامہ فرسائی کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (94):
’’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو گن نہ پائو گے ‘‘۔
جسمانی صحت ، امن و سکون ، کھانا پینا، پوری دنیا آپ کے پاس ہے اور آپ کو احساس بھی نہیں زندگی کے مالک ہیں لیکن آپ کا شعور اس حقیقت سے غافل ہے۔ اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر انڈیل دی ہیں۔ آپ کے پاس آنکھیں ہیں، دو ہونٹ ہیں، دو ہاتھ او ر دو پیر ہیں۔ کیا یہ آسان بات ہے کہ آپ پائوں پر چل پھر رہے ہیں جب کہ کتنے ہی پائوں کاٹ دئے گئے ہیں۔ آپ پنڈلی کے بل کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ کتنی ہی پنڈلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کیا آپ کے لئے آسان ہو گا کہ احد پہاڑ اتنا سونا لے کر کسی کو اپنی آنکھ دے دیں۔ کیا آپ شہلا ن بربت اتنی چاندی لے کر اپنے کان کسی کو دے دیں گے ، کیا آپ ڈھیروں موتی لے کر اپنے ہاتھ کسی کو دے سکتے ہیں، سوچیں اور خوب سوچیں ، اگر اللہ کی نعمتوں کا احساس ہو جائے تو پھر اللہ کو راضی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیا جائے ۔
زیر تفسیر آیت کی تفسیر بھی یہی ہے اور اللہ کا حکم بھی یہی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا (95):
’’ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر بھی ان کا انکار کر دیتے ہیں اور اکثر نا شکرے ہیں ‘‘
ذکر کی اقسام
٭ مفسرین لکھتے ہیں کہ ذکر کی پہلی قسم زبان سے اللہ کی تسبیح اور تحمید ہے ، تکبیر اور تمحید اور تذکیر اور تہلیل ہے۔ مجدد الف ثانی قرآن مجید کی تلاوت کو بڑی اہمیت دیتے تھے (96)۔حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص قرآن مجید میں مشغول رہے اور اس کی مشغول بالقرآن ہونے کی وجہ سے وہ میرا ذکر نہ کر سکے اور مجھ سے دعا نہ مانگ سکے تو میں اس کو سائلین سے زیادہ دوں گا (97)۔
٭ ذکر کی دوسری قسم قلبی اور خفی ذکر ہے ۔ یہ ذکر اپنے تمام قویٰ ادراکیہ اور لطائف باطنیہ کو اللہ کے اس پاک کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ یہ محویت اس قدر زیادہ ہونی چائیے کہ بندہ خود بھی خود کو بھول جائے۔ اس کے لئے سمت شیخ اور مراقبہ دونوں طریقے استعمال کئے جا سکتے ہیں، اصل تو اس کی خفی ذکر ہے۔ شیخ کی توجہ واقعۃً کارگر ہوتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے صحیح لکھا کہ مٹی پھول کی صحبت سے معطر ہو جاتی ہے اور لوہا آگ میں رہنے سے اخگر ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح انسان پر آثار تقدس فائض ہوتے ہیں۔ اس نہضت میں بندہ سے عجب عجب چیزیں سرزد ہوتی ہیں، انہی صادرات کو کرامات بھی کہا جاتا ہے (98)۔
٭ ذکر کی تیسری قسم جوارح کو اللہ کی اطاعت اور بندگی میں لگا دینا ہوتا ہے اور منیہیات سے جوارح کو باز رکھنا ہوتا ہے (99)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں