244

کرونا کے بعد بحالی کا عمل کتنا دشوار ہو سکتا ہے ؟

کرونا وائرس سے دنیا کو لڑتے ہوئے کم و بیش دو سال ہونے والے ہیں ۔اس وبا سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد کم و بیش پچاس لاکھ ہو چکی ہے جبکہ غیر سرکاری تخمینے اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 23ہزار سے زیادہ ہے جبکہ برطانیہ میں ایک لاکھ 29ہزار لوگ کرونا سے مر چکے ہیں ۔ کرونا وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون سے معیشت کا پہیہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے جس سے لوگوں کے روزگار چھن گئے ہیں ۔دنیا کوکرونا وبا سے اندازاً چار کھرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔جبکہ جی سیون ممالک جن میں امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، کینیڈا ، فرانس ، اٹلی اور برطانیہ شامل ہیں ان میں سب سے زیادہ جس ملک کی معیشت کو نقصان ہوا ہے وہ برطانیہ ہے جس کی قومی پیداوار کی شرح 2019ء کے مقابلے پر منفی دس فیصد پر آ چکی ہے ۔امریکہ کی شرح منفی چار تک گری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقہ از حد متاثر ہوا ہے اگرچہ برطانوی حکومت نے اس امتحان کے وقت ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ شہریوں کوفلاح پر توجہ دے مگر اب جبکہ بعض ممالک میں کرونا کی چوتھی لہر آ چکی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔برطانیہ کے لئے یہ کیسے ممکن ہو گا کہ وہ کاروباری سرگرمیاں بحال کرے تاکہ معیشت کا پہیہ اپنی ڈگر پر واپس آ سکے ۔صرف اگر سیاحت کے شعبے پر ہی نظر ڈالی جائے تو بر طانیہ کو اس سال کے اختتام تک بائیس ارب پائونڈ کا نقصان ہو چکا ہے جس سے تیس لاکھ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں ۔کرونا کی وجہ سے سفری پابندیوں کی وجہ سے کئی ممالک کے شہریوں کو ہوٹلوں میں قرنطینہ کرنے کے اضافی پیسے صرف کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد میں 98فیصد کمی ہوئی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سو سال میں برطانیہ کی معیشت کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہو چکا ہے ۔سروسز سیکٹر جو کہ برطانوی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس میں گزشتہ ایک سال کے دوران 8اعشاریہ9فیصد کمی آئی ہے ۔اشیائے خوردونوش کا سیکٹر 55فیصد تک جبکہ مینوفکچرنگ میں 8اعشاریہ 6فیصد اور کنسٹرکشن میں 12اعشاریہ 5فیصد کمی دیکھی گئی ہے ۔
ان حالات میں عام برطانوی شہریوں کی زندگی از حد متاثر ہوئی ہے ۔بعض ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر معیشت کا پہیہ بحال ہو جاتا ہے تو برطانوی معیشت کو اپنے ٹریک پر آنے میں کم وقت لگے گا ۔ تاہم اس کا انحصار کرونا ویکسین کی کارگری پر ہے کہ وہ کس قدر مئوثر ثابت ہوتی ہے ۔دوسری جانب برطانیہ سمیت یورپی ممالک میں شہریوں کا اپنی اپنی حکومتوں پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ معمولات زندگی بحال کریں لیکن حکومتوں کے پیش نظر عوام کی جان کی حفاظت سب سے مقدم ہے ۔ان حالات میں حکومتیں بھی کشمکش میں ہیں کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔تاہم بطور شہری ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رہیں ۔کرونا ایس او پیز پر عمل کریں اور جلد از جلد ویکسین لگوائیں کیونکہ یہی ایک صورت ہے کہ جس سے معمولات زندگی بحال کئے جا سکتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں