332

سورۃ البقرہ کی آیت153کی تفسیر


ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْن
’’اے ایمان والو !مدد لیا کرو صبر اور نماز سے ، پکی بات ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت سے پہلی آیت نے چمنستان کتاب میں رہنے والوں کواللہ کے نام کی خوشبوئوں سے معطر اور معنبر کر دیا تھا۔ اب اس آیت میں اصحاب ایمان کو روشنی اور حسن کی ایک نئی اور تازہ دنیا سے روشناس کروایا جا رہا ہے ۔ یقین جانئے انسان کے اندر ایک ایسی طاقت ہر وقت موجود رہتی ہے جو انہیں کار زار ِ حیات میں مستعد رکھتی ہے ، وہ لمحات ِ زندگی کو حسین اور پر مسرت بنا دیتی ہے، وہ روحوں کو بچوں کی طرح گدگداتی ہے اور طمانیت کے مراجع سے آگاہ کر دیتی ہے ۔ وہ شخص جس کا باطن پراعتماد اور پرامید نہیں ہوتا وہ کامیابیاں کا تازہ جہاں مسخر نہیں کر سکتا ۔ روشنی اور دھوپ کی طرح اللہ نے انسان کے باطن کو بھی توانائیوں اور نہضات کو دولتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ان کا سراغ لگانا انسان کے لیے از حد ضروری ہے۔
انسانی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہوتا ہے کہ وہ دریافت کرے کہ اسے زندگی کیسے گزارنی چاہئے؟قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت مدد کرتی ہے اور سکھائی ہے کہ مطمئن زندگی کا مبداء اور سرچشمہ یہ عقیدہ ہے کہ ہر معاملہ میں ہر وقت اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھا جائے، وہ انسان جو اس عقیدہ سے سرموانخراف کرے وہ پٹخ دیا جاتا ہے اور جو خود کو اللہ کی مدد کے حصار میں لے آئے فطرت برگزیدگی کے رنگارنگ پھول اس کے دامن میں ڈال دیتی ہے ۔ اللہ کی مدد کے سہارے جینے والا شخص کبھی مایوس نہیں ہوتا ، کم ہمت نہیں ہوتا اور صفات ایثار و خدمت سے محروم نہیں ہوتا ۔ یہ آیت مزید یہ بتاتی ہے کہ اللہ کے نور کی طرح اللہ کی مدد کا ظہور کا روحوں ، دلوں اور نفوس میں صبر اور مصابرہ کے ’’ریڈار ‘‘ پر ہی ہوتا ہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ صبر ایک عادت اور خصلت بھی ہے، ایک خوبی اور صفت حسنہ بھی ہے اور ایک آئینہ حقیقت بھی ہے جس میں چمک اللہ خود پیدا فرماتا ہے ۔ آیت کا روحانی سبق بڑا دلچسپ ہے کہ اللہ کی مدد سے تسخیر ِ خودی کرنے والا شخص ہی تسخیر ِ کائنات کے مرحلوں سے گزر سکتا ہے لیکن جس نفس میں صبر نہیںوہ کامیاب نہیں۔ صبر حق کے لیے ڈٹ جانا ، حق پر جم جانا اور حق پر مستقیم ہو جانا بھی ہے یوں کہ بدعقیدگی ، بدعملی اوربدمعاملگی سے شخصیت بھی ہے اور باطن کے سمندر میں غوطہ زنی کر کے خدائی مددوں کا سراغ بھی لگانا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓبیمار پڑ گئے۔ لوگ عیات کے لئے آئے اور عرض کی کہ اجازت ہو تو طبیب بلا لائیں ۔ آپ نے فرمایا: طبیب تو دیکھ چکا ہے ۔ لوگ عرض کرنے لگے وہ کیا کہتا ہے فرمایا : طبیب کاکہنا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اشارہ صبر کی فضیلت کی طرف ہے (100)۔
حضرت عمر ؓ کا مقولہ ہے (101):
’’ اچھی زندگی وہ ہے جو صبر کے ساتھ گزرے اور فرحت بخش حیات وہ ہے جو صبر سے ملے ‘‘
حضرت عثمان ؓ کا ارشاد ہے کہ قرآن مشکلات میں عروۃ الوثقیٰ ہے اور صبر فضیلتوں کا سرچشمہ ہے ۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو !صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو جسم میں سرکا ہوتا ہے، جسم سے سرکٹ جائے تو جسم کی کیا قیمت بچ جاتی ہے ۔ حضرت حسن ؓ کو کسی نے یہ کہتے سنا : ’ ’ صبر اگر انسانی شکل میں ظاہر ہوتا تو ایک شریف آدمی ہوتا ‘‘ امام حسین ؓ نے حضرت علی ؓ کا ارشاد نقل فرمایا کہ ’’ صبر وہ سواری ہے جو اپنے سوار کو گرنے نہیں دیتی۔ حضرت حسن بصری ؓ کا قول ہے کہ ’’ صبر خیر کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جو اللہ اپنے بہترین بندوں کو عطا کرتا ہے ‘‘حضرت عمر بن عبدالعزیر ؓ نے فرمایا : بے صبری نے تاریخ مسخ کر دینی ہوتی ہے جبکہ صبر اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ‘‘ اہل بیت میں سے کسی امام کا قول ہے : ’’ صبر وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں اللہ اپنی معیت کی دولت عطا فرماتا ہے ‘‘ (102)۔
حضرت خباب ابن الارت فرماتے ہیں : ہم نے رحمت عالم ؐ سے شکایت کی ، آپ ؐ اس وقت کعبہ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ یا رسول اللہ ؐ آپ ہمارے لئے اللہ نے نصرت طلب نہیں کرتے ۔ آپ ؐ نے فرمایا (103):
’’تم میں سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص کو پکڑا جاتا اور اسے شہید کرنے کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں رکھ دیا جاتا پھر اسے سر کی جانب سے دو ٹکڑے کر دیا جاتا اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچ کر الگ کر دیا جاتا لیکن باوجود اس کے پر عزم لوگوں کو دنیا کی کوئی قوت دین سے روک نہ سکتی ۔ اللہ کی قسم !وہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گا لیکن اسے اللہ کو سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا ۔ بھیڑیا بھیڑوں کی حفاظت کرے گا لیکن افسوس تم جلد ی کر رہے ہو ‘‘
آیت میں احکام کی تربیت بڑی دلچسپ ہے۔ ایمان اور ایقان کی نسبت رکھنے والوں کو صبر کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے ۔ اس پر مدت طویل گزر جائے تو اس میں کمزوری آ سکتی ہے اس لئے نماز کو صرب کے لئے طاقت اور وقت کا سر چشمہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے مستقل حکم بنا دیا کہ نماز سے مدد حاصل کرو۔
سید قطب نے صحیح لکھا (104):
’’ نماز وہ سرچشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا اور یہ وہ زاد ِ راہ ہے جسے ختم نہیں ہونا ہوتا ، قوت اور طاقت صبر اور ثبات کی تجدید کے لئے یہ منبع ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے لولگا نے کے لئے نماز بڑا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ ‘‘
حضور انور ؐ جب بھی سخت حالات اور مشکلات کا سامنا کرتے نماز ادا فرماتے۔ نماز کے بارے میں آپ ارشاد فرماتے : ’ ’ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ‘‘ (105):
نماز کا قیام قطرے کوقلزم سے ملنے کا موقع فراہم کردینا ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کے خزانوں کی کنجی ہے ۔ نماز ایک تھکے ماندے شخص کے لئے خوشگوار احساس بھی ہے، تسکین قلب بھی ہے اور اسے رحمتوں کی روح پر ور شبنم بھی کہا جا سکتا ہے اور تپتی دھوپ میں خنک سایہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ نماز کا قیام مزیدار زندگی کا شاہ باب ہے اور یہ اللہ سے ملنے کا زاویہ ء التقاء بھی ہے ۔
حضرت عصام الدین نے خامہ فرسائی فرمائی (106):
’’ صابرین اللہ کے ذکر کو کبھی بھولتے نہیں بخلاف ان لوگوں کے جو صبر سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے قلوب ذکر اللہ سے غافل ہوتے ہیں اور اللہ ان کے دلوں میں حب دنیا اور حرص ڈال دیتا ہے ۔ ‘‘
حدیث شریف میں ہے کہ بروز قیامت ایک منا دی آواز لگائے گا اہل فضیلت کہاں ہیں ؟ یہ سن کر کچھ لوگ دوڑ کر بہشت تک پہنچ جائیں گے ، فرشتے ان سے پوچھیں گے لوگو !تم جنت کے طرف دوڑے جا رہے ہو تم ہو کون ؟ وہ کہیں گے ہم اہل فضیلت ہیں ، پوچھا جائے گا تمہاری فضیلت کا سبب کیا ہے، وہ کہیں گے ہم پر ظلم ہوا تو ہم نے صبر کیا اور ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی تو ہم نے معاف کر دیا ۔ فرشتے کہیں گے جنت میں خوشی سے داخل ہو جائو ۔
اسی طرح ندا لگے گی صابرین کہاں ہیں ؟تو وہ بھی جنت کی طرف دوڑ پڑیں گے ۔ ان سے پوچھا جائے گا تم لوگ کون ہو؟وہ کہیں گے ہم صبر کرنے والے ہیں، فرشتے کہیں گے تم نے کن باتوں پر صبر کیا ، وہ کہیں گے ہم نے اطاعت پر صبر کیا اور خود کو اطاعت کا پابند بنا لیا ، حکم ہو جلدی سے جنت میں داخل ہو جائو ایسا ہی معاملہ اہل محبت سے بھی ہو گا (107)۔واللہ علم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں