961

سورۃ بقرہ آیت 143 کی تفسیر


(وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنتَ عَلَیْْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْْہِ وَإِن کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً إِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ (
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمّت بنایا ہے تاکہ تم محبت والوں اور بھولنے والوں سب پر گواہ ہو جائو اور ہو جائیں رسول معظّم تم پر گواہ و نگہبان اور ہم نے نہیں بنایا تھا وہ قبلہ جس پر آپ تھے مگر اس لئے کہ دیکھیں ہم کو کون پیچھے چلتا ہی رہتا ہے رسول کے اور کون ہے وہ جو اُلٹے پائوں پھر جاتا ہے ، یہ بات بڑی گراں تھی لیکن اُن کے لیے نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ تمہارے ایمانوں کو ضائع کر دے یقین رکھیے کہ اللہ لوگوں کے حق میں نہایت مہربان رحمت والا ہے ‘‘۔
آس آیہ ء کریمہ میں سب سے اہم مضمون خصائص اُمت کا بیان ہوا ہے ۔ بکھرے ہوئے ذروں کو ایک چٹان بنا دیا گیا ہے ۔ تشکیل اُمت کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے کعبہ کی کشش ثقل بیان کی گئی ہے ۔ وہ پہلی صفت جو قرآن نے ’’ اُمت ‘‘ کے حوالے سے بیان کی وہ امت کا ’’وسط‘‘ ہونا ہے ۔
’’ الوسط‘‘ کا معنی تفصیلاً بیان کیا جاتا ہے :
تاج العروس میں زبیدی حنفی لکھتے ہیں (2):
علامہ قرطبی نے ’’ وسط ‘‘ کا ترجمہ عدل اور انصاف سے کیا ہے (3) ۔
محیط کا مئولف لکھتا ہے ’’ وسوط الشمس ‘‘ کا مطلب سورج کا آسمان کے درمیان آ جانا ہوتا ہے (4) ۔
علامہ اسماعیل حقّی نے اعتدال سے ترجمہ کیا ہے (5) ۔
طباطبائی نے خوبصورت شئی سے اس کو تعبیر کیا ہے (6) ۔
علامہ زبیدی حنفی نے لکھا ’’ واسطہ القلادہ ‘‘ہارکادرمیانی موتی جو نفیس ترین ہو (7) ۔
لسان العرب نے شاید اسی مناسبت اور نفیس سے لفظ کی تعبیر دی ہے (8)۔
جو شخص جو جھگڑا کرنے والوں کے درمیان پڑ جائے اسے بھی ’’الوسط‘‘کہتے ہیں (9)۔
ابن عاشور نے ’’ وسط ‘‘ کو شرف و عظمت کے معنوں میں لیا ہے (10)۔
تفسیر نمونہ نے افراط و تفریط سے دور رہنے کے لئے یہ لفظ سمجھا ہے (11)۔
التفسیر البسیط کے مئولف نے کہا :وادی کی بہترین جگہ ’’ وسط ‘‘ ہوتی ہے (12)۔
دھنک کا درمیانی رنگ بھی ’’ وسطہ ‘‘ کہلاتا ہے (13)۔
شعرا ء نے بعض مقامات پر چودھریں کے چاند کو بھی ’’وسیطہ ‘‘ کہہ دیا ہے (14)۔
سید قطب نے اسے میانہ روی کے معنوں میں بھی سمجھا ہے (15)۔
امام فخر الدین رازی نے ایک حدیث نقل کی کہ اُمت وسط کا مطلب ’’ اُمت عدل ‘‘ ہے (16) ۔
آیت میں حضور ؐ کی اُمت کو کہا گیا کہ تم اُمت وسط ہو ۔ تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ لوگوں کے درمیان تم عدل و انصاف قائم کرو ۔ تمہارے عدل پر رہنے ہی سے لوگوں کے سامنے یہ معیار قائم ہو گا کہ وہ تم پر اعتماد کر سکیں گے ۔
اُمت وسط ہونے کا معنی یہ بھی ہے کم معتدل ہو ، عقائد اور نظریات میں تم غلو نہیں کرتے ، تقصیر اور شرک کی راہ نہیں چلتے ، جبر میں نہیں پڑتے ، تفویض کے قائل نہیں ہوتے ، نہ تشبیہ کا عقیدہ رکھتے ہو اور نہ تعطیل کے تم قائل ہو ۔ عملی زندگی میں نہ تم دنیا میں کھو جانے والے ہو اور نہ روحانیت کو بھول جانے والے ہو ۔ یہودیوں کی طرح مادہ پرست نہیں اور عیسائیت کی طرح رہبانیت کے عاشق نہیں۔تم محبت سے محروم ہو کر عقل کی پگڈنڈیوں پر جہاں الجھتے نہیں وہاں عقل سے دستکش ہو کر محبت میں دیوانے نہیں ہوتے ، تم عقائد میں اُمت وسط ہو ، تم اعمال میں اُمت معتدل ہو تم زماںملت وسط ہونے کا شرف رکھتے ہو ، تم زماں میں معتدل ہونے کی تاریخ رکھتے ہو ،روحانی دنیا میں تمہاری پہچان ن اُمت وسط ہونے کی ہے اور مادی دنیا میں بھی تم مرکز کائنات ہونے کے ناطے وسیط بھی اور بسیط بھی ہو ۔ جمالیاتی دنیا میں تم کو ر ذوق ہو کہ تماشائے حسن تمہارے لئے ممکن نہ ہو نہ ہی تم جنس زدہ ہو کہ حسن کا جنسی گھونٹ بھر لو، تم فکرو شعور اور تعمیل و تسلیم کی وادی میں احتیاط سے قدم رکھتے ہو ،نہ ہر ایک کو چھوڑتے ہو اور نہ ہر ایک کا دامن پکڑ نے میں عجلت کرتے ہو ۔ تمہارا ذہین اعتدال کے صراط ِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے ، تم افکار و نظریات کی شمعوں کی روشنی بھی محسوس کرتے ہو اور تم الہام و وحی کی عظمتوں سے بھی آگاہ رہتے ہو تمہارا اپنا کوئی کمال نہیں،تمہیں تمہارے بنانے والے ہی نے اُمت وسط بنا دیا ہے اس لئے تم کوشش کرو کہ ’’ اُمت عدل ‘‘ ہی بن کر جیو ۔
قرآن کی دعوت کتنی رسیلی ہے
اور صحیفہ ء نور کی سند کتنی و لکش اور مضبوط ہے ۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ
’’کذٰالِک ‘‘ میں کاف تشبیہ ہے ۔ مفسرین نے لکھا کہ اس کا ف کا تعلق ’’یھدی ‘‘ کے ساتھ ہے اس صورت میں مفہوم آیت یہ ہو گا کہ ہم نے تمہیں جس طرح ہدایت سے نوازا اسی طرح ہم نے تمہیں ’’اُمت وسط‘‘ بنا کر انعام سے نوازا (17)۔
تعبیر کی دوسری جہت یہ ہے کہ اس حرف تشبیہ کا تعلق کعبہ سے ہے کہ ہم نے جس طرح کعبہ کو درمیانی بنایا تمہیں بھی معتدل اور وسط بنایا ۔اب تم لوگ نہ تندرو ہو اور نہ کندرو ہو ۔ تمہیں نمونے کی قوم اور ملت بنادیا گیا (18)۔
رازمی نے لکھا کہ اس کا تعلق انتخاب ابراہیم کے ساتھ ہے ۔ جیسے ان کا اصطفا کیا گیا تمہارا بھی فضلیت کے اعتبار سے انتخاب ہو گیا (19)۔
اس باب میں چوتھا قول یہ ہے کہ تمام جہتیں مشرق مغرب اور شمال جنوب اللہ کی ملک میں برابر تھیں لیکن اللہ نے فضل و شرف سے نوازا کہ قبلہ کو سب کے لئے مقرر کر دیا اور یہ تشبیہ عبادت میں ٹھہری (20)۔
رازی نے یہ بھی لکھا کہ یہاں ضمیر کا ذکر مرجع کے بغیر ہے اور یہ اس وقت ہو تا ہے جب مرجع معروف و مشہور ہو ، اشارہ اس طرف ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے اس نے اپنی قدرت سے تمہیں اُمت وسط بنا دیا ہے (21)۔
جعلنکم
’’کم ‘‘ ضمیر سے مراد عاستہ المفسرین نے اُمت مسلمہ ہی مراد لی ہے لیکن خاص ضمیر کے حاملین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اُمت وسط کا تعلق دعائے ابراہیم سے ہے ۔ آپ نے دعا فرمائی تھی (22):
’’اور ہماری اولاد میں سے اپنی فرماں بردار اُمت پیدا فرما ‘‘
ایک دوسرے مقام پر اسی اُمت کو مخاطب کر کے فرمایا (23) ۔
’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ‘‘ ۔
مفسرین میں خاص ذوق کے حاملین نے کہا کہ آیات میں اولاد ابراہیم میں قیامت تک چلنے والے دوائمہ ہدایت مراد ہیں (24) جن سے وابستگی دوزخ کی آگ سے امان اور جنت میں دخول کا ذریعہ ہو گی اور کچھ سمجھ آئے نہ آئے اولاد رسول کی عظمت و فضلیت کے سامنے سرافگندگی کی قرآنی وژن کی مظہر ضرور نظر آتی ہے ۔
قرآن مجید کا یہ جملہ بتاتا ہے کہ تحویل قبلہ کی علت اور حکمت یہ تھی کہ قیامت تک آنے والے قار ئین صحیفہ پر یہ بات کھول دی جائے کہ وہ لوگ کون تھے جنہوں نے جاہلانہ روایات ، قومی تعصبات ، لایعنی رسومات اور گروہی ترجیحات سے عشق اور دیوانگی مچائے رکھی اور وہ بلند بخت محبین رسالت کون تھے جنہوں نے غلامی کی ہر زنجیر کاٹ کر صدق دل سے رسول معظم کی پیروی کی تھی ۔
قبلہ کو آبائو اجداد کی روایت سمجھ کر ماننا اور ہے اور فرمان الٰہی کے تحت ماننا اور ہے ۔ عرب کے صحرا نشینوں نے ہدایت کا کتنا بلند رتبہ پا لیا تھا کہ نماز کے اندر ہی رسول معظم ک پشت پر نظر رکھتے ہوئے آدھی نماز قدس اور باقی نماز کعبہ کی طرف پڑھ لی تھی ۔ کیا یہ واشگاف اعلان نہیں تھا کہ مسلمان جہتوں کا بندہ نہیں وحی کا پابند ہے ۔ قرآن سے وابستگی کا کتنا عظمت مآپ عملی اظہار ہے اور عشق رسالت کی کتنی من موہ لینے والی تصویر ہے ۔
قرآن مجید نے بساط ذہین سے بڑی حکمت کے ساتھ کانٹے چن لئے کہ ممکن ہے کوئی سوچتا ہو قبلہ آخر بدلنے کی ضرورت کیا تھی ؟ فرمایا گیا تا کہ ہم دیکھ لیں آپ کی اطاعت کون بجا لائے گا اور ایڑیوں پر گھوم کون جائے گا جملہ کی جو تفسیر ہونی تھی وہ تو ہو گئی ۔ ایڑیو ں پر اعلیٰ حضرت کے چند اشعار قرآن کی خیرات لئے ہوئے محسوس ہوئے ۔
عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
ان کا منگتا پائوں سے ٹھکرا دے وہ دنیا کا تاج
جس کی خاطر مر گئے منعم رگڑ کر ایڑیاں
ایک ٹھوکر میں احد کا زلزلہ جاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں
اُمت وسط ہونے کی علت بیان ہوئی کہ تمہیں لوگوں پر گواہ بنانے کی غرض سے تمہیں عدل و انصاف پر قائم رہنے والا بنا دیا ۔
شہادت کیا ہے ؟
تاج نے لکھا کہ اس لفظ کا اساسی معنیٰ موجود ہونا اور حاضر ہونا ہوتا ہے (25) ۔ بصارت یا بصیرت دونوں میں کسی ایک کی وجہ سے معلوم شئی کو کماحقہ بیان کر دینا شہادت ہے ۔ مشاہدہ آنکھوں سے دیکھنے کو کہتے ہیں(26) ۔’’شاہد الفرص‘‘ گھوڑے کی اس طاقت کو کہتے ہیں جسے استعمال میں لاکر وہ دوڑتا ہے (27)۔ ’’امراہ مشھد ‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں جو گھر میں موجود رہتی ہو (28) ۔اللہ کو بھی قرآن مجید نے شہید اس لئے کہا گیا کہ ہر چیز اس کی نگاہوں میں ہے۔
الشھد عسل کو بھی کہتے ہیں شاید چھتے میں موجود رہنے کی وجہ سے اسے شہد کہہ دیتے ہیں (29) ۔ شہادت کا معنٰی فیصلہ کرنا بھی ہوتا ہے (30) ۔ اُمت مسلمہ کے لوگوں پر شہادت قائم کرنے کا یقینا ان کے احوال سے خبر دار رہنے کے معنوں میں استعمال ہونا ہے ، کسی بھی نظام کی کامیابی لوگوں کی خبر گیری ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کی خبر گیری کرنے والا پاسباں بنا دیا ہے ۔یقینا بروز قیامت بھی مسلمانوں کی دوسری اُمتوں پر گواہی گزرے گی۔یہ اُمت مسلمہ کا اعزاز ہے، ذمہ داری ہے اور اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرے ، ان کے لئے حق کا معیار ظاہر کرے اور اقدار ِ حیات کا تعین کرے ۔ اُمت مسلمہ شاہدین کی ملت ہے انہیں لوگوں کے مرسومات اور رسوم ، دساتیرا ور قوانین ، ضوابط اور طرق ، شعائر اور تہذیبی آثار سب کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ دینا ہوتا ہے کہ جینے کے لئے معیار وحی کا اسوہ کہاں ہے ۔مفسرین کی یہ بات بالکل درست ہے کہ’’ شھدا علی الناس ‘‘ملت اسلامیہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ان کے اندر کامل نمونہ قائم ہو جائے ۔ عقائد ، معارف اور تعلیمات میں قرآن و سنت ِ نبی ؐ کے ساتھ ساتھ چلنا ہی شہادت کے قیام کا مفہوم ظاہر کر سکتا ہے (31)۔
’’ویکون الرسول علیکم شھیدا ‘‘
قرآن مجید کے اس حصہ میں حضور ؐ کی کتاب سیرت سے ایک ورق کھولا گیا ہے ۔ جملے کا ایک ایک لفظ معانی اور مطالب کا موجزن سمندر ہے ۔ لفظ کے آئینہ میں معانی کی حقیقت بڑی جاذب ِروح محسوس ہو رہی ہے ۔رسول پر الف لام نے عظمتوں اور فضیلتوں کے ساتوں آ سمان مصطفی کریم کے قدموں میں رکھ دیئے ہیں۔قوموں میں سے کوئی قوم نہیں اور ملتوں میں سے کوئی ملت نہیں جس پر اُمت مصطفویہ کی گواہی نہ گزرے گی اور اُمت مصطفویہ کا کوئی فرد نہیں جس کے فرد عمل پر رسول معظم کی نظر نہ ہو ۔آپ شاہد بھی ہیں اور شہید بھی ہیں۔زمانہ ان کی نظر میں ہے قومیں میں اپنے مالہ اور مالھا کے ساتھ آپ کے علم کا ایک گوشہ بھی نہیں اسغل و اعلیٰ جوشئی ہے ان کے قدموں میں معراج پاتی ہے ۔
علامہ قرطبی نے لکھا کہ بروز محشر لوگوں کے تمام اعمال پر رسول معظم کی گواہی گزرے گی۔بعض علماء نے لکھا کہ ’’ علیکم لکم ‘‘ کے معنوں میں ہے یعنی حضور ؐ تمہارے لئے گواہی دیں گے تاکہ تم سرفراز ہو جائو ۔ یہ بھی کہا گیا کہ حضور ؐ لوگوں کے لئے ان پر تبلیغ کی گواہی دیں گے (32) واللہ اعلم
و ان کانت لکبیرہ
علامہ واحدی نے لکھا کہ اس جملہ سے مراد قبلہ کی تبدیلی ہے اور قدس کو چھوڑ کر کعبہ کی طرف منہ کرنا ہے یعنی یہ ایک سخت امتحان (33) ۔ انسان فطری طور پر روایت پرست واقع ہوا ہے ۔ جہاں اسے تاریخ نے جکڑ دیا ہوتا ہے وہاں سے نکلنا آسان نہیں ہوتا اصل امتحان تو اللہ کی بندگی اور رسول کی اطاعت و وفا ہے۔احکام کی تبدیلی سے لوگوں کے نفس ساز ماحول پر چوٹ مارنا ضروری ہوتا ہے ۔آیت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ اللہ کے ہدایت یافتہ لوگوں کے لئے فائز المرام ہونا کوئی بھاری نہیں ہوتا ۔ اللہ کی دی ہوئی ہدایت انسان میں تعلیم و تعمیل کی روح بیدار کر دیتی ہے ۔ جملہ کا یہ مفہوم ابن عباس رضی ؓ ایسے ہی سمجھا کرتے تھے ۔ مجاہد اور قتادہ نے اسی تفسیر پر ’’ صاد ‘‘ کیا تھا ۔
ابن جریر نے ا پنی تفسیر میں یہ لکھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا بہت بھاری ہے مگر اس پر گراں نہیں جسے اللہ ہدایت عطا فرما دے ۔ ابن زید نے یہی قول کیا ہے (34)۔
ابن جریر اور واحدی کی عبارت سے یہ بھی سمجھا گیا کہ مسلمانوں کے لئے قدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا ایک مشکل سا کام تھا ،اللہ نے قلبی ہدایت سے انہیں نواز کر آسان کر دیا (35) ۔
وما کان اللہ لیصیع ایمانکم
علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ حضور انور ؐ کے اصحاب میں سے حضرت ابو امامہ سعد بن زرارہ اور براء بن عازب کا قدس کے قبلہ کی طرف ہی نمازیں ادا کرتے ہوئے وصال ہو گیا ۔ ان کے قبائل نے رحمت عالم ؐ کی خدمت میں عرض کی ہمارے پیاروں کا وصال تو قدس پر ہی ہو گیا وہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی لذت سے ہم چشیدہ نہ ہو سکے ان کا کیا بنے گا ؟آیت کا یہ ٹکڑا حضور ؐ نے تلاوت فرمایا کہ قدس کی نمازیں ضائع ہوئیں نہ ایمان کی حرارت میں کچھ فرق پڑا۔ ایک مصلحت سے دوسری مصلحت کی طرف عدول اور ایک ذمہ داری سے دوسری ذمہ داری کی طرف متوجہ ہونا ایمان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وفائوں کے تام ہونے کا اعلان کرتا ہے (36) ۔
ان اللہ بالناس الر ئوف رحیم
قفال نے رافت اور رحمت میں فرق یہ کیا ہے کہ رافت خصوصی رحمتوں میں مبالغہ کا نام ہے اور نا پسندیدہ چیز کی ضرر سے دفاع کرنے کی تعبیر ہے اور رحمت کے اندر اثبات ِ خیر کا پہلو نمایاں ہونے کا معنٰی پایا جاتا ہے ۔ہوا ، بارش اور پانی رحمت ہیں اور بادوباراں کے طوفان سے دشمنوں کے خیمے اجاڑ دئیے جائیں تو یہ رئووف رب کی رافت ہے جسے چاہتا ہے وہ نواز دیتا ہے (37) ۔
آیت میں اسباق :
1۔ نیکیوں بدیوں کی تاریخ اللہ کے ہاتھ میں ہے انسان کو خوبیوں کی خوشبو کے لئے رجوع الیٰ اللہ ہی کرنا چائیے۔
2۔ اُمت بامقصد لوگوں کی جماعت کو کہا جاتا ہے مسلمانوں کو زندگی کی مقصدیت قرآن کے چراغوں سے حاصل کرنے کے لیے سفر جاری رکھنا چاہیے۔
3۔ اُمت مسلمہ کو ’’وسط‘‘ ہونے کی معنویت سے خود کو محروم نہیں کرنا چاہیے، یہ زیبائی زندگی کو نکھارتی ہے ۔
4۔’’شہادت علی الناس ‘‘ مسلمانوں کا فرض منصبی ہے انہیں ہمہ وقت اس تگ و دو میں لگا رہنا چاہیے۔
5۔ رسول معظم ؐ کوزندگی میں اثر و رحمت اور انگہبانی اور شہادت میں اپنے ساتھ ساتھ سمجھنا چاہیے۔ تربیت کا انتہائی موثر وسیلہ ہے ۔
6۔احکام اور نواہی میں ندرت امتحان ہوتے ہیں انہیں صلاحیتوں کے اُجاگر کرنے کے لیے عمل اور تعمیل میں بسائے رکھنا چاہیے۔
7۔ ہدایت روحانی اہم چیز ہے عملی زندگی میں اس کی طلب اور آرزو دل کی دھڑکنوں سے متقارب رکھنی چاہیے۔
8۔ اُمت وسط کا خصوصی اطلاق اولاد ابراہیم اور ائمہ سادات پر ہوتا ہے ان کے فیوض سے بہرہ مند رہنا چاہیے ۔
9۔ احکام و اوامر کی تاریخ سے زندگی کی قیمت معلوم کی جا سکتی ہے ۔
10۔ وسائل اور شعائرد ینیہ سے مستفید ہونے کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔
11۔’’کذٰلک ‘‘کا لفظ بتاتاہے کہ ہدایت کا جو نور سابقین میں چمکا اسے مشعل راہ بنا کر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
12۔ اعتدال اچھی اور خوبصورت عادت ہے ۔ محبتوں ، الفتوں ، نوازشوں ، فیصلوں اور اقدامات میں معتدل رہنا اچھا انسان ہونے کی علامت ہوتی ہے ۔زندگی میں یہ تربیت رہنی چاہیے۔
13۔ ایمان ، زندگی اور وقت قیمتی دولت ہے اسے ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔
14۔ آیت اللہ کی دوصفتوں پر ختم ہوتی ہے : بات کرتے ہوئے اللہ کی حمد کا ترانہ گونجتے رہنا چاہیے۔
15۔اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے رئووف بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ اگر اللہ انسانوں پر مہربان ہے تو مبلغین کو بھی قافلہء انسانیت کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرنا چاہیے۔
16۔ روئوف صفت بتاتی ہے کہ ناپسندیدہ لوگوں کے شر سے بچنا الو ہی سکھایا ہوا طریقہ ہے اسے ہر حال میں زیر نظر رکھنا چاہیے۔
17۔ رحیم کا مطلب خیر کا اثبات ہے ۔ خوبیوں کا چمن لوگوں کو ہمیشہ ہرا رکھنا چاہیے مہربانی کی کنجی سے جنت کا ہر دروازہ کھولا جا سکتا ہے ۔
18۔ اللہ سے رابطہ ہر شدت اور مشقت کو نرمی اور رحمت سے بدل دیتا ہے ۔
19۔ اللہ تعالیٰ سے اچھی امیدوابستہ رہنی چاہیے وہ کسی کی کوئی چیز ضائع نہیں کرتا ۔
20۔ تشکیل اُمت کی قرآنی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہیے یعنی اللہ کی رسی مضبوط پکڑنی چاہیے اور تفرقہ سے بچتے رہنا چاہیے۔
21۔ کعبہ مسلمانوں کی ایمانی ، تحریکی اور عملی زندگی کا محور اور مرکز ہے ۔ یہ ہمیشہ قوجہات کا مرکز رہنا چاہیے۔
22۔ احکام سارے تو نماز کی روح رکھتے ہیں، اسے قائم رکھنے میں کوئی سستی اور تساہل نہیں برتنا چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں