587

سورت بقرہ کی آیت 142 تا 143 کی تفسیر


(142)اب کہیں گے کچھ عقل کے ہلکے لوگ کہ کس چیز نے انہیں اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے ’’ آپ فرمائیے!مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں ‘‘وہی ہے جیسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دے دیتا ہے ۔
(143)اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین اُمتّ بنایا ہے تاکہ تم محبت والوں او بھولنے والوں سب پر گواہ ہو جائو اور ہو جائیں رسول معظّم تم پر گواہ و نگہبان او ر ہم نے نہیں بنایا تھا وہ قبلہ جس پر آپ تھے مگر اس لئے کہ دیکھیں ہم کہ کون پیچھے چلتا ہی رہتا ہے رسول کے اور کون ہے جو اُلٹے پائوں پھر جاتا ہے ، یہ بات بڑی گراں تھی لیکن اُن کے لیے نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی او ر اللہ کی شان نہیں کہ وہ تمہارے ایمانوں کو ضائع کر دے ، یقین رکھئے کہ اللہ لوگوں کے حق میں نہایت مہربان رحمت والا ہے۔
’’ اب کہیں گے کچھ عقل کے ہلکے لوگ کہ کس چیز نے انہیں اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے ‘‘ آپ فرمائیے !مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں’’وہی ہے جسے چاہتا ہے سیدھی راہ ہدایت دے دیتا ہے ‘‘
قرآن مجید کی اس آیت میں اسلام کے پانچ بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اس طرح تاریخی اور روحانی اہمیت کی حامل اس آیت میں قرآن کے اس واشفاف اعلان سے بات شروع کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے کعبہ معظمہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا ہے۔اس پر منفی رد ّ عمل ظاہر کرنے والے بے وقوف اور کمینے لوگ ہیں۔انہیں دین کے بنیادی مقاصد ہی سے آگاہی نہیں۔ان کا ردّعمل سفاہت اس لئے ہے کہ وہ رنگ اور نسل کے بتوں کی پوجا مذہب و ملت کا مرکز تصور کرتے ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ منفی کردار اور عصبیت کا پرچار کرنے والے یہودی تھے لیکن قرآن حکیم ’’سفاہت ‘‘ کا پیٹ کھلا رکھے ہوئے ہے ۔دنیا بھر سے ہر زمانے کے نسل پرست جو غلاظت بھی کھینچ رہے ہیںقرآن حکیم انہیں کم ظرف ، کمینہ اور بے وقوف قرار دیتا ہے ۔آیت کا عمود صراط ِ مستقیم کی پہچان ہے ،سیدھی راہ تک رسائی ہے اور یہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے یہ پاکیزہ فکرعطا فرماتا ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ پہلے پارہ کا مرکزی نکتہ ایمان سازی ہے اور دوسرے پارہ کا فکری مرکز بے وقوف کی پہچان اور ان کے کرتوتوں سے ادراک اور مشاہد ہ ہے۔تفسیر اور تعبیر کا یہ بحث اول تھا جس کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
آیت کی تعبیر میں دوسرا اہم اشارہ اُمت کی تشکیل کی طرف ہے۔وہ خصوصیات کبرٰی اور صفات عالیہ جو ملت اسلامیہ کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیںان کی ایک جھلک بتائی گئی ہے اور روحانی اعتبار سے اُمت کے لئے ایک مرکز قائم کیا گیا اور اس کا نام قبلہ رکھا گیا اور اُمت کے پرانے مرکز سے نئے مرکز کی طرف عدول کو اُمت کی بنیادی ضرورت قرار دیا گیا اور وہ لوگ جو اس مرکز سے نظری ، عملی اور فکری اعراض برتتے ہیں قرآن مجید نے کہا کہ وہ ناسمجھ ہیں۔برملا اس حقیقت کو آشکار کر دیا گیا کہ قبلے کی مرکزیت کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ خدا کسی خاص سمت میں سمایا ہوا ہے ۔مشرق مغرب کی کوئی اہمیت نہیں اصل اہمیت اللہ کے حکم کی ہے البتہ نظام حق اور نظام قرآن کو کعبہ کے محسوس مرکز کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔کعبہ معظمہ سے وابستہ تاریخ کی یہ اہمیت ضرور بیان کی گئی کہ نظام حق کی تلاش کا صحیح اور درست راستہ کون سا ہے۔
آیت کا تیسرا مبحث کعبہ کی عظمت اور فضلیت کی قاری قرآن کے ذہن اور روح میں اُجاگر کرنے سے متعلق ہے۔دوسرے پارے کا پہلا رکوع پڑھنے کے بعد قاری کتاب پر یہ بات اچھی طرح کھل جاتی ہے کہ کعبہ کی یہ خصوصیت نہیں ہے کہ وہ فن تعمیر کا کوئی شہکار ہے ۔باعث کشش کعبہ کا مادی اور فنی اعتبار نہیں بلکہ روحانی اور تاریخی اعتبار ہے اور اعتقادی اور عملی ثمرات جو اس مرکز سے وابستہ ہیں ان کا مطالعہ ہے۔مفسرین نے یہ باتیں درست لکھی ہیں۔
(1) کعبہ سب سے پہلا گھر ہے جو اللہ نے لوگوں کے لیے عبادت کے مقصدیت پر قائم فرمایا ۔
(2) یہی وہ گھر ہے جس کا طواف لاکھوں اولیائے کرام اور انبیائے عظام نے فرمایا ، اس اعتبار سے یہ جلوہ گاہِ معرفت ہے۔
(3) تاریخ ِ ابراہیم اور اسماعیل کا مرجع یہی قبلہ ہے۔
(4) ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اسی گھر کے معمار اول ہیں۔اولین دینی دعوت کا انشاء اسی مقام سے ہوا ۔
(5) اس گھر کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی ۔
(6) اس گھر سے حضو ؐ کو معراج کی عزت دی گئی ۔
(7) کعبہ سے حضور ؐ نے اپنی ہجرت کا آغاز فرمایا ۔
(8) اس گھر کے جوار ِ رحمت سے تاریخ انسانیت کی عظیم قربانی دی گئی ۔
(9) تاریخ کی سب سی بڑی بُت شکنی اس گھر سے شروع ہوئی ۔
(10) محمد ی دعوت کا آغاز اسی گھر سے ہوا ۔
(11) حجرا سود اسی مرکز میں زیادت گاہ ِ خلائق بنا ۔
(12) مقام ابراہیم اس مرکز کا امتیاز ٹھہرا ۔
(13) اسلام کی عظیم فتح کا اہتمام اسی گھر میں ہوا ۔
(14) مولائے اسلام علی کرم اللہ وجہ الکریم کی پیدائش اسی گھر میں ہوئی ۔
(15) اسی گھر میں میزاب رحمت کے نیچے قبور انبیاء کا سراغ ملا۔
(16) حضور ؐ نے اپنی پہلی نماز کی امامت اسی گھر میں فرمائی ۔
(17) صراطِ مستقیم کا نشان رفیع باب کعبہ ہی سے اُجاگر ہوا ۔
(18) دنیا کے بکھرے ہوئے نظام متحد المنزل کعبہ ہی سے ہوئے ۔
(19) اسی گھر کے سامنے حضور ؐ کی مبارک پشت پر اوجڑی ڈالی گئی اور سید طبیہ طاہرہ نے اپنے معصوم ہاتھوں سے اسے پیچھے ہٹایا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی مدافعت میں پہلی نسوانی آواز عملاً یہاں سے گونجی ۔
(20) اُمت مسلمہ کی تشکیل کا آغاز اسی مرکز سے ہوا ۔
(21) رنگ نسل ، زبان اور نیشلزم کے بت سب سے پہلے کعبہ ہی کے آنگن میں ٹوٹے۔
(22) اسی گھرکو مسلمانوں کی تو جہات کا محسوس مرکز قرار دے دیا گیا کہ وہ جہاں بھی نماز ادا کریں اپنے چہروں کا رخ ادھر ہی رکھیں۔
(23) کعبہ نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔پہلے یہودی اور عیسائی ہدایت کی دنیا کا موضوع تھے ۔ یہاں سے مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز ہوا۔باطل مذاہب کے راستے روک دئے گئے اور حق کا پرچم اتنا سر بلند ہوا کہ وہ عرش معلی تک جا پہنچا ۔
(24) مادی تہذیب کے پرچم سرنگوں ہو گئے اور مصطفوی نظام کی روشنیاں یہیں سے سراج منیر بن کر چمکیں ۔
25) کعبہ میں ثواب الاعمال ایک ایک لاکھ تک جا پہنچا ۔
آیت کا چوتھا تعبیراتی مبحت اللہ کا نظام ہدایت ہے یہ جملہ غو ر طلب ہے ’’ جو جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے ‘‘یہ بات بڑی جاذب روح ہے کہ ایک پیغمبر والد ہونے کے رشتہ سے ساری زندگی بیٹے کے چہرے کے لئے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ہدایت کا ایک نقش جمیل اس میں بھی ہے اور بیٹا کنویں میں پھینکنے جانے کے بعد سراپائے سپاس نظر آتا ہے اس میں بھی ہدایت کی بارش برسنے کی پیشین گوئی کرتا ہے ۔ایک اور انوار کی گزر گاہ ملا حظہ ہو ، طائف میں سنگ زنی کرنے والوں کا شکار ہونے سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ کے جلووں تک ہدایت ہی کے ستارے جگمگاتے نظر آ رہے ہیں۔خیال ہے کہ ہدایت خوش نصیبوں ہی کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔یہ آیت سکھلاتی ہے کہ مشرق مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں اور وہ ہی وے جو جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے ۔اس دولت کے حاصل کرنے کے لیے دعا بھی ہونی چاہیے اور تگ و تاز بھی جا رہی رہنی چاہیے۔
آیت کا پانچواں تفسیری مبحث آیت کے فوائد کا جاننا ہے جو تعداد میں پندرہ ہو سکتے ہیں۔
٭ پہلا فائدہ آیت سے اللہ تعالیٰ کے علم کا توسع ثابت ہوتا ہے ۔ یہ چیز اس جملہ سے ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے فرمایا ’’عنقریب بے وقوف کہیں گے ‘‘ یہودیوں کی سوچوں کی تصویر اللہ نے ان کے کہنے سے پہلے ہی آشکار کر دی ۔
٭ دوسرا فائدہ اللہ نے جو خبر دی اس کا عملی تحقیق ہے۔
٭ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے وقوف کہا جو اللہ کے علم پر اعتراض کرے۔یہاں سیدھی راہ پر وہی ہے جس میں تسلیم اور تعمیل دونوں ہوں۔
٭ چوتھا یہ کہ حضورؐ اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی کہ ان پر اعتراض کنندہ احمق ہوتا ہے۔
٭ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ بندہ جو توقع رکھتا ہے اُسے اس کی تکمیل کے لئے عملی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
٭ چھٹا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ تربیت کا قرآنی منہاج معلوم ہو گیا کہ تبدیلی احکام انسان کی اطاعت اور وفا کا امتحان ہوتا ہے۔مشرق سے مغرب او ر قدس مقدس سے کعبہ کی طرف عدول ربّ کی مرضی کے ساتھ چلنے کی تربیت ہے او ر یہ مذہب کا مقصود ِ حقیقی بھی ہے۔
٭ ساتواں فائدہ یہ ظاہر ہوا کہ اس میں صرف قبلہ نہیں کہا گیا ’’ان کا قبلہ ‘‘ کہا گیا ۔ اس میں نفسیاتی اعتبار سے تشویق کا ابھار بھی ہے اور غیرت دینی کا شعور بھی ہے۔
٭ آٹھوں فائدہ محبوب ؐ سے یہ کہلوانا ہے کہ فرما دو : مشرق مغرب اللہ کے لئے ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ مکان و زماں بذات ِ خود معبود نہیں، جہتیں اور سمتیں اپنی ذات میں کوئی تقدس نہیں رکھتیں اصل چیز اللہ کا حکم ماننا ہے۔
٭ نواں فائدہ یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ مشیت اللہ ہی کی معتبر ہے۔
٭ دسواں فائدہ ہدایت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
٭ گیارہواں فائدہ یہ کہ قبلہ کی طرف اُمت کا متوجہ ہونا رسول معظم ؐ کوخوش کرنا ہے۔
٭ بارہواں فائدہ یہ ہے کہ معلوم رکھا جائے کہ شریعت کے ساتھ معارضت سفاہت ہی نہیں گمراہی بھی ہے اس طرح کہ شریعت صراط مستقیم ہے اور اس پر چلنا ہدایت ہے اور ہدایت جہاں نہ ہو وہاں گمراہی ہی گمراہی بچتی ہے۔
٭ تیرہواں فائدہ یہ ہے کہ اُمت ّ مصطفویہ کی فضلیت یہ ٹھہری کہ اُسے افضل البیت کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ملا ۔
٭ چودہواں فائدہ سیدھے راستے کے نشان کا پتہ چل جانا ہے اور شعائر اللہ کی تعظیم ہے جیسے کعبہ یا مقام ابراہیم کا احترام ہے۔
٭ پندرہواں فائدہ یہ ہے کہ راستے کی صفت میں دو باتیں بتائی گئیں : ایک راستے کا سیدھا اور کھلا ہونا اور دوسرا راستے کا ٹیڑھا نہ ہونا یعنی منزل تک پہنچانے والا ہونا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں