565

سورۃ بقرہ کی آیات 144،145کی تفسیر


(144) ہم آپ کے چہرے کو آسمان میں بار بار پھیرنا دیکھ رہے ہیں تو ہم ضروری ہی پھیر دیں گے آپ کو اس قبلہ کی طرف جدھر آپ راضی ہوں گے ، راضی رہو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف پھیر لو اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہروں کو اسی کی طرف پھیرو اور یقین رکھو کہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب ّ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں اس سے جو وہ کرتے ہیں ۔
(145)اور اگر آپ لے آئیں ساری ہی آیتیں ان کے پاس جنہیں کتاب دی گئی ہے ، پیروی نہیں کریں گے آپ کے قبلہ کی اور آپ تابع نہیں ہیں ان کے قبلہ کے ، ان کی حالت تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے قبلہ کے تابع ہو جائیں (قاری قرآن ) اور اگر تو نے ا ن کی خواہشات کی پیروی شروع کر دی بعد ا س کے کہ آچکا تمہارے پاس علم تو یقینا تو ظالموں سے ہو گا ۔
’’ہم آپ کے چہرے کو آسمان میں بار بار پھیرنا دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرور ہی پھیر دیں گے آپ کو اس قبلہ کی طرف جدھر آپ راضی ہوں گے ، راضی رہو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف پھیر لو اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہروں کو اسی کی طرف پھیرو اور یقین رکھو کہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں اس سے جو وہ کرتے ہیں ۔‘‘
اس آیت کا عنوان اور عمود حضور ؐ کا چہرہ ہے ۔ آپ نے ایک سچی اور تاریخ بدل آرزو چہرے پر سجا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ نور دیکھنے والے نے اوپر نظر اٹھا کر نور کے سوا اور کیا دیکھنا تھا ۔ تقرب اور قرب کے جلوے بقول کسے رنگ اور آواز سے بلند ہوتے ہیں ، جہاں صرف نور ہوتا ہے ، روشنی ہوتی ہے وہاں آرزوئیں طلب کی روشنی لے کر چمکتی ہیں اور عطائیں صدق دیکھنے والوں کوکائنات کی کوئی چیز نہیں جس سے نواز نہ دیتی ہوں ۔
شہر نور ’’مدینہ ‘‘ میں جب حضور ؐ کا ورود ہوا کچھ عرصہ کے لئے جان ِ رحمت نے قدس کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا فرمائیں۔ آپ کا ایسا کرنا یقینا وحی سے تھا لیکن یہود جن کی سرشت میں شرارت تھی ، پروپیگنڈا شروع کر دیا ، دیکھو جی محمد ؐ ویسے تو ہمارے دین کی کسی چیز کو قبول نہیں کرتے لیکن نماز ہمارے قبلے کی طرف ہی منہ کر کے ادا کرتے ہیں۔فطری بات تھی حضور ؐ کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ قبلہ کعبہ کو بنا دیا جائے تو دینی دعوت میں جان پیدا ہو جائے گی اور عرب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں دلچسپی محسوس کرنے لگ جائیں گے چنانچہ آپ کی آرزو تڑپ بن گئی اور چشم منتظر سے آسمان کی طرف بار بار دیکھنے لگ گئے ۔
مواہب اور سبیل الرشاد میں ہے کہ آپ ؐ براء کے انتقال کے بعد ام بشر بن براء کے گھر تشریف لے گئے ۔ ام بشر نے آپ ؐ کے لئے کھانا تیار کیا ۔ وہاں ہی آپ ؐ نے ظہر کی نماز اپنے اصحاب کی معیت میں ادا کی ۔مسجد بنی سلمہ میں آپ نے نماز شروع فرمائی ، جب دور رکعت ادا ہو گئیں تو جبرائیل نے کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا اشارہ کیا ۔آپ نماز کے اندر ہی میزاب رحمت کی جانب مڑ گئے ۔ نماز میں جتنے مرد اور عورتیں تھیں وہ بھی کعبہ کی طرف مڑ گئیں ۔ واحدی نے اسی قصہ کو قوی کہا (38)
آیت میں ’’ قد نرٰی ‘‘ کا لفظ جو دلچسپیاں لئے ہوئے ہے اس پر پیر کر م شاہ الازہری کی خوبصورت تفسیر ملاحظہ ہو (39):
حضور ؐ کی چشم تمنا دررحمت کی طرف بار بار اٹھتی ۔اللہ کو اپنے محبوب کی ہی ادا اتنی پسند آئی کہ فرمایا محبوب !جو قبلہ تمہیں پسند وہی ہمیں پسند ، تیری خوشی کے لئے ہم کعبہ کو قبلہ مقرر فرماتے ہیں۔ ’’ قد نرٰی ‘‘کہنے میں اس امر کی طرف اشارہ ہے، تیرے رخ انور کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ایسی چیز نہیںجسے قصہ ماضی بنا کر بیان کیا جائے بلکہ چشم قدرت اس منظر روح پرور کا اب بھی یو نہی مشاہدہ فرما رہی ہے، حضور ؐ کی شان محبوبیت کا کیا کہنا ، ’’ سبحان اللہ ‘‘
آیت میں تکرار ہے واحد کبھی جمع ، کعبہ کی طرف منہ پھیر لے اور منہ پھیر لو ،اس میں خوشیوں اور جذبوں کی معراج ہے ۔رنگوں کی برسات ہے اور احساسات کا ہجوم ہے ۔ لگتا ہے خوشیوں اور مسرتوں کی برات چلی ہے ، عبادت کی روح میں دھوم مچی ہوئی ہے ، لگتا ہے حوروغلماں بھی آج مسلمانوں کے ساتھ طرب انگیز حمد یہ نغمے الاپ رہے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ قبلہ کی تبدیلی نے ماحول کو مرتعش کر دیا تھا ، امکان تھا نئے مسلمان پروپیگنڈہ کے زہر یلے اثرات کا شکار نہ ہو جائیں اس لئے کبھی حضور ؐ سے اور کبھی عام مسلمانوں سے کہا گیا : مٹر جائو کعبہ کی طرف ، اس میں ایک عقیدہ کو عمل اور تحریک بنا دیا گیا۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ آیت میں کعبہ کی بجائے ’’ شطر المسجد الحرام ‘‘ آیا ہے اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ دور کے علاقے میں نماز پڑھنے والوں کے لئے کعبہ کا حقیقی تعین مشکل سا معاملہ ہے اس لئے ’’شطر ‘‘ جس کا مطلب ’’طرف ‘‘ ہوتا ہے اس پور ی سمت کو معتبر قرار دے دیا گیا۔اس بات کو زیر نظر رکھ لیا جائے تو یہ سارے اقوال معنیٰ آفرینی میں یکساں ہو جاتے ہیں ۔ ’’شطر‘ ‘ سے مراد پورے کعبے کے سامنے ہو جانا ہے ۔
ابن عمر رضی اللہ عہنا نے کیا (40):
’’ کعبہ کے پرنالہ کے سامنے ، اہل اندلس اور اہل مدینہ کا قبلہ اسی جانب ہے ‘‘ ۔
رسول اللہ ؐ نے ا رشاد فرمایا (41)
’’ بیت اللہ اہل مسجد کے لئے قبلہ ہے اور مسجد اہل حرم کے لئے قبلہ ہے اور حرم میری اُمت کے مشرق مغرب میں رہنے والے اہل زمین کا قبلہ ہے ‘‘۔
حضور ؐ کا مبارک قول ہر پیچیدگی کو آسانی میں ڈھال دینے والا ہے۔
نوبلہ بنت مسلم کی روایت میں ہے (42):
’’ ہم نوگ بنو حارثہ کی مسجد میں ظہر یا عصر ادا کر رہے تھے ۔ ہمارا منہ قدس کی طرف تھا ۔دو رکعت پڑھ چکے تو کسی نے اطلاع دی کہ قبلہ کعبہ ہو گیا ہے ۔ہم نے نماز کے اندر ہی کعبہ کی طرف منہ موڑ لیا۔ہم گھومے تو مردوں کی جگہ عورتیں اور عورتوں کی جگہ مرد آ گئے ۔ آپ ؐ کی اطاعت کی یہ خبر پہنچی تو آپ بہت خوش ہوئے۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت کی تفہیم میں جو احادیث اوراحوال دور نبوی کے حوالے سے رقم کئے گئے ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رحمت عالم کی فیضان تربیت نے اس سوسائٹی کو زندگی عطا کر دی گئی ۔
ایمان اور خود اعتمادی نے فضا کو باہمی اعتماد کا حسن بھی عطا کر دیا تھا۔وہ معمولی خبر اور اطلاع پر قبلہ ء سابق کو چھوڑ کر کعبہ کی طرف مڑ گئے تھے ۔وحی کا نزول تو جان ِ رسالت پر ہوا تھا انہوں نے تو محض منشائے رسالت کو بھانپ کر وفا ، اطاعت اور اتباع کے نقوش ِ جمیلہ اور اق تاریخ میں ثبت کر دئے تھے ،اسلام اور دین مصطفوی کی روح تو یہی ہے ۔
’’و ان لذین اوتواالکتب ‘‘
اہل کتاب میں سے وہ لوگ جنہوں نے نبوی دعوت کے خلاف محاذ بنا رکھا تھا ، قرآن مجید یہاں ان کے تعصب اور ضد کا حوالہ دے رہا ہے کہ ان کی پتلی حالت دیکھئے کہ کتاب رکھنے کے باوجود اپنی تاریخ کو مسخ کر رہے تھے۔مجہول کا صیغہ بتا رہا ہے کہ یہ لوگ اپنی کارستانیوں او ر کرتوتوں کی وجہ سے کوئی قابل ِ ذکر لوگ نہیں ہیں۔ان کا حوالہ صرف اس لئے دیا جا رہا ہے کہ دوسرے اہل ایمان ان سے عبرت گیری کریں ۔
’’ لیعلمون انہ الحق من ربھم ‘‘
یہود و نصاریٰ اور ان کے حاشیہ نشینوں کو اچھی طرح یہ معلوم ہے کہ پیغمبر ؐ کچھ دنوں کے لئے قدس کی طرف نماز پڑھیں گے اور کعبہ ہی کو اللہ کے حکم کے مطابق قبلہ بنا لیں گے ۔ تحویل کعبہ سے لے کر قرآنی ہدایات میں سے ایک ایک چیز ہے ، حق ہے۔ یہ سب کچھ ان کی معلومات میں ہے لیکن ان کے نفسوں کا بغض ، ان کے دلوں کا حسد اور ان کی سوچوں کی ڈھٹائی انہیں حق سے قریب نہیں ہونے دیتی (43)۔
’’ وما اللہ بغافل عمایعملون ‘‘
اس جملہ کا تعلق مومنین سے بھی ہو سکتا ہے اور یہود سے بھی ہو سکتا ہے ۔ ابن عباس ؓ فرماتے تھے کہ مومنین سے اس کا تعلق یوں بنتا ہے کہ اللہ فرما رہا ہے کہ اے غلامان ِ رسول اللہ کو معلوم ہے کہ تم اس کی رضا طلبی میں اطاعت کا قلادہ گلے میں ڈالے ہوئے ہو ، وہ تمہارے اس عمل خیر سے بے توجہ نہیں، اس کا فیصلہ ہے کہ اس نے تمہیں ثواب و جزا دینی ہے۔ اس طرح یہود نے تعصب اور حسد کا اظہار کر کے اللہ کا غضب و سخط گما گیا ہے۔ اللہ تعالی دنیا و آخرت میں ان کی ذلتوں سے غافل نہیں وہ ان رذیل لوگوں کے تمام کرتوتوں سے آگاہ ہے (44) ۔
آیت میں اسباق :
1۔ سچی آرزو ئیں اور تمنائیں ایک نہ ایک دن اللہ ضرور پوری فرما دیتا ہے ۔
2۔ مشاہدہ اور مراقبہ اصلاح احوال میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔
3۔حضور ؐ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام محبوبیت حاصل تھا ۔
4۔ قوموں کی فکری اور تحریکی زندگی میں روحانی مرکز کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔
5۔ اہل اللہ کے چہروں کو دیکھنا روحانی زندگی میں ایک میٹھی منزل ہے ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے ۔ حضور ؐ فرمایا کرتے تھے کہ علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔
6۔ اللہ کی رضا حضور ؐ کی رضا میں مضمر ہے ۔
7۔عبادت میں قبلہ کی طرف یکسوئی کے ساتھ منہ موڑنا اطمینان کا باعث ہوتا ہے ۔
8۔ مسجد الحرام کی بڑی اہمیت ہے ، قرآن خود اس کی فضیلت بیان کرتا ہے ، مسلمانوں کو اپنے اس مرکز سے والہانہ لگائو رکھنا چاہیے ۔
9۔دین کے بارے میں غیر مسلم کیا سوچتے ہیں ؟ یہ آیت بتاتی ہے کہ تحریکی زندگی میں یہ بھی ضروری ہے ۔
10۔حق کی جستجو اور تاریخ دین کی اساسی ضرورت ہے۔
11۔ ہر انسان کی فرد عمل اللہ کے سامنے ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔
’’اور اگر آپ لے آئیں ساری ہی آیتیں ان کے پاس جنہیں کتاب دی گئی ہے ، پیروی نہیں کر یں گے آپ کے قبلہ کی اور آپ تابع نہیں ہے ان کے قبلہ کے ان کی حالت تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے قبلہ کے تابع ہو جائیں (قاری قرآن ) اور اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی شروع کر دی بعد اس کے کہ آپ کا تمہارے پاس علم تو یقینا تو ظالموں سے ہو گا ‘‘۔
قرآن مجید نے اس آیت میں ایک تعجب انگیز حقیقت بیان فرمائی کہ یہود و نصاریٰ کی باہمی عداوت کا یہ حال ہے کہ یہ ایک دوسرے کا قبلہ بھی نہیں مانتے ۔ ایک قدس کے مشرقی حصہ کو اور دوسرا غربی حصہ کا قبلہ مانتا ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائیوں نے یہودیوں کے قبلہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ان کی ہیکل کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا تھا اور یہود یوں کے لئے ممنوع ہو گیا تھا کہ وہ اس شہر میں کبھی داخل ہو سکیں لیکن ان کے برعکس اسلام دشمنی میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ بن چکے تھے۔ان کی رفاقتوں کے عقب میں ان کی منافتوں کی پوشیدہ تاریخ کو قرآن حکیم نے کھول کر بیان کر دیا اور تاریخ کو استد لال کی اساس بنا دیا ۔
لفظ آیت کی تشریح
علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں (45)۔
’’ ایۃ فعلہ ‘‘ کے وزن پر ہے ۔ اصل میں ’’یا ‘‘ مشد د تھی ۔ ثقل کی وجہ سے اول ’’ یا ‘ ‘ کو ماقبل ’’ فتحہ ‘‘ کی وجہ سے الف سے بدل دیا گیا ۔ اب ’’الا یہ ‘‘ کا مفہوم اور معنیٰ جہت اور علامت ہوتا ہے ۔ ’’ ایہ لرجل ‘‘ کا معنیٰ اس کی ذات ہوتی ہے ۔ یہ لفظ جماعت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کی آیت کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بھی حروف کی نشان دار جماعت ہوتی ہے ‘‘۔
تاالعروس نے لکھا کہ راستہ کے نشانات بھی آیات کہلاتے ہیں (46)۔
لغات القرآن کے مئولف نے لکھا کر ہر اس ظاہر شئی کو آیت کہتے ہیں جو کسی چھپی ہوئی شئی کا لازمی خاصہ ہو اور جب کوئی شخص اس ظاہری شئی کا ادراک کر لے تو وہ جان لے کر اس نے اس پوشیدہ چیز کا ادراک یا اندازہ کر لیا ہے (47)۔
قرآن مجید نے کائنات میںبکھرے ہوئے مظاہر فطرف کو بھی آیات سے تعبیر کیا ہے۔ خصوصاً ابنیاء کے معجزات بھی آیات ہی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ عربی زبان میں ’’ ایاالنبات ‘ ‘ پودوں کے پھولوں اور خوبصورتی کو کہتے ہیں ۔ابن فارس نے لکھا کہ کسی جگہ رک کر غور و فکر کرنا بھی ’’ نایا ‘‘ کہلاتا ہے (48)۔
’’ ولین الیعت اھوآء ھم ‘‘
’’اھوآ ء ھم ھوی ‘‘ سے ہے ، یہ وہ چیز ہوتی ہے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو۔اردو میں خواہش سے اس کو تعبیر کیا جاتا ہے ، اس جملہ میں مخالف کون ہے ؟ فخر الدین رازی نے اس میں تین قول نقل کئے ہیں (48):
٭پہلا قول یہ ہے کہ رسول معظم ؐ مخاطب ہیں ۔
٭دوسرا قول یہ ہے کہ رسول معظم ؐ اور آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ مخاطب ہیں ۔
٭ تیسرا قول یہ ہے کہ مخاطب حضور ؐ ہیں لیکن مراد دیگر علماء ہیں ۔
خواہشات کی پیروی اور حضور ؐ کے درمیان زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ قضیہ شرطیہ ہے اور اس قضیہ کے صدق کے لئے یہ لازم نہیں کہ اس کے طرفین صادق ہوں۔ اگر کوئی بوڑھا یہ کہے کہ اگر میں جوان ہو گیا تو یہ کام کروں گا ظاہر ہے یہاں جو ان ہونا اور کام کا لازم آنا دونوں ناممکن ہوں گے (50)۔
علامہ قرطبی کی نفیس عبارت
’’ اس آیت میں خطاب حضرت محمد ؐ کو ہے اور مراد آپ کی اُمت کے وہ لوگ ہیں جن کا خواہش کی پیروی کرنا جائز ہے اور وہ لوگ خواہش کی پیروی کرنے سے ظالم ہو سکتے ہیں ۔ حضور بنی کریم ؐ کے لئے ایسا عمل سرے سے جائز ہی نہیں جس کی وجہ سے آپ ؐ ظالم ہو جائیں۔حضور ؐ کی عصمت اور آپ ؐ سے ایسے اعمال سر زونہ ہونے کی قطعیت کی وجہ سے امت کے ارادہ پر مجمول ہے (51)۔
آیت میں اسباق
1۔ انسانی افکار میں آیات باری کا تتبع فلاح او ر کامیابی کا ضامن ہوتا ہے ۔
2۔ معجزات اور آیات پر یقین اور تیقن ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔
3۔ اسلامی قیادت کی اہم صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہشات کی تابع نہیں ہوتی ۔
4۔ حق کی پیروی پیغمبرانہ کردار کا ہمیشہ مرکز ہوتا ہے ۔
5۔دل میں حسد اور بغض ہونے کی صورت میں دلائل بے اثر ہو جاتے ہیں ۔
6۔ خواہشات کی پیروی انسان کو حق سے محروم کر کے ظلم کے دائرہ میں جا داخل کرتی ہے ۔
7۔ تمام لوگوں کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اس لئے کہ اسلام اور قرآن میں خود احتسابی کی بڑی اہمیت ہے ۔
8۔ روحانی اعتبار سے اپنے قبلہ سے وابستگی زندگی کے چمن میں فضیلتوں کے پھول پیدا کرتی ہے ۔
9۔ دین کا مرجع طبیعت نہیں قرآن حکیم ہے سو امرا جعت قرآن کی طرف ہونی چاہیے ۔
10۔ کتاب کا حق اس سے کما حقہ استفادہ کرنا ہوتا ہے محض وابستگی کوئی بلیغ معنی نہیں رکھتی ۔
11۔ آیت میں ایک علم کا ذکر ہے ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد معجزات اور دلائل قرآنی ہیں ۔
12۔ علم کی فضیلت مسلمہ ہے ۔
13۔ علم کو ایمان آفرین اور کردار ساز ہونا چاہیے ۔
14۔تاریخ کے علم کو استدلال میں فنی اور اساسی اہمیت حاصل ہے ، یہاں یہود و نصاریٰ کے اختلافات کی تاریخ کو بطور دلیل بیان کیا گیا ہے ۔
15۔ ظلم بہت بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں