586

سورۃ البقرہ آیات 146،147کی تفسیر


آیت :(146)وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ پہنچانتے ہیں انہیں جیسے بیٹوں کو پہنچانتے ہیں اور یقینا ان میں ایک گروہ ہے جو حق کو چھپاتا رہے گا اور ایسا وہ جان بوجھ کر کریں گے ۔
کتاب حقائق کا آئینہ ہوتا ہے اہل کتاب اپنی کتب میں رسول رحمت ؐ کے تمام اوصاف جان چکے تھے ۔ آپ ؐ کا اسم گرامی ، خصوصیات اور نشانیاں وہ لوگ جانتے تھے۔جیسے بچے کے اوصاف سے انسان آگاہ ہوتا ہے اس معاشرہ کے پڑھے لکھے لوگ حضور ؐ کو پہلی نظرہی میںپہچان لیتے ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ اولاد کی محبت صرف مشاہدہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ قلبی اور روحی محبت کی عکاس ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بھی حضور ؐ کو نفسیاتی تاریخی اور قلبی میلانات سے پہچانتے تھے لیکن حسد اور بغض نے ان کی آنکھوں میں مٹی ڈال دی تھی ۔ ان کے لئے انصاف کرنا جاہلی تعصبات کی بنا پر مشکل ہو گیا تھا وگرنہ ان کی کتابیں حضور ؐ کے ذکر سے بھری ہوئی تھیں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے حضرت عبداللہ سلام رضی عنہ سے پوچھا کہ تم حضرت محمد ؐ کو ایسے ہی جانتے ہو جیسے تم اپنی اولاد کو پہچانتے ہو ؟عبداللہ بن سلام رضی عنہ کہنے لگے ’’بلکہ اس سے بھی زیادہ ‘‘ اس لئے کہ آسمانوں کا امین زمین کے امین پر نازل ہوا یعنی جبرائیل علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور حضرت محمد ؐ کی نعتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ ؐ میں موجود ہیں ہمیں کیا ہے کہ ہم اپنے نبی کو نہ پہچانیں ، ہمیں اپنی اولادوں میں شک ہو سکتا ہے لیکن حضور ؐ کے نبی برحق ہونے میں شک نہیں ہو سکتا (52)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے نے حضرت کعب احبار سے پوچھا کہ تورات میں حضرت محمد ؐ کے اوصاف کس طرح بیان ہوئے ہیں ، وہ فرمانے لگے ہم نے تو رات میں لکھا پایا ہے (53):
ان کا نام محمد ہے ، ان کے والد کا نام عبداللہ ہو گا ، وہ مکہ میں پیدا ہوں گے اور طابہ کی طرف ہجرت کریں گے اور شام کا علاقہ ان کے قبضے میں آ جائے گا۔ ان کی زبان صاف ستھری ہو گی ، وہ بازاروں میں شور مچانے والے نہ ہوں گے اور برائی کا بدلہ وہ برائی سے نہیں لیں گے ۔ وہ ہمیشہ درگزر کریں گے ، ان کی اُمت کثرت سے حمد کرنے والی ہوگی اور شدت ، نرمی اور خوشی ، غم ہر موقع پر اللہ کی حمد کرے گی ، وہ بلندی پر چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کہیں گے ۔ آپ کی اُمت دست و پاکو وضو سے منور کرنے والی ہوگی ، وہ وسط ِ کمر پر تہہ بند باندھیں گے ، وہ نمازوں میں لڑائی کی طرح صف بندی کریں گے،مسجدوں کے اندر ان کی آوازیں شہد کی مکھی کی آواز سے بھی پست ہو ں گی ، پاس والا بھی نہ سن سکے گا۔
یعرفون میں ضمیر کا مرجع
علامہ فخر الدین رازی نے لکھا کہ یہ ضمیر رسول اللہ ؐ طرف لوٹ رہی ہے مطلب یہ ہوا کہ انہیں حضور ؐ کی معرفت اپنی اولادوں سے بھی زیادہ تھی (54)۔
رازی نے اس ضمن میں دوسرا قول یہ لکھا کہ ضمیر کا تعلق تحویل قبلہ کے ساتھ ہے یعنی اہل کتاب میں قبلہ کی تبدیلی کا معاملہ اتنا معروف تھا جیسا اولادیں انسان پر مخفی نہیں ہوتیں (55)۔
تیسرا قول شہاب الدین حلبی کا ہے کہ ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے یعنی وہ لوگ قرآن کی دعوت سے اس طرح آگاہ تھے جیسے وہ اپنی اولادوں سے واقف ہوتے ہیں ( 56)۔
چوتھا قول ابوحیان اندلسی کا ہے کہ ضمیر کا مرجع مسجد الحرام ہے (57)۔
اور اسی طرح پانچواں قول ضمیر کا موعود العلم کے ہونے کا ہے (58)۔
آیت میں فرِیقاً کی تعبیر
حق ناشناس لوگ خود کو کتنا ہی منظم کیوں نہ کرلیں وہ امت نہیں فرقہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی رذیل اور ذلیل سوچیں اُمت کو ادھیڑتی ہیں ، تقسیم کرتی ہیں ٹکڑوں میں بانٹتی ہیں ، دلوں کو بکھیرتی ہیں اور قومی اورملی وجود کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں۔ قرآن مجید نے یہود ونصاریٰ کے اندر کا ایک گروہ فرقہ قرار دیا اور کہا کہ کتمانِ حق ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ ان کے پاس دلوں کو جوڑنے والا مقناطیس موجود نہیں ہوتا ۔ انہوں نے نفوس کی پٹاریوں میں دہشت ناک اور زہر یلے ناگ پال رکھتے ہیں اور علم و حق کو دیبز اندھیروں میں چھپانے کا دھندا یہ لوگ جان بوجھ کر کرتے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ جاننے والوں کا درجہ اور فضلیت بھی بہت ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برتنے سے وبال بھی خوفناک ہوتا ہے۔ علم والوں کو علم کے چراغوں کی روشنی سب سے پہلے خود کو عطا کرنی چاہئے اورپھر اس روشنی سے معاشرہ منور کر نا چائیے۔ انسان کا اپنا اندر پیاس کی شدت سے چیختا رہے اور انسان سخاوت کے جام پیٹھ پر لاد کر صحرائے ربُع الخالی کا مسافر بنا رہے ۔ مچھلیوں کے سر بندروں کے دھڑوں سے جوڑ کر پریاں محور قص کرنا فریب نظر کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔
تعبیر آیت میں علمی افادات
1۔ آیت میں پانچ قسم کی معرفتیں ہیں جنہیں حاصل کرنے کی تگ و دو ہونی چاہیے:۔
(1 )۔ خدا شناسی
(2)۔رسول شناسی
(3)۔ اولاد شناسی
(4)۔خود شناسی
(5)۔ اور کتاب شناسی
راغب اصفہانی فرماتے ہیں (59)۔
ان میں سب سے آسان اولاد شناسی ہے ۔ ماں باپ کے پیدا ہوتے ہی اسے پہچان لیتے ہیں لیکن باقی چاروں کی معرفتیں رسول شناسی کی محتاج رہتی ہیں۔
2۔علامہ آفندی لکھتے ہیں کہ انسان کے تین مرتبے ہیں :
(1)۔مرتبہ التقلید
یہ مرتبہ عوام کا ہے ۔
(2)۔مرتبہ التحقیق والایقان
یہ مجتہدین کو حاصل ہوتا ہے جیسے ائمہ رابعہ ہیں ۔
(3)۔مرتبہ المشاہدہ
یہ کاملین کا مرتبہ ہے ۔
یہ رتبہ اس میدان کے شہسواروں کی صحبت میں رہنے سے حاصل ہوتا ہے (60) ان کی بہترین مثال ائمہ اہل بیت ہیں ۔
(3)۔کتاب دانی کا اثر فکر سازی اورعمل آفرینی پر مرتب ہونا چاہیے۔
(4)فرقہ بازی بری چیز ہے ۔
(5)۔ کتمان حق جرم ہے اور حق شناسی اطمینان کا سرچشمہ ہے۔
(6)۔مردم شناسی مذہب کی تربیت کی پہلی عطا ہوتی ہے ۔
(7) عرفان حق میں تنقید نہیں ہوتی حق کی تبلیغ ہوتی ہے ۔
آیت :147
’’ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے لہٰذا اُن میں سے نہ ہو جانا جو شک ہی کرتے رہتے ہیں ‘‘۔
آیت میں تین تفہیمات ہیں :
پہلے ہم بحث کرتے ہیں کہ ’’ الممترین ‘‘ کا معنٰی کیا ہے ۔ یہ لفظ ’’امترا ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ یہ مادہ جہاں بھی استعمال ہو شک کرنے کا معنیٰ اس میں ضرور پایا جاتا ہے (61)۔
تاج العروس نے لکھا کہ ’’ امترا ‘‘ کا معنیٰ جھگڑنا ہوتا ہے اس لئے ہر فریق ایک دوسرے سے شاکی ہوتا ہے (62)۔
ابن جریر طبری نے کہا یہ لفظ کبھی یقین اور شک کی درمیانی کیفیت کے لئے استعمال ہوتاہے لیکن زیادہ تر یہ شک ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے (63)۔
یاد رہے کہ ابن عطیہ نے ابن جریر کا تعاقب کیا ہے اورلکھا کہ یہ لفظ ہر جگہ شک کے معنوں میں نہیں آتا ۔ عربی ادب میں ’’الممترین ‘‘ سے مراد وہ لوگ بھی لئے گئے ہیں جو اپنے پیروں کے ساتھ گھوڑوں کو تیز چلاتے ہیں (64)۔
’’مریا ‘‘ اونٹنی کی کھیری کو اس غرض سے مس کرنا ہوتا ہے کہ وہ دودھ تھنوں میں اتار دے ’’مریہ ‘‘ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ مستعمل ہے (65)۔
دوسری بحث ’’الحق ‘‘ کے اعراب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔
علامہ شہاب الدین سمین جلی اپنی شہرئہ آفاق تفسیر ’’ درالمصون ‘‘ میں لکھتے ہیں (66):
’’ الحق ‘‘ پر اعراب کی تین وجوہ ہیں :
٭ پہلی یہ ہے کہ یہ مبتدا ہے اور بعد والا جار مجرور اس کے خبر ہے ۔ اس صورت میں الف لام دوحالتوں سے خالی نہ گا : پہلی یہ کہ یہ عہدی ہے ، اشارہ اس طرف ہوگا کہ حق دہی ہے جس پر رسول معظم ہیں یا پھر حق سے مراد وہ ہے جو ’’ لیکتمو ن الحق ‘‘ میں ہے جیسے یہود چھپاتے تھے اور وہ صفات محمد یہ ہیں ۔ دونوں قبلوں کی طرف نمازپڑھنا بھی آپ ہی کی نعت تھی ۔
٭ اعراب کی دوسری صورت یہ ہو گی کہ یہ خبر ہے جس کا مبتدا مخدوف ہے اور وہ ہے ’’ ھو الحق من ربک ‘‘’’ وہی حق ہے تیرے رب کی جانب سے ‘‘دریں صورت ضمیر کا مرجع ’’ الحق المکتوم ‘‘ ہو گا ۔
٭تیسری صورت یہ ہے کہ یہ مبتدا ہے جس کی خبر محذوف ہے اور مقدر عبارت یہ ہو گی ’’ الحق من ربک یعر فونہ ‘‘ ۔
حضرت علی المرتضیٰ ’’ الحق ‘‘ کو منصوب بھی پڑھتے تھے اس کی ایک وجہ ’’ الحق المکتوم ‘‘ سے اس کا بدل واقع ہونا ہے ۔ زمخشری نے یہی کہا ۔ دوسری وجہ ’’ فلا تکو نن ‘‘ کی وجہ سے اضمار ہونے کی بنا پر یہ منصوبہ ہو گا اور تیسری وجہ ’’یعلمون ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہونا ہے ۔ معنیٰ یہ ہو گا وہ حق جانتے ہیں جو تیرے رب کی طرف سے ہونے والا ہے (67)۔
تیسری بحث ان تربیتی اسباق کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جو اس آیت میں مضمر ہیں :
1۔ حق و ہی ہوتا ہے جو پروردگار کی طرف سے ہوتا ہے ۔
2۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقدار حقہ کی تلاش میں وحی کے نظام کی پیروی کرے ۔
3۔پرورش اور تربیت دونوں کے لئے نظام وہی درست ہے جس میں پیغام ربوبیت شامل ہو ۔
4۔’’ من ‘‘ آیات میں ہر جگہ بعضیہ نہیں ہوتا بعض مقامات پر تشریفیہ بھی ہوتا ہے اگر یہاں ’’من ‘‘ کو ہردومعنوں میں لیا جا ئے تو کہا جا سکتا ہے شرف و منزلت اور قدرو افتخار اس کے لئے ہے جو رب کی طرف سے ہو ۔
5۔آیت سختی سے منع کرتی ہے کہ ممترین میں سے نہیں ہونا چاہیے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ خطاب اگر چہ حضور ؐ سے ہے لیکن مراد اُمت کے لوگ ہیں ۔ نصیحت یہ ہے کہ قرآنی احکام کو یقین اور محکم اعتقاد سے اٹھانا چاہیے۔اس میں تردو بہتر نہیں ہوتا ۔
6۔نفسیاتی اعتبار سے اس شخص کے لئے زندگی وبال ہوتی ہے جو ہر چیز میں عیب تلاش کرتا ہو ۔ متر د د رہنا ایک کمزور ی ہے اس کی موجودگی میں انسان ترقی کے لئے چمن سے گل چینی نہیں کر سکتا ہے۔
7۔ یقینیات سے محرومی انسان کو زندگی میں بے روح ممی لاش بنا دیتا ہے ۔
8۔قرآن مجید کا یہ اسلوب کہ یہود و نصاریٰ کی منفی زندگی پر تعاقب کرتے ہوئے فوراً روئے سخن مسلمانوں کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔یہ احسن اسلوب پر نوازش ہے۔
9۔ قرآن مجید نے سمجھایا کہ بحث و جدال کی مسئلہ کا حل نہیں ، حق کا تتبع صراط مستقیم کا روشن نشان ہے۔
10۔انسان کو اندھا گونگا اور بہرہ بن کر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔ حق جدھر بھی ہو تسلیم کرنے کی جرأت کرنی چاہئے۔ علی مع الحق مع علی کی ترکیبیں ظنی تو نہیں حضور ؐ کی نوازش ہیں۔
11۔ کہا جا سکتا ہے کہ حق کہتے ہی اس کو ہیں جو تردو سے بالا ہو ۔ لوگوں کی بے خبری کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ۔
12۔ اگر آپ کی زندگی کی کھیری میں دودھ ہے تو لوگ تجربوں کے تھن آپ کے ساتھ جوڑ ہی لیں گے۔ خود کو منفعت آفرین بنائیں ۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ لوگوں میں سے اچھا وہی ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے ‘‘ ۔
13۔ ’’الحق ‘‘ میں قال سے نکال کر حال میں داخل کرد یا گیا ہے کہ نماز میں صرف کعبہ کی طرف گھومنا ہی کافی نہیں بار گاہ صمد یت میں پیار کی کیفیات کے ساتھ استغراق اور یکسوئی بھی ضروری ہے ۔
14۔ آیت میں ’’الحق ‘‘ اور ’’امترا ‘‘ دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر بیان کیا گیا ہے ۔ فیصلے کرتے وقت مثبت اور منفی دونوں پہلو زیر نظر رکھنے چاہیں۔
15۔آیت کی تعبیر میں بہرحال یہ سبق موجود ہے کہ مبارک وہی ہے جو اللہ کے حکم کا پابند ہے ۔
16۔ حاکم ، رب اور محبوب اللہ ہی کو بنا لینا اور اللہ ہی کو سمجھنا خوفناک بکھیڑوں سے نجات دلا دیتا ہے ۔
17۔توجہ ، التفات اور یکسوئی کے ساتھ بارگاہ ربوبیت میں معراجعت ، اسجابت اور قبولیت کی بنیاد ہے ۔
18۔فیصلوں ، اقدامات اور زندگی کی پختگی ’’ الحق ‘‘ ہی میں ہے اس لئے کہ حق کا معنیٰ پکا ہونا ، پختہ ہونا اور زور والا ہونا ہوتا ہے ۔
19۔رب کے علاوہ جس سے تعلق جوڑو گے وہ کمزور اور نا پختہ ہو گا ۔
20۔وہ شخص بہت میٹھا ہوتا ہے جو اپنے مالک ہی کی ہر بات کو سچ ، صدق اور حق کہتا ہے ، وہ اپنی بات کو منوانے کا حریص نہیں ہوتا ہے ، وہ محبوب ہی کی ہربات کو حق جانتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ووہ کبھی کبھی حق حق اور حق حق الاپتے انا الحق کہہ بیٹھتا ہے ۔ لفظوں کے مفتی اس کے ظاہری لباس کے رنگوں پر فتوی ٰ دے بیٹھے ہیں ۔مزیدار بات نہیں ، افتاء کا فیض بانٹنے والوں کو کوئی جانتا تک نہیں لیکن انا الحق کہنے والے ابھی تک عاشقانہ خیالات کے متلاطم سمندر میں صدق کی تلاش میں کہہ رہے ہیں حق کا کوئی ایک معنیٰ تھوڑا ہے ۔ محبوب کے لونگ کا لشکارا ہو یا آنکھوں کی ادائیں ، وہ حق ہی تو ہوتی ہیں۔ الحق حق ولو کان مر کاش کوئی سمجھ سکتا ۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں