312

خوراک، ادویات اور چھت کو ترستے فلسطینی


’’مَیں جون 2021کے وسط میں یروشلم میں اپنی ٹیم کے ساتھ خود موجود تھا جب اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری کرکے مظلوم فلسطینیوں کی تباہی، نسل کشی اور غارتگری کی پھر لہو رنگ واردات کی ہے۔ حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان باقاعدہ جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔ طاقتوروں نے مگر اس معاہدے کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔‘‘
یہ الفاظ جناب عبدالرزاق ساجد کے ہیں جو ابھی چند دن پہلے مقبوضہ فلسطین، یروشلم، بیت المقدس، محصور غزہ اور مغربی کنارے کا دَورہ کرکے واپس لندن آئے ہیں۔ عبدالرزاق ساجد کا بنیادی تعلق پاکستان سے ہے اور وہ عالمی فلاحی تنظیم ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین کی حیثیت میں برطانوی دارالحکومت میں فروکش ہیں۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جنھیں غزہ پرصہیونی اسرائیل کی وحشتناک بمباری کے بعد غزہ اور بیت المقدس جانے اور مظلوم فلسطینیوں کی دامے درمے امداد کرنے کے مواقعے میسر آئے ہیں۔
عبدالرزاق ساجد نے فون پر اپنی تفصیلی گفتگو میں مقبوضہ فلسطین اور محصور غزہ و مغربی کنارے کی جو مشاہداتی اور تاثراتی کہانیاں سنائی ہیں، سُن کر دکھ اور کرب سے آنکھیں بھر بھر آ تی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’مَیں اس سے پہلے بھی کئی بار غزہ، بیت المقدس کے آس پاس اور مغربی کنارے میں محصور مظلوم فلسطینیوں کے پاس گیا ہُوں، اُن کی خدمت کا کئی بار موقع ملا ہے لیکن اِس جون کو مَیں نے مظلوم و مقہور فلسطینیوں کی جو حالتِ زار دیکھی ہے، الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔‘‘ انھوں نے مقامی فلسطینیوں کے تعاون سے غزہ اور مغربی کنارے میں بسنے والے سیکڑوں مہجور و مجبور فلسطینیوں کی طبی، خوراک اور مالی امداد کے لیے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی شاخیں قائم کر رکھی ہیں۔
اس ناطے سے وہ فلسطینیوں کے سماجی، مالی، سیاسی اور نفسیاتی احوال سے براہِ راست آگاہ رہتے ہیں۔ حملہ آور صہیونی اسرائیل کے تازہ حملے اور غزہ کی تازہ ترین بربادی کے بعد وہ غزہ پہنچنے کے لیے پہلے مصر گئے اور پھر وہاں سے غزہ کی تنگ پٹی پر پھیلی خیمہ بستیوں میںمظلوم فلسطینیوں سے ملے۔ ساجد صاحب کہتے ہیں: ’’یہ خیمے اتنے پتلے اور کمزور ہیں کہ مصر اور فلسطین کی قیامت خیز گرمی کو بمشکل روک سکتے ہیں۔ وہاں نہ پانی کی اطمینان بخش سہولت ہے نہ خوراک میسر ہے اور نہ ہی جان بچانے والی ادویات دستیاب ہیں۔
بہت دُور واقع مصری دارالحکومت، قاہرہ، سے دوائیوں اور خوراک کے تھیلے لانا پڑتے ہیں۔ خاص طور پر فلسطینی مہاجر بچے اور خواتین اس قیامت خیز گرمی میں ایسی عذابناک زندگی گزار رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں رہنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ مہاجر فلسطینیوں پر ملازمتوں، روزی کمانے اور کاروبار کرنے کے سبھی دروازے بند ہیں‘‘۔
یہ عظیم انسانی المیہ ہے کہ تقریباً 25کلومیٹر لمبی اور 13کلومیٹر چوڑی غزہ کی تنگ سی پٹی میں لاکھوں مہاجر فلسطینی زندگی گزارنے پر مجبور بنا دیے گئے ہیں۔ بقول عبدالرزاق ساجد:’’اس زندگی کا اجیرن کر دینے والا تصور وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں سے وہ قیامتیں ملاحظہ کر رکھی ہوں۔ ان مشاہدات سے آنکھیں بار بار نمناک ہو جاتی ہیں۔
دہکتے خیموں کے نیچے بسنے والوں پر دھوپ نیزوں کی طرح برستی ہے۔ یہ دیکھ کر دل ڈوب سا گیا جب ہم نے صاف پانی کی سیکڑوں بوتلیں خیموں میں پناہ گزیں خواتین، مردوں اور بچوں میں تقسیم کیں تو وہ پانی کی ایک ایک بوند کو یوں احتیاط سے استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ کہیں پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہ پائے۔‘‘ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین، اپنی برطانوی ٹیم کے ہمراہ، خوراک کے سیکڑوں تھیلے بنا کر قاہرہ سے غزہ لے گئے تھے۔
مقامی فلسطینی کارکنوں کے تعاون سے یہ تھیلے تقسیم کیے گئے۔ وہاں مگر ضرورتیں بے حد زیادہ اور فنڈز محدود۔ جدید طبی سہولتوں سے محروم میڈیکل خیموں میں زیر علاج بیمار فلسطینیوں کی حالت بے حد نازک ہے۔ ساجد صاحب اور اُن کی ٹیم کی کوشش رہی کہ خوراک کے ہزاروں تھیلے اور جان بچانے والی ادویات زیادہ سے زیادہ ضرورتمندوں تک پہنچ جائیں۔کہتے ہیں: اِس تازہ دَورے کے دوران ہمارے ادارے نے ایک لاکھ پونڈز مالیت کی امداد اور ادویات تقسیم کی ہیں لیکن ابھی میرا اطمینان نہیں ہُوا۔
بقول عبدالرزاق ساجد، غزہ اور قدس الشریف کے آس پاس فلسطینیوں کے دکھ بانٹنا اور اُن کی دلگداز داستانیں سننا آسان نہیں ہے۔ صہیونی پولیس، فوج اور خفیہ والے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ساجد صاحب غزہ سے اُردن گئے اور وہاں سے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں سے ملے۔ مغربی کنارے، جہاں فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈ آفس ہے، سے وہ یروشلم پہنچے۔ بس یہی وہ مقام ہے جہاں مقامی فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ کسی بھی غیر ملکی مسلمان زائر کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ یروشلم کا مشرقی حصہ (جسے مقامی طور پر مسلم کوارٹر کہا جاتا ہے) بیت المقدس سے بالکل متصل ہے۔اور یہاں پر بسنے والے قدیمی فلسطینی مسلمان ہی قدس الشریف کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ یہ نگہبانی وہ اپنی جانوں پر کھیل کر کرتے ہیں۔ صہیونی قابض اسرائیلی، مشرقی یروشلم میں آباد ان قدیمی فلسطینیوں کے گھر چھین لینا چاہتے ہیں تاکہ قدس الشریف پر کامل قبضہ کیا جا سکے۔
عبدالرزاق ساجد وہاں کے قدیم، صدیوں پرانے فلسطینی محلّوں میں بھی پہنچے اور فلسطینیوں کی دکھ بھری زندگیوں کو چشمِ تر سے دیکھا۔ خود بھی آٹھ آٹھ آنسو روئے اور اپنے سُننے والوں کو بھی دلگیر کیا۔ یہ داستان بڑی ہی المناک ہے۔ مسلم اُمہ کے حکمران اس داستان سے دانستہ پہلوتہی کررہے ہیں، شاید اس لیے کہ فلسطینیوں کی کھلی امداد کرنے کی پاداش میں کہیں اُن کا اقتدار نہ جاتا رہے۔ساجد صاحب نے مجھے بتایا: ’’مَیں نے مشرقی یروشلم اور مسجدِ اقصیٰ کے پہلو میں صدیوں سے آباد تنگ و تاریک محلّوں میں فلسطینیوں کو دیکھا تو آنکھیں چھلک چھلک پڑیں۔ ایک ایک کمرے کے گھروں میں کئی کئی افراد مقیم ہیں۔
اسرائیلی یہودی ان گھروں کو اعلیٰ ترین داموں میں خریدنا چاہتے ہیں۔ اگر فلسطینی یہ قدیمی گھر فروخت کردیں تو اُن کی کم از کم تین نسلیں آرام سے معاشی زندگی گزار سکتی ہیں لیکن اس بھاری آفروں کے باوصف فلسطینی یہ گھر بیچنے کو ہر گز تیار نہیں۔ وہ قدس الشریف کے پاک و عظیم ہمسائے سے اُٹھ کر کہیں نہیں جانا چاہتے؛ چنانچہ اسرائیل اب یہ گھر بندوق کے زور پر ہتھیا لینا چاہتا ہے۔‘‘
مصر اور اُردن کی سرحدوں پر واقع عارضی کیمپوں میں پڑے غریب و بے نوا مہاجر فلسطینیوں میں کووِڈ 19کورونا کی وبا بھی ہے لیکن کورونا ویکسین کی نہایت کم مقدار متاثرینِ کورونا تک پہنچ رہی ہے۔ اسرائیل نے یو این او کے مطالبے کے باوجود کورونا ویکسین کی مطلوبہ مقدار فلسطینیوں کو نہیں دی ہے۔
اِس دَورے میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین مسجدِ اقصیٰ کے ڈائریکٹر اور امام، شیخ عمر الکسوانی، سے بھی ملے۔ الکسوانی صاحب نے عبدالرزاق ساجد کو بتایاکہ حالیہ اسرائیلی بمباری میں مسجدِ اقصیٰ کو شدید نقصان پہنچا ہے جس پر لاکھوں پونڈز مرمت پر لگیں گے۔ ساجد صاحب نے اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے مسجدِ اقصیٰ کی مرمت کروانے میں مقدور بھر مالی تعاون کی پیشکش کی ہے۔ جزاک اللہ۔ ضرورت مگر اس امر کی ہے کہ مسلمان حکمران مسجدِ اقصیٰ کے نقصان زدہ حصوں کی تعمیرِ نَو کے لیے جذبہ ایمانی سے آگے بڑھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں