380

سورۃ البقرہ کی آیت169کی تفسیر

اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْن
’’وہ حکم دیتا ہے تمہیں ہر برائی اور ہر بے حیائی کا اور یہ کہ تم گھڑ تے جوڑ تے رہو اللہ پر و ہ باتیں جن کا تمہیں علم ہی نہ ہو‘‘ ۔
یہ آیت شیطانی تحریک ، دعوت اور کوشش کے تین ہدف ظاہر کرتی ہے۔ انتباہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ ابن آدم گندگیوں اور ابلیسی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے ۔ آیت کی تعبیر میں خصوصی تو جہ کے لائق جو چیز ہے وہ ہے شیطانی اثر جس سے انسان حق اور صدق پر قائم نہیں رہ سکتا۔ قرآن مجید کا یہ کہنا کہ شیطان تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم بدلیوں برائیوں کی طرف لپکو اور شہوات اور فحاشی سے خود کو جلا لو،ظاہر کرتا ہے کہ شیطان وسوسوں کے لشکر کے ساتھ انسانی قافلوں پر حملہ زن ہوتا ہے۔ کتاب منیران ابلیسی کرتوتوں کو مخفی نہیں رہنے دیتی ، اپنے قاری کو ہوشیار کرنے کے لئے اسے آگاہ کرتی ہے کہ برائی اورفحاشی تمہارے ازلی دشمن شیطان کا منشور ہے اس لئے ان گندگیوں سے تم نےبچ کر رہنا ہے ۔ وہ لوگ جو اس دنیا میں ایمان، کردارا در افکار کے ساتھ مؤثر ہوئے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی خودی کا احترام کیا ہے وہ قدی صفت لوگ ہمیشہ برائی اور فحاشی سےبچ کر رہے ہیں ۔ان کی طہارت نفس ہی ان کی رفعت وعظمت کی بنیاد بنی ہے۔
آیت میں’’انما‘‘ کا کلمہ قاری قرآن کے ذہن میں ایک اعتماد اور یقین پیدا کرتا ہے کہ کہی جانے والی بات سرسری نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے یا اس کی طرف کم توجہ دی جائے یا اس کی طرف کم توجہ دی جائے۔ اصل سوال زندگی کا ہے اس کو سنبھالا دینے کے لئے ضروری ہے کہ سمجھا جائے شیطان آرام سے نہیں بیٹھتا، وہ آدم کی اولا دکوتباہ و برباد کر نے کے لئے دوڑ دھوپ جاری رکھتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ سُواور فحاشی کیا چیز ہے؟
قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں (160 ) کہ سُو کا معنی ہر برائی جوطبیعت کو مکدر کر دے، دل میں رنج پیدا کرے، ذہن کو پراگندہ کرے اور شخصیت کو بگاڑ دے اور فحاشی کا معنی بے حیائی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کام سے شریعت نے منع کیا ہے وہ سُو ہے اور فحشا ہے ۔ قرآن مجید میں فحشا کا اطلاق زیادہ تر زنا اور بدکاری پر کیا گیا ہے ۔ ایک مقام پر بخل کو بھی فحاشی کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک جس جرم پر حد نہ ہو وہ سُو ہے اور جس کام پر حد یعنی شرعی سزا موجود ہو وہ فحشا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ علیم نے ارشاد فرمایا کہ ابلیس اپنا پانی پربچھا تا ہے پھرلشکر کولوگوں کے بہکانے اور بھٹکانے کے لئے بھیجتا ہے پھر اس کے چھوٹے چھوٹے شطونے دنیا میںفتنے پھیلاتے ہیں پھر وہ اپنے کرتوتوں کی برآری کے بعد اپنی کارگزاری ابلیس کو سناتے ہیں ۔ ایک ایک جب اپنی گند گیری کی داستاں سناتا ہے تو ابلیس کہتا ہے تم نے کچھ نہیں کیا تم نے کچھ خاص شرارت نہیں کی ، اس پر ایک شطونچہ ہوتا ہے میں نے بڑا کام کیا بیوی اور خاوند میں جدائی ڈال دی ۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ( 161 ) ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ سلم نے ارشادفرمایا کہ آدمی کے اندر شیطان کا بھی اثر ہے اور فرشتہ کا بھی اثر ہے ۔ شیطان کا اثر تو یہ ہے کہ وہ شر کا وعدہ دلاتا ہے اور حق کی تکذیب کرواتا ہے اور فرشتہ کا اثر یہ ہے کہ وہ بھلائی کا وعد و دلواتا ہے اور حق کی تصدیق کرا تا ہے، تو جو شخص اپنے دل میں ملکوتی خیال پائے وہ اسے اللہ کی طرف سے سمجھے اور اللہ کی حمد کرے اور اگر دل میں برائی کا وسوسہ آئے تو شیطان کے مکر سے اللہ کی پناہ مانگے (162 )
آیہ کریمہ میں شیطانی اہداف میں تیسرا یہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ لا یعنی اور دور از حق اور بعید از علم با تیں اللہ کی طرف منسوب کر وا تا ہے ۔ ایک مفکر نے کہا تھا کہ کسی دور کے مسعود ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب ستھرا ہوتا ہے، سخن کی بز میں پاکیزہ ہوتی ہیں تحریر یں بامقصد ہوتی ہیں اور خطابت سچائی کا آمیزہ لئے ہوتی ہیں۔ وہ دور جس میں لفظوں کو دھنا جا تا ہو ، مطالب کو پیسا جاتا ہو ، افکار عالیہ کو کوٹا جا تا ہو اور اظہارات کو دولت مندوں کی دولت کا معجزہ قرار دیا جا تا ہو سمجھ لو کہ وہ دورنامسعود ہے۔
قرآن مجید کی تفسیرات
اور
کتاب منیر کی تعبیرات کے گلستان میں رہنے والے ایک چھوٹے آدمی سے زندگی کا ہدیہ مقبول فرمالیں: ناحق باتوں کے اندھیرے ایٹمی لہروں کی طرح ہڈیوں تک کو خاکستر بنا دیتے ہیں کوشش کرو کہ جھوٹ دلوں اور زبانوں کو چھونے نہ پائے ۔۔
خطبوں میں اور قالوں مقالوں میں اللہ کی طرف ناحق باتیں منسوب کرنے سے زیادہ بہتر میں ہے کہ محبت بھری کوئی قوالی سن لو لیکن قوالی بھی فائدہ انہی کو دیتی ہے جن کے دل ، کان اور ذہن صاف ہوتے ہیں ۔ چلو اس کو منا ظر نہیں بناتے ایک عہد نبھا لیتے ہیں :
’’حق‘‘ حق ہی سے لینا ہے
اور حق کے ساتھ رو کر ہی
حق کی باتیں سنتے رہنا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں