75

حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو کیا دیا ؟؟؟

عبدالرزاق ساجد
مسجدوں میں روشنی کا انتظام کرایا۔ اماموں،موذنوں اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔
ہجری سن نافذ کیا۔ حرم اور مسجدنبوی کی توسیع کی۔ نئے صوبے و شہر قائم کئے۔
دفاع، پولیس،ڈاک، تعلیم، مالیات،محاصل کے محکمے قائم کئے۔
حساب کتاب(اکاؤنٹس) کا شعبہ قائم کیا۔عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔ ججوں کا تقرر کیا۔
جیل کا تصور دیا۔ گھوڑوں کی پرورش و تربیت کا شعبہ قائم کیا۔
فوج کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا، فوجی چھاؤ نیاں بنوائیں۔
مکہ مدینہ کے درمیان سرائیں اور چوکیاں بنوائیں۔
مردم شماری کرائی،زمین کی پیمائش کرائی۔آب پاشی کا نظام بنوایا۔
دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لئے وظائف جاری کئے۔
آپ نے حکمراں طبقے کا احتساب کرنے کا تصور دیا۔گورنروں اور سرکاری عہدیداروں کے اثاثے ظاہر کرنے اور ان میں ناجائز اضافوں پر کارروائی کرنے کا تصور دیا۔
نا انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کے عدل کی وجہ سے عدل، عدل ِفاروقی کہلایا۔
آپ خود راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔
آپ کے دسترخوان پر کبھی 2 سالن نہیں رکھے گئے۔
آپ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر یونہی سو جاتے تھے۔
سفر کے دوران جہاں نیند آتی، کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے۔
آپ کے کرتے پر 14 پیوند تھے، ان میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔
آپ نرم اور باریک کپڑے سے نفرت کرتے تھے اور موٹا کھردرا لباس پہنا کرتے تھے۔
کسی کو،سرکاری عہدے پر فائز کرتے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا لیتے اور اگر اس کے اثاثوں میں ناجائز اضافہ ہوجاتا تو آپ اس کا کڑاحتساب کرتے۔
کسی کو گورنر بناتے وقت نصیحت فرماتے کہ۔ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا اور حاجت مندوں پر دروازہ کھلا رکھنا۔
شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان فروخت کرکے آپ کا قرض ادا کردیا گیا
آپ کا یہ قول، ا انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا“
میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی سزا عمر کو بھگتنا ہوگی۔
فرماتے تھے ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔
آپ کی مہر پر لکھا تھا ” عمر! نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے“
دنیا کے عظیم سپہ سالار سکندر اعظم کی سلطنت بھی اس کی وفات کے 5 سال بعد ختم ہوگئی جب کہ فاروق اعظم نے جہاں جہاں اسلام کا پرچم لہرایا،وہاں آج بھی اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جو علاقہ فتح کرتے وہاں عدل و انصاف کا نظام رائج کرتے۔ سکندر اعظم کا نام کتابوں میں سمٹ گیا ہے، جب کہ حضرت عمر کے بنائے ہوئے نظام آج بھی دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا ضرورت مند کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے، ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد فاتح اور عادل حکمران بنادیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں