85

ایک بے زبان قوم


بچپن میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں تمام حکومتی تعلیمی اداروں میں خصوصاً اور نجی تعلیمی اداروں میں جزوی طور پر اُردو ہی بولی جاتی ہے ،گھروں میں پنجابی جبکہ ہر صوبے اور علاقے کی اپنی اپنی مادری زبان اور جب ملازمت کی تلاش ہوتی ہے تو وہاں انگریزی سمجھنے بولنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یوں ہے کہ ” ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا ، ہم پاکستانیوں کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ سکولوں میں اردو بولو ،گھروں میں مادری زبان اور دفتروں میں انگریزی آنی چاہیئے جبکہ روز محشر حساب عربی میں دینا پڑے گا !
” پاکستان میں پچھلے 75 سال سے زبان کا مسلہ حل نہیں ہو سکا، 17 ویں صدی سے 1947ء تک براہ راست اور کہہ لیں کہ اس کے بعد سے آج تک بلا واسطہ انگریزی کے تسلط نے پاکستانی قوم کو غلامی کے بوجھ سے آزاد نہیں ہونے دیا۔ انگریزی کا بھوت ، آج بھی ہم پر سوارہے یقیناً اس لئے کہ ہم نے اردو سمیت اپنی کسی علاقائی زبان پر ایسی محنت کی ہی نہیں کہ اسے جاننے سمجھنے والا دنیا میں عزت و وقار کیسا تھ جدید علوم کا مقابلہ کر سکے ہم نے اپنی زبان میں بھی جدید و قدیم سمیت سائنسی علوم کی کماحقہ معلومات کے تمام خزینے جو انگریزی زبان میں ہیں اپنی قوم تک نہیں پہنچائے۔ قومیں اور لوگ جو اپنے ملک میں ہوں یا بیرونی ممالک میں صرف اپنی زبان ہی بولتے ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے کیونکہ ان اقوام نے دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھے گئے علوم اپنی زبان میں ترجمہ کئے انہوں نے انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی لیکن کسی قسم کی کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر صرف انگریزی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانے کی بجائے اپنی قومی زبان میں گفتگو کو ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ فرانس ، چین ،روس ،جاپان، جرمنی اور یورپ کے تمام ممالک کے رہنما عالمی فورمز پر بھی اپنی قومی زبان میں گفتگو کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ آ دھا تتیر آدھا بٹیر بنے بلا ضرورت ہی جہاں اپنی مادری زبان میں بات کرنا ہو وہاں اردو سے کام چل سکتا ہو وہاں انگریزی بلکہ نادرست انگریزی میں گفتگو کرنا فخر سمجھتے ہیں حتیٰ کہ ہمارے وزرأ اعظم ، صدور ، وزرا اور بیرونی ممالک میں تعینات سفیر تک کسی پاکستانی محفل میں بھی خَلْط مَلْط انگریزی بولنا بہادری اور پڑھا لکھا ہونے کی علامت سمجھتے ہیں ۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور تقریباً 12 کروڑ انسانوں کی زبان تھوڑے بہت لہجے کی تبدیلی کے ساتھ پنجابی ہے لیکن صدحیف کہ نسل در نسل پنجابی لوگ بھی اپنی مادری زبان کی بجائے اردو بول کر خود کو اشرافیہ کی صف میں شامل سمجھتا ہے وہ اپنی اپنی ماں بولی کی عزت نہ کر کے اس لشکری زبان پر فخر کرتا ہے جس کا کوئی ہجہ بھی اپنا ذاتی نہیں ہے ، خصوصاً پنجاب میں تو صورتحال اسقدر خرا ب ہے کہ بچوں کو اپنی مادری زبان لکھنا تو دور کی بات بولنا بھی درست طور پر نہیں آتی تین چار قسم کے رائج نظام تعلیم اور سکولنگ سسٹم نے معاشرے کو کچھ اس طرح کچھٹری زدہ کر دیا ہے کہ نئی نسل کو کچھ پتا نہیں کہ انہیں کس زبان میں مہارت حاصل کرنی چاہئے تا کہ وہ عالمی سطح پر کامیاب و کامران ہو سکے ۔ پنجابی زبان تو خیر اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس کا مرثیہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، غور کیجئے جو زبان ہماری عام بول چال میں بھی جگہ نہیں بنا پا رہی اور نہ ہی یہ ہمارے ابلاغی ذرائع میں کوئی جگہ رکھتی ہے ۔ پنجاب کی تقریباً 90 فیصد آبادی لکھی ہوئی پنجابی زبان پڑھ نہیں سکتی اور نہ ہی آسانی سے اسے لکھنے پر قادر ہے شرمندگی اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ پنجابی زبان میں پنجاب سمیت پورے ملک میں ایک بھی اخبار شائع نہیں ہوتا سوائے لاہور سے شائع ہونے والا اخبار ’’ بھلیکھا‘‘ کے جس کے مدیر اعلیٰ میرے دیرینہ دوست مدثر اقبال بٹ ہیں جو گھپ اندھیرے کمرے میں پنجابی کی مدھم سی لو جلائے بیٹھے ہیں ۔میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ بھارتی پنجاب میں پنجابی زبان کی عزت و خدمت سکھوں نے جس قدر کی ہے اور گورمکھی کو مشرق سے مغرب تک جس تیزی سے پہنچایا اور متعارف کروایا ہے پاکستانی پنجاب والے اس کے مقابلہ میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔
پاکستان میں اردو کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں ہے اس کی حالت اس قدر نا گفتہ بہ ہے کہ کہنے کو تو یہ قومی زبان ہے لیکن اندازہ کریں کہ پاکستان کے بیشمار صحافی تک غلط اردو لکھتے اور بولتے ہیں تمام تر الیکٹرانک میڈیا غلط اردو لکھ اور بول رہا ہے تو پھر اس ملک کے عام آدمی کی اردو کا کیا حال ہو گا ۔کسی بھی ملک کی زبان اس کے عوام کی تخلیقی اور ترقی کرنے کی صلاحیت سے گہرا اور براہ راست تعلق رکھتی ہے ۔پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے اس قوم کی تہذیبی اور تمدنی اساس کو اس بُرے طریقے سے تہس نہس کیا ہے اور اس سرعت سے اردو زبان کی دھجیاں بکھری ہیں اور حالت یہ بن چکی ہے کہ 24 گھنٹے ٹیلی ویژن اینکر ، نیوز ریڈر شرمناک حد تک نا درست اردو بولتے ہیں اور دیگر انتظامیہ ٹکرز یا سکرول میں چلنے والی اردو غلط لکھتی ہے۔مثال کے طور پر چند فقرے اور لفظ یوں ہیں کہ عوام تنگ آ چکی ہے ۔ پھولوں کا گلدستہ ۔ کارکنان اور عہدیداران ۔ واقعے پر افسوس ۔ جمعے کا دن ۔ لیڈران ۔ ان الفاظ کو درست لکھا جائے تو کچھ اس طرح ہوں گے ۔عوام تنگ آ چکے ہیں ۔ گلدستہ ۔ کارکن اور عہدیدار ۔ واقعہ پر افسوس ۔ لیڈر یا رہنما ۔ جمعہ کا دن ۔ ایک اور بات جو تجربہ میں آئی ہے کہ برطانیہ یا دیگر انگریزی زبان بولنے والے ممالک میں پاکستان کا کوئی عام گریجویٹ ، ایم اے پاس نوجوان بھی آتا ہے تو اس لیول کی انگریزی بول سمجھ نہیں سکتا جس بنا پر وہ یہاں کسی اچھی جگہ ملازمت کر سکے ۔عام طور پر بیرونی ممالک میں اردو میڈیم سکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد زیادہ آتے ہیں جو اکثر محفلوں میں اس طرح کا اظہار خیال کرتے ہیں کہ ’’ کیا فائدہ ایسی زبان کا جسے جانتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک زینہ بھی چڑھا نہیں جا سکتا ۔ ‘‘
ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم بدلتی اور لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتی دنیا کے ساتھ اپنے خدوخال تبدیل کرنے پر بھی تیا ر نہیں ہوتے اسی وجہ سے جدید دنیا میں جاری ثمرات سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں انگریز دور حکومت میں بھی ہمارا المیہ یہی تھا کہ ہم حصول علم میں بھی مخاصمت اور لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے جبکہ ہمارے پہلو میں رہنے والی قوموں نے آزادی کی جستجو بھی کی اور تحقیق و تعلیم سے بھی ناطہ جوڑا یہی وجہ ہے کہ وہ ہم سے کوسوں آگے نظر آتے ہیں۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو دنیا کی 100 زبانوں کی لسٹ میں 20ویں نمبر پر شمار ہوتی ہے لیکن اسے جاننے والے کیلئے ترقی کے در اس لیے نہیں کھلتے کہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا علم اردو میں ٹرانسفر نہیں ہو سکا ۔مختلف ادوار میں پاکستان کو چلانے والوں نے ملک و قوم اور نظام تعلیم کی نہ تو سمت مقرر کی اور نہ ہی اردو جسے وہ قومی زبان قرار دیتے رہے اس کی ترویج و ترقی کیلئے کوئی تگ و دو یا جستجو کی ۔آج اگر حکومت اردو زبان کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے عالمی سطح پر ہونے والی سائنسی و علمی تحقیق کو اردو میں ٹرانسفر کریں تو وقت کے ساتھ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اردو بھی عالمی زبانوں میں اپنی جگہ بنا سکے ورنہ اگر اردو کو فروغ دینے کا منصوبہ بھی سینکڑوں دیگر منصوبوں کی طرح گفتن ، نشستن اور برخاستن کی نذر ہو گیا تو پھر ہم عالمی سطح پر بے زبان ہی رہیں گے !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں