76

غزہ اور المصطفیٰ


منصور آفاق
المصطفیٰ ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد ان دنوں لاہور آئے ہوئے ہیں ۔ کل عیادت کیلئے تشریف لائے تو فلسطین کے موضوع پر ان کے ساتھ لمبی گفتگو ہوئی۔ ان کا ادارہ پچھلے چند ماہ میں سب سے زیادہ غزہ میں امدادی سامان پہنچانے میں کامیاب رہا۔میں اس پر انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔
ان سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ درج کررہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے وہ جو اسماعیل ہینہ کی شہادت کے بعد فوری طور پر جنگ کے دائرے کے بڑھنے کا امکان تھا وہ تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ تہران غزہ امن مذاکرات میں پیش رفت کے بدلے میں فوری انتقام لینے سے پیچھے ہٹنے کوتیار ہو گیا ہے۔ جدہ میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں آ خر کار ایران کو اس بات پر رضا مند کر لیا گیا کہ انتقام کیلئے مناسب وقت کا تعین ایک اہم قدم ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ پر ہونے والی مسلسل اسرائیلی جارحیت کو روکا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں امریکہ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل اور ایران دونوں سے براہ راست بات چیت کی ہے کہ ’’کسی کو بھی اس تنازع کو بڑھانا نہیں چاہیے،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے مذاکرات ’’حتمی مرحلے‘‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایران کو ہنیہ کے قتل کے فوراً بعد اسرائیل کے خلاف اپنی دھمکیوں سے پیچھے ہٹنے کیلئے سفارتی کور کی ضرورت تھی کہ ایران یہ کہہ سکے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کو زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ اسے بدلہ لینے سے زیادہ فلسطینیوں کی جانوں کا خیال ہے۔ مگر اس کی اپنی عزت اوردفاع بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔فرانس نے بھی ایران سے یہی کہا ہے کہ اسے اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کو چھوڑنا ہو گا۔ ایرانی صدر نے جواباً فرانسیسی صدر سے یہی کہا ہے کہ انہیں امریکہ اور یورپ پر بھی دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ واقعتاً اگر خطے میں جنگ اور عدم تحفظ کو روکنا چاہتے ہیں تو اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے انہیں فوری طور پر اسلحے کی فروخت اور صہیونی حکومت کی حمایت بند کرنا ہو گی۔ ایران اسرائیل پر فوری طور پر حملہ کرنا چاہتا تھا جسے پہلے قطر نے بڑی مشکل سے رکوایا تھا۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے تقریباً دس ماہ بعد، 7اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں تقریباً 1200افراد ہلاک اور کم از کم 250کو یرغمال بنا لیا گیا، تقریباً40000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور ابھی تک جنگ بندی کے امکانات معدوم ہیں اور اگر جلدی جنگ بندی نہیں ہوتی تو ایران کسی وقت بھی جنگ میں کود سکتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کی تمام تر توجہ غزہ پر ہی رہے۔ اب ایران جنگ میں اتر گیا ہے۔ حزب اللہ پہلے ہی میدان میں ہے ۔ یمن کے حملے بھی جاری ہیں۔
میجر جنرل (ر) یزہاک برک نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال، حماس سے جاری جنگ اور ایران کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے ایک بیان میں خبردار کیا ہےکہ اگر حماس اسرائیل مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں خطے میں جنگ چھڑتی ہے تو اسرائیل شدید خطرات کی زد میں آ جائے گا، وزیر دفاع یوآف گیلانت کے غزہ جنگ کے اہداف کے حوالے سے متعدد بیانات تاحال پورے نہیں ہو سکے، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کو تبدیل نہ کیا گیا تو اسرائیل اگلے ایک سال میں تباہ ہو جائے گامگر میرے نزدیک اسرائیل اور پاکستان دو ایسےممالک ہیں جنہوں نےختم نہیں ہونا بلکہ مستقبل میں دنیا انہی ممالک کے گرد گھومتی معلوم ہو رہی ہے۔ یہی دو بلاک ہوں گے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آویزشِ عظیم انہی دو کے درمیان ہو گی۔ یہ پیشن گوئی خاصا وقت مانگتی ہے۔ خیر عبدالرزاق ساجد سے اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ پاکستان کو طاقت ور بنانے کے مسئلے پر بھی غور کیا گیا۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ اپنے آئی ہسپتال کو ایک بہت بڑے آئی ہسپتال میں تبدیل کرنا چاہ رہا ہے۔ جناح باغ کی بیک سائیڈ پر خاصی بڑی جگہ خریدی جا چکی ہے اور اس پر کام شروع ہونے والا ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا آئی ہسپتال اس وقت تک تقریباً ڈھائی لاکھ لوگوں کی آنکھوں کے آپریشن کر چکا ہے۔ اتنے قلیل وقت میں اتنا بڑا کام قطعاً آسان نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں اور کامیابیوں سے نوازے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ آج سے کوئی پندرہ بیس سال پہلے جب عبدالرزاق ساجد نے لندن میں بنایا تھا تو میں بھی اس وقت وہیں ہوا کرتا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنے کم وقت میں اپنے ادارے کو اتنا عالی شان بنا لیں گے۔ یقیناً اس میں ان کی اپنی صلاحیتوں کے ساتھ رحمتِ خداوندی بھی شامل ہے۔ اخلاصِ نیت جس کی بنیاد ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ادارہ اگلے دس برسوں میں برطانیہ کی سب سے بڑی مسلم چیرٹی ہو گا۔ عبدالرزاق ساجد کا دل ملتِ اسلامیہ کے درد سے لبریز ہے۔ وہ کہیں بھی کسی مسلمان کا دکھ دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور اس کی ہر ممکن مدد کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حکومتِ پاکستان اور حکومتِ پنجاب کو ایسی چیرٹی تنظیموں کی بھرپور سرپرستی کرنی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں