پاکستان کی پارلیمینٹ نے پیکا آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے اور اب یہ جلد نافذ العمل ہو گا، میں صحافی ہونے کے ناطے اس قانون کی ضرورت کو اہم سمجھتے ہوئے اس کے مکمل حق میں ہوں، دُنیا کے ترقی یافتہ جتنے ممالک ہیں وہاں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے ابلاغی زرائع جو اخبار ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو، سوشل میڈیا اور اب “آرٹیفیشل ٹیکنالوجی” تک پہنچ چکے ہیں انہیں حدود و قیود میں رکھنے کے لئے کسی نہ کسی قسم کا دائرۂ کار بنانا از بس ضروری تھا اور حکومت کا یہ قدم باعث تحسین ہے۔
(PECA Ordinance) پاکستان کا ایک قانون ہے جسے “پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ” (Prevention of Electronic Crimes Act) کہا گیا ہے اور یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ اس کے تارو پود 2016 میں بُنے گئے تھے اور اس کا مقصد پاکستان میں انٹرنیٹ اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کرنا تھا اور یہی نکتہ آج بھی حکومت کے پیش نظر ہے۔ پیکا آرڈیننس کا پہلا مقصد سائبر کرائمز، جیسے کہ ہیکنگ، آن لائن ہراسمنٹ، ڈیٹا چوری، اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ اس قانون کے تحت مختلف جرائم کیلئے سزائیں اور جرمانے مقرر کیے گئے ہیں، جیسے کہ نفرت انگیز مواد (Hate Speech) کی اشاعت، غیر اخلاقی مواد کی اشاعت، کسی کی ذاتی معلومات یا تصاویر کا غیر قانونی استعمال، آن لائن دھوکہ دہی یا فراڈ، سائبر دہشت گردی۔
“ پیکا ” کے تحت سزائیں مختلف ہیں، جن میں جرمانہ، قید یا دونوں شامل ہو سکتے ہیں، اور جرم کی نوعیت کے مطابق یہ سزائیں مختلف ہو سکتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ “پیکا” پر تنقید کیوں کر رہا ہے ؟ اس کی چند وجوہات یہ ہیں۔
اپوزیشن اور میڈیا اس قانون پر تنقید اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون آزادیٔ اظہار، صحافت، اور بنیادی انسانی حقوق کو محدود کرنے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس تنقید کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
. آزادیٔ اظہار پر پابندی کا خدشہ
•اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پیکا کا استعمال حکومت مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی تنقیدی رائے، چاہے وہ سچ ہو، کو نفرت انگیز مواد یا جھوٹا پروپیگنڈا قرار دے کر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ میڈیا کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے تحت صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ میں خود پر سینسر لگانا پڑے گا، کیونکہ سخت سزاؤں کے خوف سے وہ حکومت کے خلاف یا متنازع موضوعات پر رپورٹنگ نہیں کر سکیں گے۔
2. صحافیوں اور میڈیا اداروں کو دبانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
•میڈیا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پیکا قانون صحافت کی آزادی کو محدود کر رہا ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو اس قانون کے تحت ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی پیکا کو سیاسی دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
3 •میڈیا اور اپوزیشن دونوں کا کہنا ہے کہ پیکا کا مقصد سوشل میڈیا پر حکومت مخالف بیانیے کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس قانون کے ذریعے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے عام شہریوں، بلاگرز، اور سیاسی کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
4. مبہم دفعات اور سزاؤں کا سخت ہونا۔ پیکا قانون میں موجود کچھ شقیں مبہم ہیں، مثلاً “نفرت انگیز مواد” یا “جعلی معلومات” کی تعریف واضح نہیں ہے۔ اس سے حکومت کو ہر قسم کی تنقید کو جرم قرار دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ 2022 میں ترامیم کے ذریعے سزاؤں کو سخت کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر مزید تنقید ہوئی، کیونکہ اس سے یہ قانون مزید جابرانہ بن سکتا تھا۔
5. سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا
•اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت پیکا کو سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف رائے دینے والے سیاستدانوں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں جبکہ میڈیا ہاؤسز کا کہنا ہے کہ پیکا کے ذریعے حکومت اپنی مرضی کا بیانیہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔
6. اس قانون کے تحت ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) جیسے اداروں کو وسیع اختیارات مل گئے ہیں، جنہیں اپوزیشن اور میڈیا “آزادیٔ اظہار پر حملہ” قرار دیتے ہیں اور عدالتی نگرانی کی کمی کے باعث پیکا کا استعمال اکثر بلاجواز یا ذاتی مفادات کیلئے کیا جا سکتا ہے۔
7. آن لائن پرائیویسی کی خلاف ورزی
•میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پیکا قانون حکومت کو شہریوں کی ڈیجیٹل سرگرمیوں کی نگرانی کا جواز دیتا ہے، جو ان کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر میڈیا اور شوشل میڈیا صارفین جھوٹ نہیں پھیلا رہے، کسی کی عزت نہیں اچھال رہے، شرمناک ،خطرناک اور ملک دشمن مواد پھیلانے کے مرتکب نہیں ہو رہے تو انہیں خوف کس بات کا ہے ؟ اور پھر اپوزیشن والوں کو کیا مسئلہ ہے ماضی کی “پی ٹی آئی” حکومت تو “پیکا” کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتی تھی تو پھر آج تنقید کیوں ؟
میڈیا اور اپوزیشن کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ اظہار رائے کی جسقدر شُتر بے مہار آزادی پاکستان کے میڈیا اور سیاستدانوں کو ہے ایسی آزادی دُنیا کے کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہے !!
ترقی یافتہ ممالک میں بھی سائبر کرائمز اور آن لائن سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے پیکا جیسے قوانین موجود ہیں، لیکن ان قوانین کی نوعیت اور عمل درآمد کا طریقہ یقینا مختلف ہو سکتا ہے۔ ان قوانین کا مقصد زیادہ تر سائبر کرائمز کی روک تھام، شہریوں کی آن لائن پرائیویسی کا تحفظ، اور ڈیجیٹل دنیا میں امن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ یکہ میں Computer Fraud and Abuse Act (CFAA) اور Electronic Communications Privacy Act (ECPA) جیسے قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین ڈیٹا چوری، ہیکنگ، غیر قانونی آن لائن سرگرمیوں، اور پرائیویسی کی خلاف ورزیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
برطانیہ میں Computer Misuse Act (1990) اور Communications Act (2003) جیسے قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین ہیکنگ، غیر قانونی ڈیٹا ایکسس، آن لائن ہراسمنٹ، اور نفرت انگیز مواد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یورپی یونین میں General Data Protection Regulation (GDPR) اور Cybercrime Convention جیسے قوانین موجود ہیں جن کا مقصد شہریوں کی آن لائن پرائیویسی اور ڈیٹا کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، جبکہ Cybercrime Convention سائبر جرائم کی روک تھام کیلئے ہے۔ کینیڈا میں Personal Information Protection and Electronic Documents Act (PIPEDA) اور Criminal Code (Cybercrime provisions) کا قانون ہے۔ آسٹریلیا میں Cybercrime Act (2001) اور (2015) Enhancing Online Safety Act ہے۔
لُب لباب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پاکستان کے “ پیکا آرڈیننس” جیسے قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ شہری آزادیوں کے تحفظ اور عدالتی شفافیت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں تنقید کا پہلو ان قوانین کا ممکنہ سیاسی اور غیر منصفانہ استعمال ہے پھر تو یہ تنقید درست ہے ورنہ “ پیکا آرڈیننس” غلط نہیں ہے۔
“اور پھر پاکستان کا میڈیا، اپوزیشن اور عوام آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی !!
