624

یزید بن معاویہ سے لیکر میر جعفر تک مسلمانوں کی حکمرانی کے 12سو سال(آخری حصہ)

وجاہت علی خان

( قارئین کرام ، گزشتہ شمارے میں مسلمانوں کی حکمرانی کے ١٢ سو سال کے عنوان سے شائع کئے گئے مضمون کا آخری حصہ پیش خدمت ہے )
عثمانی ترکوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تین سو سال میں دنیا کی –وسیع ترین اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کا روپ اختیار کر لیا اور اس میں بنیادی کردار ترک قوم کی شجاعت اور تنظیمی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جیسی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم ہوئی۔ چونکہ عثمانی سلاطین نے سلجوقیوں کے نظام کو اپنایا تھا اس لیے فرمانروا کا انتخاب اہل خاندان کرتے تھے اور خاندان کا سربراہ ہی بادشاہ ہوتا تھا۔ عملی سیاست کے تعلق تک بادشاہ مطلق العنان اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہوتا تھا تاہم اس کے تمام اقدامات و افعال اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتے تھے۔ وہ قانون، نظام اور رسم و رواج کا پابند تھا اور شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ اسلامی قوانین کو تقریباً تمام معاملات میں برتری حاصل تھی اور بادشاہ شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے حق و طاقت کا استعمال کر سکتا تھا۔ چونکہ بادشاہ کی حیثیت مطلق العنان فرمانروا کی تھی اس لیے جب کمزور سلطان آئے تو سلطنت کے امور وزراء انجام دینے لگے لیکن پھر بھی احکامات سلطان کی جانب سے صادر ہوتے تھے۔ ابتداء میں عثمانی حکمران خود کو بیگ اور غازی کہلواتے تھے۔ بایزید اول پہلا عثمانی حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا اور سلیم اول فتح مصر کے بعد پہلا عثمانی خلیفہ بنا۔ سلطان سلیمان قانونی کے زمانے تک فوج کی اعلیٰ کمان سلطان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وہ خود جنگ میں شرکت کرتا تھا لیکن بعد کے حکمرانوں میں یہ طریقہ نہ رہا جس سے سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔
اس کی اصل حیثیت فوجی منصف کی تھی اور شیخ الاسلام کے بعد اس کا درجہ آتا تھا۔ قاضی عسکر کو سلطان خود مقرر کرتا تھا۔ قاضی عسکر دو تھے ایک یورپی اور دوسرا ایشیائی مقبوضات کے لیے جو بالترتیب قاضی عسکر رومیلیا اور قاضی عسکر اناطولیہ کہلاتے تھے۔

1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی اور 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں اور 1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران میں بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کے عروج کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان میں بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا تھا۔ یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ 1585ء میں عثمانی امیر البحر مراد رئیس نے جزائر کناری میں لانزاروت کو فتح کیا۔ 1617ء میں عثمانی افواج نے مدیرہ پر بھی قبضہ کیا اور بعد ازاں اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران میں آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ء) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا جو 194 بحری جہازوں پر مشتمل تھا لیکن زوال پزیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ اصلاح پسند مدحت پاشا اور 1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمان کی حمایت کے بعد سلطان عبد الحمید ثانی (دور حکومت: 1876ء تا 1908ء) کا اعتبار بحریہ پر سے اٹھ گیا۔ اور روس کے خلاف جنگوں میں کوئی استعمال نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اکثر بحری جہاز شاخ زریں میں بند کر دیے گئے جہاں وہ اگلے 30 سالوں تک سڑتے رہے۔ 1908ء میں نوجوانان ترک انقلاب کے بعد اتحاد و ترقی جمعیتی نے ملک کا نظم و ضبط سنبھالنے کے بعد بحریہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی اور عوامی چندے سے عثمانی بحریہ فاؤنڈیشن تشکیل دی گئی اور عوامی رقم سے ہی بڑے بحری جہازوں کی خریداری شروع کی گئی
قسطنطنیہ کے مفتی کا درجہ تمام قاضیوں سے بڑھ کر تھا اور اسے مفتی اعظم کہا جاتا تھا۔ محمد فاتح نے اسے شیخ الاسلام کا لقب بھی عطا کیا۔ تمام قوانین کا تعلق شیخ الاسلام سے تھا اور اس کی حیثیت عباسی دور کے قاضی القضاۃ کی سی تھی۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ شیخ الاسلام کا عہدہ وزارت عظمٰی کے بعد سب سے بڑا تھا۔ شیخ الاسلام کا تقرر عام طور پر تمام عمر کے لیے ہوتا تھا۔ صوبائی افسران صدر اعظم اور صدر اعظم سلطان کے سامنے جوابدہ تھا لیکن شیخ الاسلام صرف خدا کو جوابدہ تھا اور وہ ہر کام شریعت کے مطابق کرتا تھا۔ شیخ الاسلام کے اختیارات انتہائی وسیع تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان کی معزولی کے متعلق اس کا فتویٰ بہت ضروری تھا اور اس کے بغیر سلطان کی معزولی ممکن نہ تھی۔ سلطان کی نماز جنازہ بھی وہی پڑھاتا تھا۔ دور انحطاط میں اس منصب میں بھی کئی خامیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ عثمانیوں کے پورے دور میں 131 شیوخ الاسلام ہوئے۔ 19 نے استعفٰی دیا اور تین کو پھانسی دی گئی۔ اکثریت ترکی النسل تھی۔ 1442ء میں اس منصب کی ابتداء ہوئی اور مراد دوم کے عہد کے حضرت ملا شمس الدین فناریپہلے شیخ الاسلام تھے۔ آخری شیخ الاسلام مدنی محمد نوری آفندی تھے جنہوں نے سلطنت کے خاتمے پر 1922ء میں استعفٰی دے دیا۔ اس طرح یہ عہدہ 498 سال برقرار رہا۔
تمام قاضی شہر کے منصف ہوا تھے اور ان کا حلقۂ اختیار قریبی علاقوں پر بھی تھا۔ قاضیوں کا حلقۂ اختیار ادارۂ حکومت سے زیادہ وسیع تھا۔ مثلاً کریمیا اور شمالی افریقہ کی ریاستیں اگرچہ انتظامی حیثیت سے مرکزی حکومت کے تابع نہ تھیں بلکہ وابستہ حکومتیں تھیں لیکن یہ بھی عثمانی نظام عدالت کے ماتحت تھیں۔ محمد فاتح نے قانون نامہ میں محکمہ قضا کو ایک ستون قرار دیا تھا اور مملکت کے قوانین کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی تھی۔
ثقافت
کیونکہ سلطنت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ایک وسیع سلطنت تھی اس لیے اسے کسی واحد ثقافت کے طور پر بیان کرنا مشکل ہے البتہ مختلف مراکز میں اس کے مختلف روپ تھے۔ قسطنطنیہ کی شہری وضع نے دمشق، بغداد، مکہ، مدینہ، قاہرہ اور تیونس و الجزائر پر اثر انداز ہوئی۔ فنکاروں کا اجتماع قسطنطنیہ میں تھا لیکن دستکاری اور صنعت کی غیر معمولی ترقی اناطولیہ میں ہوئی جس میں بروصہ اور ازنک کو اہم مقام حاصل تھا۔ کئی اہم شہروں میں کارخانے پوری سلطنت کو کپڑا اور ظروف فراہم کرنے کے علاوہ غیر ممالک کو بھی اشیاء برآمد کرتے تھے۔ پارچہ بافی کے علاوہ قالین سازی بھی سلطنت کی اہم ترین صنعت تھی۔
عثمانی فن تعمیر
سلطنت عثمانیہ کا ابتدائی فن تعمیر سلجوقی طرز تعمیر سے متاثر تھا لیکن قسطنطنیہ کی فتح کے بعد یہ رومی طرز تعمیر کے زیر اثر آ گیا لیکن بعد ازاں اس میں مزید بہتری لائی گئی اور بالآخر جدید عثمانی طرز تعمیر دنیا بھر میں معروف ہوا۔ عثمانی سلاطین نے فن تعمیر پر خاص توجہ دی۔ ینی شہر، بروصہ، ادرنہ اور قسطنطنیہ میں مساجد، مدارس اور محلات کی تعمیر اور فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطنت بھر میں عثمانی تعمیرات اس عظیم سلطنت کی شوکت و عظمت کی آئینہ دار ہیں اور آج بھی اس شاندار ماضی کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ چودہویں صدی کی عثمانی دور کی مساجد میں سلجوقی طرز ہر جگہ نمایاں ہے جس کی اہم ترین مثالیں بروصہ کی شاندار مساجد ہیں جن میں بایزید جامع اور اولو جامع نمایاں ہیں۔ پندرہویں صدی میں استنبول کی مساجد میں بروصہ کی طرز کی تقلید کی گئی لیکن بڑی مساجد میں ایاصوفیہ جامع کے طرز تعمیر کی تقلید کی گئی جو بازنطینی گرجا تھی جسے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ترک معماروں نے جدید عثمانی طرز تعمیر کی کئی شاندار اور بلند عمارات بنائیں جن میں فاتح جامع، سلیمیہ جامع، سلیمانیہ جامع اور اورتاکوئے جامع نمایاں ہیں۔ عثمانی طرز تعمیر ان عمارتوں کے ذریعے آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے حتٰی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ترک تارکین وطن نے مساجد تعمیر کیں وہ اسی طرز تعمیر کا شاہکار ہیں۔ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد کے مینار بھی ترک طرز تعمیر کے حامل ہیں۔
مذہب
عثمانی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا لیکن غیر مسلموں خصوصاً اہل کتاب (مسیحیوں اور یہودیوں) سے ان کا اعلیٰ رویہ مسلمانوں کی وسیع القلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد مقامی مسیحیوں کو شہر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے چند گرجوں کو بھی بحال رکھا۔ 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد اسپین سے نکالے گئے مسلمانوں کو بخیریت مسلم سرزمین پر پہنچانے کی جو عظیم مہم چلائی گئی اس میں کئی یہودیوں کو بھی مسیحیوں کے مظالم سے بچا کر ترک سرزمین پر لایا گیا اور انہیں سلطنت عثمانیہ میں آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی۔ اسلامی شریعت مملکت کا بنیادی قانون تھا اور اس کا ماخذ قرآن و حدیث تھے اور ان دونوں سے رہنمائی نہ ملنے کی صورت اجماع یا قیاس سے کام لیا جاتا۔
علم و ادب
سلاطین عثمانیہ علم و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے علماء و فضلاء کی بے حد تعظیم و تکریم کی جاتی اور ان کے لیے باعزت روزگار فراہم کیا جاتا تھا۔ محمد اول کے دور میں علم و ادب کی بھرپور سرپرستی کی گئی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دراصل انہی کے دور میں سلطنت میں ادب خصوصاً شاعری کو ترویج دی گئی۔ سلطان محمد فاتح ترکی زبان کے ایک صاحب دیوان شاعر تھے۔ مطالعہ کا بے حد شوق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے دور حکومت میں دیگر علوم و فنون کی ترویج کا کام بھی کیا۔ بایزید کو تصوف، مذہب اور شاعری سے دلچسپی تھے جبکہ سلیم اول کو تاریخ و فارسی شاعری کے علاوہ مطالعے کا بھی شوق تھا۔ فارسی زبان میں سلیم اول کی کچھ نظمیں بھی موجود ہیں۔ مراد ثانی تصوف کی ایک کتاب کے باعث شہرت رکھتے تھے۔ عثمانی حکمرانوں میں 21 کے بیاض ملتے ہیں۔ دراصل عثمانی ادب اور فارسی ادب ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کے دو دور نمایاں نظر آتے ہیں:
مملوک سلطنت
مملوک قرون وسطی میں مسلم خلفاء اور ایوبی سلاطین کے لیے خدمات انجام دینے والے مسلم سپاہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت بھی حاصل کی جن میں طاقتور ترین مصر میں 1250ء سے 1517ء تک قائم مملوک سلطنت تھی۔
اولین مملوک سپاہیوں نے 9ویں صدی میں عباسی خلفاء کے لیے خدمات انجام دیں۔ عباسی انہیں خصوصا قفقاز اور بحیرہ اسود کے شمالی علاقوں سے بھرتی کرتے تھے۔ چرکاسیوں کے سوا اکثر قیدی غیر مسلم نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد خلیفہ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔ مملوک نظام کے تحت حکمرانوں کو ایسے جانباز سپاہی میسر آئے جنہیں کاروبار سلطنت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مقامی جنگجو اکثر سلطان یا خلیفہ کے علاوہ مقامی قبائل کے شیوخ، خاندان یا اعلی شخصیات کے فرماں بردار ہوتے تھے۔ اگر کوئی سردار حکمران کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو ان سپاہیوں کی جانب سے بھی بغاوت کا خدشہ رہتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں شہسوار رسالوں میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان کی تربیت میں شہسوار دستوں کی حکمت عملی کی ترتیب، شہسواری، تیر اندازی اورابتدائی طبی امداد کی تربیت شامل تھی۔
مملوک چھاؤنیوں میں رہتے تھے جہاں وہ تیر اندازی اور دیگر صحت مند تفریح کے ذریعے اپنا دل بہلاتے تھے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ غلام نہیں رہتے تھے۔ سلطان مملوک فوج کو براہ راست اپنی کمان میں رکھتا تھا تاکہ وہ مقامی قبائل کی جانب سے بغاوت کی صورت میں اسے استعمال کرسکے۔ غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کے اعلی سلوک کی واضح مثال ان مملوک سپاہیوں کا اونچے عہدوں تک پہنچنا ہے جن میں سپہ سالاری تک شامل ہے۔
مملوک ہندوستان میں
1206ء میں ہندوستان میں مسلم افواج کے مملوک کمانڈر قطب الدین ایبک خود کو سلطان قرار دیتے ہوئے پہلے آزاد سلطانِ ہند بن گئے اور خاندان غلاماں کی بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1290ء تک قائم رہی۔
مملوک مصر میں
مصر میں مملوک سلطنت نے ایوبی سلطنت سے جنم لیا جسے 1174ء میں عظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے تشکیل دیا ہے۔ 1169ء میں اپنے چچا شیرکوہ کی جانب سے دمشق کے زنگی سلطان نور الدین زنگی کے لیے مصر فتح کرنے اور 1189ء میں بیت المقدس کی فتح کے بعد صلاح الدین نے مشرق وسطی میں اپنے خاندان کی گرفت مضبوط کردی۔ لیکن صلاح الدین کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں کے درمیان سلطنت کی تقسیم کا تنازع کھڑا ہو گیا اور وہ وسیع مملوک فوجوں کے ساتھ آمنے سامنے آ گئے۔
1200ء میں صلاح الدین کے بھائی ملک العادل نے اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو شکست دے کر سلطنت حاصل کرلی۔ ہر فتح کے ساتھ ملک العادل شکست خوردہ مملوکوں کو اپنی فوج میں شامل کرتا گیا اور ایوبی حکومت مملوکوں کی طاقت کے گھیرے میں آگئی جس نے جلد ہی سلطنت کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے شروع کردی۔
فرانسیسی حملہ اور مملوکوں کی فتح
جون 1249ء میں فرانس کے لوئی نہم کی زیرقیادت ساتویں صلیبی جنگ میں فرانسیسی لشکر مصر پر حملہ آور ہوا اور دمیتہ پر قبضہ کر لیا۔ سلطان الصالح ایوب کے انتقال پر سلطنت اس کے بیٹے توران شاہ اور اس بیوی شجرۃ الدر کو ملی جس نے مملوکوں کے تعاون سے فرانسیسیوں پر جوابی حملہ کیا۔ بحری مملوکوں کے کمانڈر رکن الدین بیبرس نے لوئی کی فوج کو شکست دی۔ مملوکوں نے مارچ 1250ء میں شاہ لوئی کو گرفتار کرکے 4 لاکھ لیور کا تاوان حاصل کیا۔ ایک مرد رہنما کے لیے بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے باعث شجرۃ الدر نے مملوک کمانڈر ایبک سے شادی کرلی۔ بعد ازاں ایبک قتل ہوا اور زمام اقتدار اس کے نائب سیف الدین قطز نے حاصل کرلی۔ انہوں نے مملوکوں کی پہلی بحری مملوک سلطنت کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔
پہلی مملوک سلطنت کو بحری اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان مملوکوں کا تعلق بحری افواج سے تھا جن کا مرکز دریائے نیل کے جزیرے المنیال میں تھا۔ بحری فوج کی اکثریت قپچاق ترکوں اور چرکاسیوں پر مشتمل تھی۔
مملوک بمقابلہ منگول
ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے بغداد کو نیست و نابود کرنے کے بعد جب 1258ء میں دمشق پر قبضہ کیا تو دمشق سے فرار ہونے والے مملوکوں میں جنرل بیبرس بھی شامل تھا۔ وہ قاہرہ پہنچا اور جب ہلاکو خان نے سیف الدین قطز سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تو قطز اس کے سفیروں کو قتل کرکے بیبرس کی مدد سے افواج روانہ کیں۔ مونگی خان کی ہلاکت کے باعث ہلاکو خان فلسطین کی جانب بڑھتی ہوئی منگول افواج کی قیادت اپنے نائب کتبغا کو دے کر وطن روانہ ہو گیا۔ بعد ازاں مملوک اور منگول افواج کے درمیان فلسطین میں عین جالوت کے مقابلہ پر تاریخی معرکہ ہوا جس میں مملوکوں نے تاریخ کی فیصلہ کن فتح حاصل کی اور کتبغا کو گرفتار کرکے قتل کرڈالا۔ اس فتح کی بدولت مصر اور فلسطین منگولوں کے بڑھتے ہوئے طوفان سے بچ گئے۔ جنگ عین جالوت کو تاریخ کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ شاندار کارنامہ انجام دینے کے بعد رکن الدین بیبرس قاہرہ واپس آیا اور قطز کی جگہ “ملک الظاہر” کے لقب سے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوا۔
مملوکوں نے 1260ء میں حمص میں دوسری مرتبہ منگولوں کو شکست دی اور مغرب کی طرف ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو ہمیشہ کے لیے روک دیا۔ اس دوران مملوکوں نے شام پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا اور جنگی قلعے قائم کرنے کے علاوہ ڈاک کا نظام قائم کیا۔ بیبرس کی افواج نے سرزمین فلسطین پر قائم آخری صلیبی ریاست انطاکیہ فتح کرکے فلسطین سے عیسائیوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
خاتمہ
مملوک سلطنت 1517ء تک قائم رہی جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیم اول نے جنگ مرج دابق اور جنگ ردانیہ میں مملوک سلطان قانصوہ غوری کو شکست دے کر ختم کر دیا۔ تاہم مملوک عثمانی سلطنت کے زیر انتظام بھی کام کرتے رہے لیکن انہیں پہلے جیسے اختیارات حاصل نہیں رہے۔
مملوکوں کی عثمانیوں سے آزادی
1768ء میں سلطان علی بے الباکر نے عثمانیوں سے آزادی کااعلان کیا لیکن مملوکوں نے اس تحریک کو سختی سے کچل دیا۔ اس موقع جارجیا سے نئے مملوک بھرتی کیے گئے۔ نپولین نے 1798ء کو مصر پر حملے میں مملوکوں کو شکست دی۔ 1801ء میں فرانسیسی دستوں کی روانگی کے بعد مملوکوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1803ء میں مملوک رہنماؤں ابراہیم بیگ اور عثمان بیگ نے روسی جنرل قونصل کو خط لکھا کہ وہ سلطان اور ان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں تاکہ وہ جنگ بندی کے بعد اپنے آبائی وطن جارجیا جاسکیں۔ استنبول میں روسی سفیر نے ثالثی سے انکار کر دیا کیونکہ اسے جارجیا میں مملوکوں کی واپسی سے خطرہ تھا جہاں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور مملوکوں کی واپسی سے اسے مزید توانائی ملتی۔
1805ء میں قاہرہ میں بغاوت پھوٹ گئی جو مملوکوں کے لیے اقتدار حاصل کرنے کا بہترین موقع تھا لیکن وہ اپنے داخلی مسائل کے باعث وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ 1806ء میں مملوکوں نے کئی مرتبہ ترک افواج کو شکست دیں اور جون کے مہینے میں دونوں افواج نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ جس کے تحت 26 مارچ 1806ء کو مصر کے گورنر مقرر کیے گئے محمد علی پاشا کو عہدے سے ہٹادیا گیا اور مصر کا ریاستی انتظام ایک مرتبہ پھر مملوکوں کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن مملوکوں کی داخلی کشیدگی اور تنازعات نے انہیں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیا اور محمد علی اپنی طاقت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
مصر میں مملوکوں کی طاقت کا خاتمہ
محمد علی جانتا تھا کہ اگر اسے مصر پر اپنی گرفت مضبوط رکھنی ہے تو اسے مملوکوں سے سودے بازی کرنا ہوگی۔ وہ اب بھی مصر کی زمینوں کے مالک ہیں اور ان کی زمینیں اب بھی دولت و طاقت کا ذریعہ ہیں۔
11 مارچ 1811ء کو محمد علی نے عرب میں وہابیوں کے خلاف اعلان جنگ کا جشن منانے کے لیے تمام مملوکوں کو محل میں مدعو کیا۔ قاہرہ میں منعقدہ اس تقریب میں تقریبا 600 مملوک (ایک ذریعے کے مطابق 700) شریک تھے۔ مکتمب پہاڑی سے نیچے آتی ہوئی ایک تنگ شاہراہ پر واقع دروازوں کے قریب محمد علی کی افواج نے ان پر حملہ کرتے ہوئے تقریبا تمام مملوکوں کو قتل کر دیا۔ روایت ہے کہ صرف ایک مملوک جس کا نام حسن تھا زندہ بچا۔
اگلے چند ہفتوں میں مصر بھر میں سینکڑوں مملوکوں کو قتل کیا گیا۔ صرف قاہرہ کے قلعے میں ایک ہزار مملوک قتل ہوئے۔ مصر بھر کی گلیوں میں تقریبا تین ہزار مملوک اور ان کے رشتہ دار قتل ہوئے۔
مصر میں مملوکوں کو زیر کرنے کی محمد علی کی ان کوششوں کے باوجود ان کا ایک گروہ جنوب کی طرف موجودہ سوڈان میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ 1811ء میں ان مملوکوں نے دنقولہ، سینار میں ریاست قائم کرلی۔

تیموری سلطنت
تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں تیموری سلطنت کے نام سے قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔
اس سلطنت کا بانی امیر تیمور تھا جس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ وہ دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور بے مثل سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔
بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا جو “یورش سہ سالہ” کہلاتی ہے اور اس مہم کے دوران ماژندران اور آذربائجان تک پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ اس مہم کے دوران اس نے گرجستان پر بھی قبضہ کیا۔
1391ء میں تیمور نے سیر اوردہ یعنی خاندان سرائے کے خان تختمش کے خلاف لشکر کشی کی اور دریائے قندزجہ کے کنارے موجودہ سمارہ کے قریب 18 اپریل کو اسے کو ایک خونریز جنگ میں شکست دی۔
روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا جو “یورش پنج سالہ” کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے دربند کے راستے پر حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے 18 اپریل 1395ء کو تختمش کو ایک اور شکست فاش دی۔ اس کے بعد تیمور نے پیش قدمی کرکے سیر اوردہ کے دار الحکومت سرائے کو تباہ و برباد کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس مہم کے دوران تیمور استراخان، ماسکو، کیف اور کریمیا کے شہروں کو فتح کرتا اور تباہی پھیلاتا ہوا براستہ قفقاز، گرجستان اور تبریز 798ھ میں سمرقند واپس آگیا۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398ء میں دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔
1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ کو شکست فاش دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ تاہم اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔ تیمور کے بعد اس کے کے جانشیں شاہ رخ نے تیموری سلطنت کو اس کے عروج پر پہنچا دیا۔ 1507ء میں شیبانی خان نے ہرات پر قبضہ کرکے وسط ایشیا میں تیموری اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
صفوی خاندان کی تاریخ
ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی سلطنت (Safavid Empire) تھی۔ جس نے تیموریوں کے بعد ایران میں عروج حاصل کیا۔ اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا چنانچہ انہی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلاتا ہے ۔
شیخ صفی الدین کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے تھے جو شیعی فرقہ اثنا عشری کے ساتویں امام ہیں لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ خاندان دراصل ترکی النسل تھا۔ شیخ صفی الدین اور ان کے بیٹے صدر الدین سنی عقائد رکھتے تھے۔ لیکن ان کے پوتے خواجہ علی نے شیعی مذہب اختیار کر لیا۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شیخ صفی الدین کے گھرانے کا لوگوں کا بڑا احترام تھا۔
جب امیر تیمور نے بایزید عثمانی پر فتح پانے کے بعد خواجہ علی (1392ءتا 1456) کو آذربائیجان کے شہر اردبیل اور اس کے نواح کا علاقہ دے دیا تھا۔ بعد میں خواجہ علی کے پوتے شیخ جنید (1447ءتا 1456ء) اور پڑپوتے شیخ حیدر (1456ءتا 1488ء) نے گوشہ نشینی چھوڑکر تلوار سنبھالی۔ یہ دونوں شاہ شیروان سے جنگ کرتے ہوئے مارے گئے ۔
شاہ اسماعیل صفوی جس وقت تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر اپنے ہمعصر بابر کی طرح صرف تیرہ سال تھی لیکن اس نے کم عمری کے باوجود حالات کا مقابلہ غیر معمولی ذہانت اور شجاعت سے کیا۔ باکو اور شیروان کو فتح کرنے کے بعد شاہ اسماعیل نے 1499ءمیں تبریز پر قبضہ کرکے آق قویونلو حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
1503ء تک اسماعیل نے جنوب میں شیراز اور یزد تک، مشرق میں استرایار تک اور مغرب میں بغداد اور موصل تک اپنی سلطنت کی حدوں کو بڑھالیا۔ ہرات میں تیموری حکمران حسین بائیقرا کے انتقال کے بعد شیبانی خان ازبک ہرات اور خراسان پر قابض ہو گیا تھا۔ 1510ء میں مرو کے قریب طاہر آباد میں شیبانی خان اور اسماعیل میں سخت جنگ ہوئی جس میں ازبکوں کو شکست ہوئی اور شیبانی خان مارا گیا۔ ازبکوں کی شکست کے بعد خراسان بھی اسماعیل کے قبضے میں آ گیا۔ اب وہ ایران، عراق اور شیروان کا بلا شرکت غیر ے مالک ہو گیا تھا اور اس کی طاقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔
شاہ اسماعیل کو اس کی فتوحات نے غرورمیں مبتلا کر دیا تھا۔ اس نے ایک عثمانی شہزادے مراد کو پناہ دی اور سلطان سلیم عثمانی کو تخت سے اتار کر شہزادہ مراد کو اس جگہ تخت پر بٹھانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شاہ اسماعیل کی اس ناعاقبت اندیشی نے اس کو سلطان سلیم سے ٹکرادیا۔ ایران اور ترکی کی موجودہ سرحد پر ترکی کی حدود میں واقع ایک مقام چالدران کے پاس 1514ءمیں دونوں میں خونریز جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگ چالدران کے نام سے مشہور ہے۔ ایرانیوں نے بڑی شجاعت سے ترکوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن ترکوں کی کثرت تعداد، توپ اور آتشیں اسلحے اور سلطان سلیم کی برتری فوجی مہارت کے سامنے ایرانی بے بس ہو گئے۔ ان کو شکست فاش ہوئی 25 ہزار ایرانی مارے گئے اور شاہ اسماعیل زخمی ہوکرفرار ہونے پر مجبور ہوا۔ سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر دار الحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیم کی واپسی پر تبریز اور آذربائیجان تو صفوی سلطنت کو واپس مل گئے لیکن دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کے صوبے ہمیشہ کے لیے صفویوں کے ہاتھ سے نکل گئے ۔

اسماعیل صفوی سے ایران کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے ایران کا شیعی دور کہا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل ایران میں اکثریت سنی حکمران خاندانوں کی رہی تھی اور سرکاری مذہب بھی اہل سنت کا تھا لیکن شاہ اسماعیل نے تبریز پر قبضہ کرنے کے بعد شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور اصحاب رسول پر تبرا کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت تبریز کی دو تہائی آبادی سنی تھی اور شیعہ اقلیت میں تھے۔ خود شیعی علما نے اس اقدام کی مخالفت کی لیکن کچھ نوجوانی کا گرم خون اور کچھ عقیدے کی محبت، شاہ اسماعیل نے ان مشوروں کو رد کرکے تلوار ہی کو سب سے بڑی مصلحت قرار دیا۔
شاہ اسماعیل صفوی نے صرف یہی نہیں کیا کہ شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا بلکہ اس نے شیعیت کو پھیلانے میں تشدد اور بدترین تعصب کا بھی ثبوت دیا۔ لوگوں کو شیعیت قبول کرنے پرمجبور کیا گیا، بکثرت علما قتل کر دیے گئے جس کی وجہ سے ہزار ہا لوگوں نے ایران چھوڑدیا۔ شاہ اسماعیل کی فوج “قزلباش” کہلاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسماعیل کے باپ حیدر نے اپنے پیروؤں کے لیے سرخ رنگ کی ایک مخصوص ٹوپی مقرر کی تھی جس میں 12 اماموں کی نسبت سے 12 کنگورے تھے۔ ٹوپی کا رنگ چونکہ سرخ تھا اس لیے ترکی میں ان کو قزلباش یعنی سرخ ٹوپی والے کہا گیا۔
ایران کی زبان اگرچہ فارسی تھی لیکن آذربائیجان کی اکثریت ترکی بولتی ہے چنانچہ شاہ اسماعیل کی زبان بھی ترکی تھی۔ وہ ترکی زبان کا شاعر بھی تھا اور خطائی تخلص رکھتا تھا۔ اس کے اشعار میں تصوف کا رنگ اور اہل بیت کی محبت پائی جاتی ہے اور ترکی زبان کی صوفیانہ شاعری میں اس کو اہم مقام حاصل ہے۔ استنبول سے اس کا ترکی دیوان بھی شائع ہوا۔
اسماعیل صفوی کا لڑکا طہماسپ جب تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 10 سال تھی اس کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ 1525ء تا 1540ء تک خراسان ازبکوں کے حملے کا نشانہ بنا رہا اور اس مدت میں شیبائی خان کے لڑکے جنید خان نے 6 حملے کیے جن سے ہرات اور مشہد وغیرہ کو بہت نقصان پہنچا۔ مغرب میں عراق کو ترکوں نے ایرانیوں سے چھین لیا اور تبریز اور ہمدان پر ترک کئی برس قابض رہے۔ ان تمام حملوں کے باوجود یہ طہماسپ اور ایران کی صلاحیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ انہوں نے ناسازگار حالات کے باوجود باقی ایران میں امن و امان قائم رکھا اور جارجیا یا گرجستان کے مسیحیوں کے خلاف 7 مہمیں بھیجیں اور گرجستان پر ایرانی قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
اس دور کا ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ انگلستان نے عثمانی ترکوں کے مقابلے میں ایران کا تعاون حاصل کرنا چاہا اور شمالی راستے سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے چاہے۔ اس مقصد کے لیے ملکہ ایلزبتھ اول نے ایک انگریز کو خط دے کر طہماسپ کے پاس روانہ کیا تو بادشاہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ “ہم کافروں سے دوستی نہیں کرنا چاہتے”۔
یہ شاہ طہماسپ کا ہی زمانہ تھا کہ بابر کا لڑکا ہمایوں جسے شیر شاہ نے ہندوستان سے نکال دیا تھا، 1543ء میں ایران آیا اور طہماسپ نے اس کی خوب آؤ بھگت کی اور فوجی امداد دی جس کی وجہ سے ہمایوں دوبارہ اپنی سلطنت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔
تبریز پر عثمانی قبضہ ہوجانے کی وجہ سے طہماسپ نے قزوین کو دار الحکومت منتقل کر دیا تھا۔ طہماسپ ان مسلمان حکمرانوں میں سے ہے جنہوں نے 50 سال سے زیادہ حکومت کی۔
طہماسپ کے جانشینوں شاہ اسماعیل ثانی اور محمد خدا بندہ کا دور غیر اہم ہے اور ان میں سے کوئی طہماسپ جیسی صلاحیتوں کا مالک نہ تھا۔ ان کے زمانے میں خراسان ازبکوں کے اور مغربی ایران عثمانیوں کے حملوں کا نشانہ بنا اور اندرون ملک بھی بے امنی رہی۔
عباس اعظم کا دور خاندان صفویہ کا عہد زریں ہے۔ محمد خدا بندہ کے بعد جب وہ ایران کے تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ایران کے شمال مغربی حصوں پر عثمانی ترک قابض تھے اور مشرق میں خراسان ازبکوں کے قبضے میں تھا یا ان کی تاخت و تاراج کا ہدف بنا ہوا تھا۔ اندرون ملک بھی بے امنی تھی اور صوبوں کے امرا سرکشی اختیار کیے ہوئے تھے۔
عباس نے اس صورت حال کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کر لیا اور آذربائیجان، گرجستان اور لورستان کا ایک حصہ اُن کے حوالے کر دیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آ رہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کر دیا۔ مغربی سرحد سے مطمئن ہونے کے بعد شاہ عباس نے خراسان کی طرف توجہ کی۔ ازبکوں کا طاقتور حکمران عبداللہ خان 1598ء میں مرچکا تھا۔ اس لیے شاہ عباس نے اسی سال آسانی سے ازبکوں کو خراسان سے نکال دیا اور صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کر دیں۔
صفوی سلطنت مختلف ادوار میں
مشرقی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے بعد شاہ عباس نے ترکوں سے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔ اس نے ترکوں کی فوج ینی چری کے نمونے پر ایک فوج تیار کی جو “شاہ سورن” کہلاتی تھی اور گرجستان اور آرمینیا کے نو مسلموں پر مشتمل تھی لیکن ایرانیوں کی سب سے بڑی کمزوری توپ خانے کی عدم موجودگی تھی۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا میں توپوں کا رواج ہوچکا تھا اور خود ایران کے مغرب میں عثمانی ترک اور مشرقی میں دہلی کے مغل سلاطین توپیں استعمال کر رہے تھے، ایرانی فوج ابھی تک اس اہم جنگی ہتھیار سے محروم تھی۔ مغربی قومیں صلیبی جنگوں کے زمانے سے اس پالیسی پر عمل پیرا تھیں کہ مشرق وسطیٰ کی طاقتور مسلمان حکومتوں کا زور توڑنے کے لیے دوسری مسلمان حکومتوں کا تعاون حاصل کریں۔ اس غرض سے انہوں نے مصر کے مملوکوں اور ترکی کے عثمانیوں کے خلاف منگولوں، باطنیوں اور آق قویونلو ترکمانوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی اور اب وہ عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لیے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ طہماسپ کے زمانے میں ملکہ ایلزبتھ اس مقصد میں ناکام ہو گئی تھی لیکن شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔
1599ء میں دو انگریز بھائی انتھونی شرلے اور رابرٹ لرشے ترکوں کے خلاف مسیحی اتحاد کے لیے ایران سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور ایران اور یورپ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے آئے۔ شاہ عباس نے ان سے کوئی معاہدہ تو نہیں کیا، لیکن ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہو گئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کر دیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ ہرمز چھین لیا اور خلیج فارس کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک بندر عباس کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔
شاہ عباس اگرچہ ایک کامیاب اور سمجھدار حکمران تھا لیکن اعظم کا لقب اس کو زیب نہیں دیتا۔ وہ انتہائی ظالم اور شکی مزاج تھا اس نے محض شک کی بنیاد پر اپنے ایک لڑکے کو قتل اور دو کو اندھا کر دیا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں 500 جلاد لوگوں کو قتل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، وہ بدترین مستبد حکمران تھا۔
صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور ہے لیکن شاہ عباس کے زمانے میں علم و ادب کے میدان میں تھوڑی سے زندگی نظر آتی ہے۔ اس کے درباری علما میں میر محمد باقر بن محمد داماد قابل ذکر ہیں۔ مطالعہ قدرت اور فلسفہ ان کا خاص موضوع تھا۔ بہاء الدین آملی اور صدر الدین شیرازی بھی جو ملا صدرا کے نام سے مشہور تھے، اس دور کی اہم علمی اور ادبی شخصیتیں ہیں۔ ملا صدرا کی فلسفے کی ضخیم کتاب “اسفار اربعہ” کا اردو میں 4 جلدوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
شاہ عباس کے زمانے میں فنون لطیفہ نے خاص طور پر فن تعمیر اور فن مصوری نے بہت ترقی کی۔ دارالحکومت اصفہان کو بڑی ترقی دی گئی اور شاندار عمارتیں بنائی گئیں۔ شروع میں صفویوں کادارالحکومت تبریز تھا لیکن وہ ہمیشہ عثمانی ترکوں کی زد میں رہتا تھا۔ اس لیے عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دارالسلطنت بنایا۔
عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو “اصفہان نصف جہان” کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ لاہور، دہلی اور آگرہ کی شاندار عمارات ابھی تعمیر ہی نہیں ہوئی تھیں۔ عباس نے اصفہان میں جو عمارتیں بنوائیں ان میں جامع مسجد، قصر چہل ستون، زندہ رود ندی کے دو پل اور چہار باغ بہت مشہور ہیں۔ یہ عمارتیں آج بھی اصفہان کی سب سے پرشکوہ عمارتیں ہیں۔
زوال اور خاتمہ
عباس کے بعد صفوی خاندان میں 4 حکمران ہوئے۔ عباس کا جانشیں شاہ صفی (1629ء تا 1641ء) نہایت ظالم اور سفاک تھا۔ اس کے عہد میں 1634ء میں بغداد پر ترکوں نے اور 1638ء میں قندھار پر دہلی کے مغلوں نے قبضہ کر لیا۔ اگرچہ خراسان پر ازبکوں کے حملے اس نے پسپا کر دیے۔
عباس دوم (1641ء تا 1668ء) کے عہد میں ایران کو پھر خوشحالی نصیب ہوئی۔ رعایا کے ساتھ اس کا سلوک منصفانہ تھا۔ اس نے 1649ء میں قندھار پھر واپس لے لیا۔ اس کا جانشیں سلیمان (1668ء تا 1694ء) اپنے باپ کی پالیسی پر چلتا رہا اور اس کا دور عہد صفویوں کا آخری پرامن دور تھا۔
سلیمان کے بعد صفویوں کا زوال شروع ہو گیا۔ آخری حکمران شاہ حسنین (1694ء تا 1722ء) نا اہل ثابت ہوا۔ شیعہ علما کے زیر اثر آکر اس نے سنیوں پر مظالم کیے جس کا نتیجہ افغانوں کی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ قندھار کے افغانوں نے دہلی کے مغلوں سے بچنے کے لیے خود کو ایران کی حفاظت میں دے دیا تھا لیکن جب ایرانیوں نے ان پر سختی کی تو انہوں نے اپنے ایک سردار میر اویس کی قیادت میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1715ء میں اویس کے انتقال کے بعد اس کے جانشیں امیر محمود نے ایران پر حملہ کر دیا اور 1722ء میں اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
صفوی دور کی خصوصیات
صفوی سلطنت ایران کی آخری طاقتور اور پرشکوہ حکومت تھی۔ ساسانیوں، سلجوقیوں اور تیموریوں کی طرح صفویوں نے بھی دنیا بھر میں ایران کا بڑا نام کیا۔ صفوی حکومت سوا دو سو سال قائم رہی۔ اس زمانے میں علمی ترقی جس میں ایران ہمیشہ سے ممتاز رہا، بالکل ختم ہو گئی۔ اس لیے صفوی دور میں ایسے بڑے بڑے عالم اور مصنف پیدا نہیں ہوئے جیسے پچھلے دور میں ہوئے تھے۔ کچھ شاعر اور مؤرخ البتہ پیدا ہوئے لیکن وہ بھی ایران چھوڑ کر دہلی اور آگرہ چلے گئے کیونکہ وہاں ان کی سرپرستی صفویوں سے زیادہ کی جاتی تھی۔ صفوی دور صرف فن تعمیر اور مصوری کی وجہ سے مشہور ہے۔ رضا عباسی اور میرا اس زمانے کے مشہور مصور ہیں۔ ایران کا سب سے بڑا مصور بہزاد آخری زمانے میں تبریز آ گیا تھا جو اس وقت شاہ اسماعیل کا دارالسلطنت تھا۔
صفوی دور میں صنعت و حرفت کو بھی ترقی ہوئی، بہترین قسم کے سوتی اور ریشمی کپڑے تیار ہونے لگے اور ایران کے مشہور قالین کی صنعت نے عروج پایا۔ صفویوں کے بعد ان صنعتوں کو بھی زوال ہو گیا۔
صفویوں کا سب سے بڑا کارنامہ ایران میں فوجی حکومت کا قیام بتایا جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے ایران کی سنی آبادی کو جس طرح بزور شمشیر شیعہ بنایا اور علما کو قتل کرایا وہ تاریخ اسلام کا ایک کریہہ باب ہے۔ ایران میں شیعیت کے فروغ نے اور اس معاملے میں ایرانیوں کے غلو اور تعصب نے ایران کو باقی اسلامی دنیا سے کاٹ دیا اور اپنے پڑوسیوں کو بھی اپنا دشمن بنالیا۔ اسلامی دنیا سے کٹ جانے سے ایران کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایرانیوں کی تخلیقی قوتوں کے اظہار کے راستے بند ہو گئے اور ایران باقی اسلامی دنیا کے افکار سے پہلے کی طرح استفادہ کرنے سے محروم ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایران قبول اسلام کے بعد سے تیموری دور تک عالمی اسلام کے بہترین دماغ پیدا کرتا رہا اسی ایران کی سرزمین عہد صفوی میں اہل علم و کمال کے لیے بنجر ہو گئی۔ اس کے بر خلاف بر صغیر کے تیموری سلاطین نے رواداری اور وسعت قلبی کا ثبوت دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کے صاحب کمال ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور تیموری مملکت میں علم و ادب کو غیر معمولی فروغ ملا۔ ایران میں متعصب شیعی حکومت قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی دنیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ برصغیر اور ترکستان کا دنیائے عرب اور ترکی سے روایتی تعلق بڑی حد تک ختم ہو گیا اور مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف علوم و افکار کی منتقلی میں رکاوٹیں پڑگئیں۔ یہ بات ایران ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے زوال کا باعث بنی۔ موجودہ دور کے ایرانی مورخین بھی صفوی سلاطین کے مذہبی مظالم، تنگ نظری اور تعصب کی مذت کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ صفوی سلاطین نے ایرانیوں کو شیعیت پر متحد کرکے ایران کے قومی وجود کا تحفظ کیا ورنہ ایران بھی سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن جاتا۔
مغلیہ سلطنت
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
ابتدائی تاریخ
سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو سلطنتِ دہلی کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف مشہورِ زمانہ پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ علاوہ ازیں وہ آپس میں معرکہ آرا تھے۔
فتوحات اور توسیع کا دور
1526ء میں دہلی اور آگرہ کی فتح کے بعد صرف چند ماہ میں بابر کے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں نے ابراہیم لودھی کی تمام سلطنت کو زیر کر لیا۔ 1527ء میں میواڑ کے حاکم سنگرام نے اجمیر اور مالوہ کو اپنی عملداری میں لے رکھا تھا۔
مذہب
یہ بات واضح ہے کہ مغل سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی ) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہو گیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔
چغتائی ترکی مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان قرار دی جاتی ہے۔ اس زبان میں مغل سلطنت کے دفتری امور تو سر انجام نہیں دئے جاتے تھے اور نہ ہی سلطنت کے لیے اہمیت رکھتی تھی تاہم بابر اس میں شعر و شاعری لکھتے تھے۔ فارسی کو مغل سلطنت میں دفتری اور رسمی زبان تھی لیکن جب اردو زبان وجود میں آئی تو اردو دفتری زبان بنی۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں اردو عوام کی زبان تھی۔ جبکہ سرکاری کام کاج کے لیے فارسی کا استعمال کرتے تھے۔ ولی اورنگ آبادی اورنگ زیب کے دورِ حکومت میں دہلی آئے۔ یہ اردو میں بڑے پیمانے پر شعروشاعری کا باعث بن گیا۔

جانشینی کی جنگیں
تیموری روایت تھی کہ بادشاہ کہ مرنے کے بعد شاہی تخت کا وارث بادشاہ کا بڑا بیٹا ہی ہو لیکن تخت کی لالچ نے اس روایت کو روند ڈالا۔ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی جو شہزادہ اپنے حریفوں کو شکست دے دیتا وہ تخت مغلیہ کا وارث بن جاتابابر کو اپنے ماموں اور چچا سے لڑنا پڑ ااس کا بھائی جہا نگیر مرزابھی اس کے لیے دردر سر بن گیا ۔بابر کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں بادشاہ بنا اسے اپنے بھائیوں کی دشمنی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہر محاذپر اس کے ساتھ دشمنی کی ہمایوں کو افغان سرداروں کی مخالفت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑامگر اس کے بھائی اسے شکست دے کر تخت دہلی حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے قدم قدم پر اسے پریشان کیا افغان سردار شیر خان سوری نے اسے شکست دے کر دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا ہمایوں دہلی چھوڑ کر لاہور پہنچا، افغان فوج نے اسے لاہور سے بھی بھگا دیا، ہمایوں شکست کھا کر ملتان جاپہنچا ۔کامران مرزا نے ملتان میں قیام کے دوران اس کی خواب گاہ کو توپ سے اڑانے کی کوشش کی۔ مگر ہمایوں محفوظ رہا بالآخر وہ سندھ کے راستے ایران جاکر پناہ گزین ہوا۔ پندرہ سال بعد 1555ء میں اس نے ایک بار پھر مغل سلطنت حاصل کی مگر ایک سال سے کم عرصہ میں اس کا انتقال ہو گیا ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ بنا۔ کسی نے اکبر کی مخالفت نہیں کی صرف اس کا سوتیلا بھائی مرزا عبد الحکیم سازشی امرا کے بھڑکانے پر فوج لے کر لاہورپر حملہ آور ہو امگر اکبری فوج نے اسے شکست دے کر گرفتار کر لیا اس نے تمام عمر قید میں گزاری۔
اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہو ا،اس کے بیٹے خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ جہانگیر نے باغی فوج کو شکست دے کر باغیوں کو سرعام پھانسی دی اور شہزادہ خسرو کو اندھاکروادیا اس نے تمام عمر قید میں گزاری۔جہانگیرکے بعد شہزادہ خرم شاہجہان کے لقب سے تخت نشین ہوا اس کی مخالفت اس کے بھائی شہزادہ شہر یار اور شہزادہ داور بخش نے کی مگر شاہجہان کے وفاداروں نے انہیں شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ شہزادے شہریار کو اندھا کر دیا گیا جبکہ شہزادہ داور بخش مارا گیا ۔
1658ء میں شاہجہان کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں (داراشکوہ،اورنگ زیب ،شجاع اور مراد )کے درمیان تخت کے حصول کے لیے خونریز جنگیں ہوئیں جس میں اورنگ زیب کو فتح نصیب ہوئی جب کہ تمام شہزادے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہان کو لال قلعے میں نظر بند کر دیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جانشینی کی جنگ چھڑ گئی `جس میں شہزادہ اعظم ،معظم اور کام بخش نے حصہ لیا شہزادہ معظم کامیاب رہا جبکہ دوسرے شہزادے جنگوں میں مارے گئے۔ اورنگ زیب کی وفات کے دس سال بعد کے عرصہ میں سات خون ریز جنگیں ہوئیں جس میں مغل حکومت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ لاتعداد جرنیل،سپاہی اور جنگی فنون کے ماہرین مارے گئے۔ جس کی وجہ سے مغل یہ سلطنت کمزور ہو گئی ۔
نوابوں کی بڑھتی طاقت و اثر و رسوخ
مغل حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بہت سے صوبے دار باغی ہو گئے۔ انہوں نے مرکز کی اطاعت سے انکار کر دیا۔ بنگال کے صوبے دار علی وردی خان نے بنگال کے حکمران ہونے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی حکومت میں اتنی ہمت نہ تھی اس کو سزا دی جاتی۔ حیدرآباد دکن کا صوبہ نظام الملک کے زیرحکومت تھا۔ اس نے بغاوت کرکے خود کو وہاں کا حاکم قرار دیا۔ مرکز نے اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ کی۔ پنجاب میں سکھ اور درانی حکومت کر رہے تھے۔ روہیل کھنڈ کی ریاست روہیلہ سرداروں کے ماتحت تھی۔ بعض علاقوں میں مرہٹے چھائے ہوئے تھے۔ سلطنت مغلیہ سمٹ کر دہلی کے گردونواح تک رہ گئی تھی۔ کوئی ایسا مضبوط حکمران نہ تھا جو ان باغیوں کی سرکوبی کرکے یہ علاقے دوبارہ مرکز کا حصہ بناتا۔
مراٹھا شورش
مرہٹے جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے، مذہب کے لحاظ سے ہندو تھے، متعصب اور متشدد تھے۔ ان کی سرکوبی کے لیے اورنگ زیب کو کئی سال خرچ کرنا پڑے۔ ان کا سردار سیوا جی ایک عام سردار سے زیادہ نہ تھا، مگر اس نے مقامی حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کئی شہروں اور قلعوں پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت کو مضبوط کیا۔
سکھ شورش
شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات (1707ء)کے بعد مغل شہزادے تخت کے حصول کے لیے جنگوں میں الجھ گئے۔ اس دوران سکھ سرداروں نے اپنی عسکری طاقت کو مضبوط کر لیا۔ انہوں نے بہادر شاہ اول کے دور میں مغل حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ انہیں ایک متشدد، ظالم اور مسلم دشمن قائد مل گیا، جس کا نام بندہ بیراگی تھا، جو تاریخ کے اوراق میں بابا بندہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے پنجاب کے علاقوں جالندھر،گرداسپور، فیروزپور، پٹھان کوٹ کو تباہ و برباد کیا اور قتل وغارت کی انتہا کر دی۔ اس کے ظلم کا نشانہ مسلمان بنتے تھے۔ اس نے مسلمان عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو وسیع پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے ظلم کی داستانیں دہلی دربار تک پہنچ گئیں۔ اس پر بادشاہ نے اس کے خلاف شاہی فوجیں روانہ کیں۔ شاہی فوج کی کارروائیوں پر یہ لوگ جنگلوں میں چھپ جاتے اور موقع ملتے ہی چھاپہ مار کارروائیوں سے شاہی فوج کو نقصان پہنچاتے۔ یہ فتنہ 1718ء میں فرخ سیر کے دور میں ختم ہوا، جب بندہ بیراگی مارا گیا، مگر سکھ فتنہ کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔
پنجاب کے گورنر میر معین الملک عرف میر منو نے سکھوں کے اس فتنہ کے تدراک کی کوششیں کیں۔ وہ قصور میں سکھوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے گیا، سکھ اس کی آمد کی خبر سن کر بوکھلا گئے۔ جنگ کے بعد وہ اپنی گھوڑی پر سواری کا لطف اٹھا رہا تھا کہ گھوڑی بے قابو ہو گئی۔ میر معین نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی، مگر ناکامی ہوئی۔ اس حادثہ میں میر معین مارا گیا۔ بعض لوگوں نے اسے سازش قرار دیا، مگر حقائق سامنے نہ آسکے۔
اس کی موت کے بعد اس کی بیوی مغلانی بیگم نے اپنے تین سالہ نابالغ بیٹے کی سر پرستی کی اور پنجاب کی حکمران بن گئی۔ یہ دور سازشوں کا دور تھا، ہر شخص حاکم پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہاتھا۔ اس دوران احمد شاہ درانی نے پنجاب پر حملے کیے تاکہ سکھوں کا زور توڑا جائے، مگر سکھ سردار جونہی اس کی آمد کی خبر سنتے جنگلوں اور اپنے محفوظ مقامات پر چھپ جاتے۔ مگر جونہی شاہی فوج واپس ہوتیں سکھ ایک بار پھر کارروائیاں شروع کردیتے۔ احمد شاہ درانی نے اپنے بیٹے تیمور شاہ کو حاکم پنجاب مقرر کیا اور مغلانی بیگم کو جاگیر دے کر حکومتی امورسے دستبردار کر دیا۔
اس دوران مرہٹے اور سکھ متحد ہو گئے۔ انہوں نے مل کر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ افغان سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے، انہوں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں اور دریائے سندھ پارکرکے دم لیا۔ پنجاب کے صوبے دار آدینہ بیگ نے ان کا بھر پور مقابلہ کیا۔ لاتعداد سکھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔ چنانچہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں اس کی رہائش گاہ پر شب خون مارا، جس سے آدینہ بیگ جاں بحق ہو گیا۔ اب سکھوں کا راستہ روکنے ولاکوئی نہ تھا اور مغل شہنشاہ بالکل بے بس تھے۔ لاہور شہر کے عوام تین سکھ سرادروں (لہنا سنگھ، چڑت سنگھ اور گوجر سنگھ) کے درمیان ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج
24 ستمبر، 1599ء میں برطانیہ کے تاجروں نے مل کر ایک تجارتی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیا گیا۔ ملکہ برطانیہ (ملکہ الزابیتھ) کی طرف سے اسے ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں تجارت کرنے کی اجازت دی گئی۔ 1612ء میں کمپنی کے سربراہوں نے فیصلہ کیا کہ تجارت کا دائرہ کار ہندوستان تک وسیع کیاجائے اس سلسلہ میں انہوں نے ملکہ برطانیہ سے گزارش کی کہ برطانوی سفیر کے ذریعے مغل بادشاہ جہانگیر سے تجارت کے لیے اجازت دلوائی جائے۔ چنانچہ حکومت برطانیہ نے سر تھامس رو کو مغل بادشاہ کے پاس روانہ کیااس خط میں شہنشاہ ہندوستان نور الدین محمد جہانگیر سے گزارش کی گئی وہ برطانوی تاجروں کو سورت اور دیگر شہروں میں تجارت کی اجازت دی جائے، انہیں رہائش گاہوں،گودام خانے تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے اور اپنے سامان تجارت کی حفاظت کے لیے پہرے دار اور اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ شہنشاہ جہانگیر نے خط کے جواب میں یہ لکھوایا کہ میں نے اپنے تمام صوبائی حکمرانوں کو حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ برطانوی تاجروں کو ہندوستان میں اشیاء کی خرید وفروخت ،نقل وحرکت اور رہائش کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس نے مزید یہ بھی کہا کہ برطانوی تاجر شاہی محلات کے لیے اشیاء لا سکتے ہیں۔
اسلحہ رکھنے کی فی الحال انہیں اجازت نہیں دی گئی مگر پہرے داروں کی شکل میں برطانوی تاجروں نے تربیت یافتہ سپاہ تیار کرلی۔ انہوں نے مختصر وقت میں گوا،چٹاگانگ اوربمبئی میں اپنے تجارتی ٹھکانے بنا لیے۔ انہوں نے پرتگیز ،ڈچ،اسپینی تجارتی کمپنیوں نے جہازوں پر حملے کیے تاکہ ان کی طاقت کو توڑا جائے اس طرح انہوں نے سورت،مدراس،کلکتہ میں اپنی طاقت مستحکم کر لی۔ انہوں نے فورٹ ولیم،فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کا قلعہ آباد کیے انہوں نے مقامی آبادی کے لوگوں کو اپنا ملازم رکھا مقامی آبادی کے لوگ ان کے اخلاق اور دیانت داری کے قائل ہو گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں