421

بیانیہ سے آگے


پچھلے کچھ دنوں سے جو کچھ پاکستان کی سیاست کی منڈی میں ہو رہا ہے۔ وہ ایک طوفان بد تمیزی اور پاکستان کے وقار اور سالمیت کے خلاف ہے میرے یے یہ بات سمجھنا نہایت مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں اور ایک خاموش سی قدغن ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کی ریاست اور ریاستی اداروں مثلاً فوج ، عدلیہ پر ہر قسم کے الفاظ میں نام لے لے کر تنقید و تضحیک کی جا رہی ہے ۔ کبھی مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کی طرف سے ہر زہ سرائی ہوتی ہے جسے آپ ایک سینئر سیاستدان کا غصہ یا بیماری اور ناکامی کا نام دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور کہیں کھلے عام جنرلز اور ججوں کے نام لے کر ان کی تضحیک کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر جب سابق وزیر اعظم کی بیٹی مریم بی بی کھلے عام اداروں کو اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کی وجہ سے نشانہ بناتی ہیں تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ خود بخود مرتا دکھائی دیتا ہے۔
ناقابل فہم بات یہ ہے کہ کیا واقعی تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے میاں نوازشریف صاحب اپنی ذات اور بیٹی کے دفاع میں اس حد تک جا سکتے ہیں کہ انتہائی اہم ملکی راز افشاء کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ پچھلے کچھ سالوں میں دو تین مواقع ایسے آئے ہیں جب میاں صاحب نے پاکستان کے اداروں پر تنقید اس حد تک کی کے وہ دشمن ملکوں خصوصاً بھارتی چینلز کی ہیڈلائنز بن گئے ۔ اس طرح حالیہ دنوں میں سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے جس انداز میں حکومت سے زیادہ اداروں اور بالخصوص فوج اور اسکے کردار پر تنقید کی ہے۔ وہی پچھلے کچھ دنوں سے آئے روز بھارتی چینل کی ہیڈ لائنز بن رہی ہے۔ میجر گورو آریہ، ارناب گو سامی اور اس جیسے دوسرے صحافی اور سابق بھارتی فوجی کھل کر پاک فوج پر تنقید اور نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں گویا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کے سابق وزیر اعظم اپنے جمہوری بیانیے سے ہٹ کر اداروں کی تذلیل و تضحیک والا بیانیہ کیوں اپنا رہے ہیں۔
بحیثیت برطانوی شہری میں یہ بات برملا کہہ سکتا ہوں کہ برطانیہ اور یورپ جہاں بلا شبہ آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر وہاں بھی سیاستدانوں ،شہریوں اور میڈیا کے لیے کچھ سرخ فیتے یعنی ریڈ لائنز ہیں۔ اور اس میں سب سے بڑی ریڈ لائن فوج کے خلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی کی اجازت نہیں ہے اس طرح وہاں بھی MI5, MI6جیسے اداروں یا سکاٹ لینڈ یارڈ کے خلاف کچھ بھی لکھنا جرم ہے بلکہ وہاں کا قانون بھی فوری حرکت میں آجاتا ہے اور میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے اور کسی بھی صورت ایسی کسی چیز فرد یا عنصر کی تشہیر نہیں کرتا ہے جس کا مقصد ملکی سلامتی یا وقار کے منافی ہو۔
اس طرح یورپ اور مغربی دنیا جنہیں ہم ترقی یافتہ قومیں کہتے ہیں وہاں پر بھی ملکی سلامتی اور وقار کے حوالے سے کچھ حدود و قیو دہیں۔ جس انداز میں میاں نواز شریف صاحب کھل کر اداروں کے خلاف بول رہ ہیں یہ بات سمجھنا نہایت آسان ہے کہ میاں صاحب نے واپس نہ آنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بد قسمتی سے اُنکے حالیہ بیانات اور تقاریر سے ملکی دشمنوں کو تو فائدہ پہنچے گا مگر مسلم لیگ ن اور اسکے ووٹرز کے لیے اپنے قائد کا دفاع کرنا آئندہ آنیوالے دنوں میں مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
کہیں ایک طرف میاں شہباز شریف صاحب خود اپنی درخواست واپس لے کر جیل چلے جاتے ہیں دوسری طرف مریم بی بی کھل کر میاں نواز شریف صاحب کے نئے بیانیے اور اداروں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر چل پڑی ہیں اس ساری صورتحال میں اپوزیشن خود تتر بتر ہوتی نظر آرہی ہے ۔ گو کہ مسلم لیگ نے اپنے 5اراکین کو پارٹی اور اسمبلیوں سے فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس سے آئندہ آنیوالے دنوں میں مسلم لیگ کے اندر نواز مخالف بیانیے کے ساتھ بنتے دھڑے کو روکا نہیں جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مریم بی بی ، نواز شریف صاحب اور ساری اپوزیشن ہوش کے ناخن لے اور دشمن قوموں کے بیانیے کو تقویت دینے سے گریز کریں۔
ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت کو چاہیے جہاں اپوزیشن سے مذاکرات ضروری ہیں وہ ضرور کیے جائیں مگر ساتھ ساتھ ملکی قوانین کو بہتر بنائیں اور عدلیہ اور دوسرے اداروں کے تحفظ کے لیے بہتر قانون سازی کریں۔ تاکہ ہر ایک جان سکے کے ملکی مفادات اور تحفظ کے خلاف بولنے والوں کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر رد عمل آئے گا بلکہ قانون بھی حرکت میں آئے گا۔ جبکہ سیاست اور کھیل اپنی جگہ لیکن پاکستان کی سلامتی اور اداروں کا وقار اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
حال ہی میں لاہور میں میاں نوازشریف اور دوسروں پر درج ہونیوالی غداری کی FIRکو انہونی نہیں بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں اس کا قومی امکان تھا مگر اس FIRسے ہر گز یہ مطلب نہیں کے میاں صاحب یا ان کی پارٹی غدار ثابت ہو گئی ہے بلکہ میری طرح پاکستانیوں کی مجموعی اکثریت میاں صاحب کو غدار نہیں بلکہ ایک نا سمجھ شخص کے طور پر دیکھتی ہے جو دشمن کے ہاتھ ہی میں کھیل رہے ہیں نہ تو FIR سے کوئی غدار ہو جاتا ہے اور نہ ہی قائد اعظم ثانی کہلوانے سے کوئی قائد اعظم بن سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں