200

تاج ِ برطانیہ ہندوستانی پریس سے کتنا خائف تھا ؟


ہندوستان میں پہلا پرنٹنگ پریس پرتگیزیوں نے گوا میں 1556ء میں لگایا تھا ۔اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ ہوا یوں کہ ایک مسیحی مبلغ سینٹ فرانسس زاویئر 1540ء کی دہائی میں تامل ناڈو میں تبلغ کے لئے آئے ۔اس عرصے میں پرتگال کے بادشاہ جائو سوم کے ایما پر گوا کے وائسرائے نے ہندوستانیو ں کے لئے ایک سکول قائم کر دیا تھا ۔فرانسس زاویئر نے پرتگال کے بادشاہ کو خط لکھا کہ وہ ہندوستان، جاپان اور ایتھوپیا کے لئے پرنٹنگ پریس اور ان کے ساتھ رومن کیتھولک فرقے کے مبلغین بھی بھیجے ۔ بادشاہ نے بحری جہاز پر پادریوں کے ہمراہ پرنٹنگ پریس روانہ کر دیا ۔جہاز جب گوا پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایتھوپیا کے شہنشاہ نے عیسائی مبلغین کو اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اس لئے یہ جہاز گوا کے پادری کی درخواست پر وہیں رک گیا اور یہ پرنٹنگ پریس گوا میں سینٹ پال کالج میں لگا دیا گیا ۔ اس طرح جرمنی میں جانز گوتھم برگ کی جانب سے 1436ء میں ایجاد ہونے والا پریس تقریباً120سال بعد ہندوستان پہنچ گیا تھا ۔
ایشاء کا پہلا اخبار ہندوستان سے نکلا :
ایسٹ انڈیا کمپنی نے بمبئی میں 1664ء میں پہلا برطانوی پریس لگایا تاہم پہلے ہندوستانی اخبار کی اشاعت29 جوری کو 1780ء میں بنگال گزٹ کے نام سے کلکتہ میں ہوئی جو اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالحکومت تھا ۔ اسی بنگال گزٹ کو ایشیا ء کے پہلے اخبار کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ اس کا پبلشر ایک سکاٹش جیمز اگاسٹس ہکی تھا ۔اس اخبار کی ہر ہفتہ کو چار سو کاپیاں چھپتی تھیں اور قیمت ایک پیسہ تھی ۔ جیمز ایسٹ انڈیا کمپنی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا تھا اور لکھتا تھا کہ اس کے افسران اور اشرافیہ مالی بے ظابطگیوں میں ملوث ہیں حتی ٰ کہ ہندوستان میں مشنریز جو پیسہ لگا رہی ہیں ان میں بھی بدعنوانی موجود ہے ۔ جیمز کی جانب سے الزامات کے جواب میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے 18 نومبر 1780ء کو اپنا اخبار انڈین گزٹ نکال لیا۔اگلے سال جیمز کے الزامات کے خلاف مقدمہ بنا دیا گیا جس کے تحت جیمز کو سات سال کی سزا ہوئی ، اسے جیل بھیج دیا گیا اور اس کا پریس نیلام کر دیا گیا جسے انڈین گزٹ نے ہی خرید لیا ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کا مرکز ہونے کی وجہ سے کلکتہ میں اگلے چند سالوںمیں مزید اخبار نکلے جن میں 1784ء میں کلکتہ گزٹ ، 1785ء میں بنگال جرنل ، اورینٹیل میگزین آف کلکتہ اور 1786ء میں کلکتہ کرونیکل شامل تھے ۔مدراس کوریئر 1788ء اور بمبئی ہیرالڈ 1789ء میں شروع ہوئے ۔ ششی تھرور اپنی کتاب ’’ان ایرا آف ڈارک نیس ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ یہ اخبارات محض چھوٹی سی یورپی کمیونٹی کے مفادات کے عکاس تھے جن میں تجارتی مفادات سب سے اہم تھے ان میں جہازوں کی آمدو رفت اور کالونی کے نظم و نسق میں بہتری کی خبریں مہیا کی جاتی تھیں ۔انہوں نے ہی ہندوستان میں اخباری کلچر پروان چڑھا یا۔ان ابتدائی اخبارات میں کوئی بھی اپنے قدم جما نہیں سکا لیکن مستقبل کے اخبارات کی راہیں ہموار ہو گئیں ‘‘۔ اسی دور میں مقبول اخبارات ٹائمز آف انڈیا 1838ء اور کلکتہ سٹیٹس مین 1875ء میں شروع ہوئے ۔پہلا گجراتی اخبار بمبئی سما چار 1822ء میں شروع ہوا ۔اس کے بعد بنگالی زبان کے اخبارات دی بنگالی اور امرتا بازار پتریکا بھی شروع ہوئے ۔ مدراس سے ’’دی ہندو ‘‘ کا اجرا 1878ء میں ہوا ۔لاہور سے پہلے اخبار کا اجرا1856ءمیں سید محمد عظیم نے کیا تھا جو دہلی میں ایک اخبار دہلی گزٹ پوسٹ میں کام کرچکے تھے ۔سول اینڈ ملٹری گزٹ کا اجراء1872ء میں شملہ سے ہوا تھا جس کا مقصد مرکزی حکومت کے کارکردگی کو عوام تک پہنچانا تھا ۔ ششی تھرور نے رپورٹ کیا ہے کہ 1875 ء تک ہندوستان میں تقریباً475اخبارات و جرائد شائع ہو رہے تھے ۔

ہندوستانی پریس سے متعلق برطانوی قوانین :
ایسٹ انڈیا کمپنی کی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے لارڈ ویلز نے سنسر شپ آف دی پریس ایکٹ 1799ء متعارف کروایا جو کہ ہندوستان کے تمام اخبارات و جرائد کو حکومت ِ ہند کے محاسبہ کے تحت لے آیا بعد میں اس ایکٹ کو 1807ء میں توسیع دی گئی ہر پرنٹ شدہ چیز بھی اس اجازت سے مشروط کر دی گئی ۔اس ایکٹ کی وجہ سے سرکش پریس بند کر دیا گیا ۔انڈین ورلڈ ، بنگال گزٹ اور کلکتہ جرنل کے مدیران نہ صرف گرفتار ہوئے بلکہ انہیں انگلینڈ ڈی پورٹ بھی کر دیا گیا ۔ لیکن انگلینڈ میں آزادی اظہار رائے کی بڑھتی ہوئی تحریک کا اثر ہندوستانی پریس پر بھی ہوا ۔ادھر دوسری جانب کمپنی کی گرفت ہندوستان پر مضبوط ہو گئی اور اسے یورپی حریفوں کا خطرہ بھی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے ہندوستانی پریس نے نہ صرف قارئین کا ایک حلقہ بنا لیا بلکہ خود کو اشرافیہ کے ایک قابل اعتماد ستون کی حیثیت سے بھی منوا لیا ۔اخبارات و جرائد کے اجرا ء کو لائسنس سے مشروط کر دیا گیا اور یہ ایکٹ لائسنسنگ ایکٹ 1823ء کہلایا ۔ پھر پریس ایکٹ 1835ء آیا۔ لائسنسنگ ایکٹ 1857ء ، رجسٹریشن ایکٹ 1867ء، عمومی پریس ایکٹ 1878ء ، نیوز پیپر ایکٹ 1908ء اور انڈین پریس ایکٹ 1910ء شامل تھے ۔ ہندوستانی اخبارات کا مقصد شروع میں قوم پرستی کی تحریکوں کو ہو ادینا تھا ۔ شروع میں ان کادائرہ اثر بڑے شہروں تک محدود تھا لیکن لائبریریوں کے قیام اور ہندوستان میں ٹرین کی آمد کی وجہ سے ان کی پہنچ دوردراز کے علاقوں تک بھی پہنچ گئی تھی ۔ ہندوستانی میڈیا بخوبی جانتا تھا کہ ا س کی آزادیاں محدود ہیں ۔کیونکہ انڈین پینل کوڈ سیکشن 12اے کے تحت کسی بھی صحافی کو کارِ سرکار میں مداخلت کی بنا پر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی تھی ۔جس کا حل میڈیا نے یوں نکالا تھا کہ وہ ہر مطالبہ یاتنقید کرتے ہوئے پہلے تاج برطانیہ کی وفاداری کا اظہار کرتا اور پھر اپنا مدعا بیان کرتا اور جہاں اس سے بھی کام نہ چلتا تو وہ برطانیہ اور آئر لینڈ کے قوم پرست تنقید نگاروں کا حوالہ دینا ہی کافی سمجھتا ۔لارڈ لیٹن کی انتظامیہ کے دوران ہندوستانی میڈیا کا انداز جارحانہ تھا تاہم انہوں نے سخت قوانین لا کر اسے کنٹرول کر لیا ۔ سریندر بینر جی وہ پہلے ہندوستانی صحافی بن گئے جنہیں 1883ء میں جیل جانا پڑا ۔ انہوں نے کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کے فیصلے سے بنگالیوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد بنگال میں قحط اور طاعون کی وبا کے دوران بھی برطانوی راج پر تنقید کی وجہ سے کئی اخبار نویسوں پر کڑاوقت آیا ۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں
پریس کا کردار :
بیسویں صدی کے آغاز میں جب یہاں کے باشندوں میں سیاسی بیداری کی تحریکیں اٹھیں تو انہوں نے اپنی آواز اشرافیہ تک پہنچانے کے لئے پریس کا سہارا لیا ۔مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے اخبارات نکالنے شروع کر دیے ۔بمبئی کرونیکل کو کانگریس کے صدر سر فیروز شاہ نے 1910ء میں شروع کیا ۔کانگریس کے ہی حمایتی اور کاروباری برلا خاندان نے 1924ء میں ہندوستان ٹائمز کا جراء کیا ۔ جواہر لال نہرو نے 1938ء میں نیشنل ہیرالڈاور محمد علی جناح نے 1941ء میں کراچی اور دلی سے ڈان کا اجراء کیا ۔ اس کے علاوہ لالہ لاجپت رائے کا پنجابی ،موتی لال نہرو کا انڈیپنڈنٹ ، دادابھائی نورو جی کا وائس آف انڈیا اور راست گفتار ، راجہ رام موہن رائے کا مراۃ الاخبار اور داوندرا ناتھ ٹیگور کا انڈین مرر بھی نمایاں اخبارات میں شامل تھے ۔

لارڈ مائونٹ بیٹن کا تقرر جب آخری وائسرائے کے طور پر ہوا تو وہ اپنے ساتھ لندن سے ایلن کیمبل جانسن کو بطور پریس اتاشی لائے ۔اس سے پہلے جتنے بھی وائسرائے ہندوستان آئے تھے ان کے سٹاف میں پریس اتاشی کا عہدہ موجود نہیں تھا ۔جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ تاریخ کے ان نازک لمحات میں وہ ہندوستان کے آزاد میڈیا کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ تھے اور ان نزاکتوں سےبھی واقف تھے جن کا سامنا انہیں ہو سکتا تھا ۔ اس لئے وہ نہ صرف اپنے سب سے معتمد خاص ایلن کیمبل جانسن کو ساتھ لائے بلکہ انہیں اپنے پریس اتاشی کی ذمہ داری بھی دی ۔ ایلن کیمبل جانسن نے ’’مشن ود لارڈ مائونٹ بیٹن ‘‘ کے نام سے اپنی ڈائری لکھی جو 1951 ء میں چھپی ۔ اس کتاب سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ا س دور کا میڈیا بھی دو قومی نظریئے کے زیر اثر تھا ۔ ہندو میڈیا اور مسلم میڈیا اپنی اپنی قومیتوں کی جنگ لڑ رہا تھا اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی انتظامیہ کا اصل کام یہ تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے تھے اس کی بھنک میڈیا کو نہ پہنچے ۔ لیکن پھر بھی انہیں میڈیا کی جانب سے بعض اوقات سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔مثال کے طور پر 5مئی 1947ء کی ڈائری میں ایلن کیمبل جانسن لکھتے ہیں کہ ’’ہفتہ کے دن پہلی بار ہندوستانی اخبارات نے لارڈ مائونٹ بیٹن پر شدید حملے کئے ۔خصوصاً ہندوستان ٹائمز کا رویہ جارحانہ ہو گیا ہے ۔ اس میں جو مضمون شائع ہوا ہے ا س کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس کے ایڈیٹر مہاتما کے صاحبزادے دیوداس گاندھی ہیں اور پروپرائیٹر سب سے بڑا سرمایہ دار جی ڈی برلا ہے ۔اخبار نہرو ، پٹیل اور مہاتما کی زبان بولتا ہے مضمون کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ’’ لارڈ مائونٹ بیٹن نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے آج پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ وہ کانگریسیوں اور سکھ لیڈروں کے ساتھ مساوی برتائو نہیں کر رہے ‘‘۔اسی طرح 30اپریل کی ڈائری میں انہوں نے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ڈان نے پشاور کے نامہ نگار کے حوالے سے ایک نہایت ہی غلط خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی ہے’’سرحد کے لیڈروں کی مائونٹ بیٹن سے ملاقات ،مانکی اور قیوم نے پیرول پر رہا ہونے سے انکار کر دیا ،پٹھان مردو زن کا زبردست احتجاجی مظاہرہ ، وائسرائے بذریعہ ہوائی جہاز جمرود گئے ‘‘۔ حقیقت در اصل کچھ اور ہی تھی ۔مائونٹ بیٹن نے مانکی اور قیوم کے ساتھ دو گھنٹے گزارے تھے اور دونوں مسلم لیگ کے وفود کے خاص نمائندے کے طور پر ملے تھے ۔خبر کو دیکھ کر مائونٹ بیٹن کا پہلا رد عمل تھا کہ ا س کے خلاف جناح سے احتجاج کیا جائے ۔لیکن میں نے انہیں روک دیا کہ میں ایڈیٹر سے بات کر لوں گا ۔ اس نامہ نگار کی تخیل ِپرواز کا واقعی قائل ہونا پڑتا ہے اس نے بڑی خوبصورتی سے یہ جانے بغیر کہ جمرود میں کوئی ہوائی اڈہ نہیں ہے گھڑ دیا کہ وائسرائے بذریعہ ہوائی جہاز جمرود گئے ۔ ایلن کیمبل جانسن لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے جناح سے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ اخبار میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے اور ایڈیٹر مکمل آزاد ہے ۔بہرحال آج سے تقریباً75 سال پہلے جب ہندوستان کو آزادی ملی تو ا س میں ایک اہم کردار ہندوستانی میڈیا کا بھی تھا جس نے کم و بیش سو سال کے عرصے میں اتنی آزادی ضرور حاصل کر لی تھی کہ تاج ا س سے خوف زدہ ہو چکا تھا ۔ تاہم زیادہ تر صحافی فری لانسر کے طور پر کام کرتے تھے اس لئے ہندوستانی میڈیا میں کالم اور مضامین تو تھے مگر خبریت کم کم تھی ۔یہ روش آج آزادی کے 75سال گزرنے کے باوجود بھی برقرار ہے اور اشرافیہ نے میڈیا کو طاقت کے ایک حصے کے طور پر اپنا ہمنوا بنا لیا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ میڈیا میں کوئی خبر آئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں