383

پاکستان میں مذہبی سیاحت کا فروغ، مگر کیسے؟

سجاد اظہر
برٹش بیک پیکس سوسائٹی نے گزشتہ سال پاکستان کوسیاحت کے حوالے سے صف اول کا ملک قرار دیا تھا ۔جہاں دنیا کے بلند وبالا پہاڑوں کے ساتھ کئی تہذیبوں کا ورثہ بھی موجود ہے ۔موجودہ حکومت پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے عزم پر کاربند ہے اور اس حوالے سے کئی ایک اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں جن میں ویزہ پالیسی میں نرمی بھی شامل ہے ۔ورلڈ اکنامل فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں پاکستان میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی 298ملین ڈالر تھی ۔حکومت 2025ء تک اس آمدن کو ایک کھرب روپے تک لے جانا چاہتی ہے جس کے لئے مذہبی سیاحت کا اہم کردار ہو گا جن میں بدھ مت کے مقدس مقامات سے 10ارب اور سکھوں کے مقدس مقامات سے 44ارب روپے کی آمدن متوقع ہے ۔جس سے 35ہزار لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے ۔
پاکستان بدھ مت، ہندو مت اور سکھوں کے مقدس مقامات کی سرزمین ہے۔ سیاحت کے فروغ سے مالی فوائد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تکثیریت کو فروغ ملے گا جس سے سماجی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو بھی ترویج ملے گی۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے اور 179 ممالک کے شہریوں کوآن لائن ویزا کی فراہمی شروع کردی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی ذلفی بخاری کو پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے چیئرمین کی اضافی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ اگرچہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے کافی امکانات ہیں تاہم مناسب انفراسٹرکچر کے فقدان کی وجہ سے فوری نتائج ممکن نہیں ہوں گے۔ تاہم اس کے مقابلے میں مذہبی سیاحت پر توجہ دی جائے تو بہت کم عرصے میں پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آسکتے ہیں۔ کرتار پور کوریڈور کو بھی کھول دیا گیا ہے جہاں انڈیا سے روزانہ چار ہزار سکھ یاتریوں کے آنے کا امکان ہے ۔ اسی طرح اگر راج کٹاس جو ہندؤں کے مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے اگر حکومت ان کے لئے ویزا پالیسیوں میں نرمی لائے تو سالانہ 50 لاکھ ہندو یاتری راج کٹاس آسکتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت پاکستان کرتارپور راہداری طرز پر ہی کشمیری پنڈتوں کے دیرینہ مطالبے پر انہیں آزادکشمیر وادی نیلم میں ان کے متبرک ترین مقام شاردہ تک راہداری فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ شاردہ کشمیری پنڈتوں کے لیے خطے میں تین متبرک ترین مقامات میں شامل ہے۔ انہی میں ایک امرناتھ غار بھی ہے جہاں ہر سال بھارت کے طول وعرض اور دیگر ممالک سے ہندو لاکھوں کی تعداد میں پہنچ کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ کشمیر ی پنڈت امرناتھ کی طرح شاردہ کو ایک ہندو دیوی سے منسوب کرکے اسے اپنے مذہب کا آغاز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ننکانہ صاحب جو بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے وہاں سکھوں کی بڑی تعدا د آسکتی ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں اس وقت ایک کروڑ تیس لاکھ یاتری ہر سال آتے ہیں جبکہ 80 لاکھ سکھ دوسرے ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی پاکستان آکر اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ تخت بھائی اور ٹیکسلا میں بدھ مذہب کے مقدس مقامات ہیں جن کو دیکھنے کے لئے دنیا کے 50 کروڑ بدھ بے تاب ہیں اگر انہیں باآسانی ویزا مل سکے اور انہیں مناسب سہولیات دی جائیں تو جاپان، کوریا اور چین سے بدھ سیاحوں کی قطاریں لگ جائیں۔
پاکستان میں مجموعی طور پر سکھ مذہب کے پیروکار سال میں 4 بارجبکہ ہندو مذہب کے پیروکار سال میں 3 بار پاکستان آتے ہیں۔ نیو دہلی میں پاکستان کا ہائی کمیشن سال میں مجموعی طور پر 8 ہزار 300 یاتریوں کو ویزے جاری کرتا ہے جن میں سے 7500 سکھ یاتری جبکہ 800 ہندو یاتری شامل ہیں۔کرتار پور راہداری کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے ۔
اندازاً ہر سال ایک ارب بیس کروڑ لوگ مذہبی سیاحت کے لئے دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ باقی چھ ارب لوگ کسی نہ کسی صورت میں اپنے ملک کے مقدس مقامات کی زیارت کو جاتے ہیں۔
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کے مطابق عالمی سیاحت سے ہر سال دنیا کی معیشت کو 8 کھرب اسی ارب ڈالر تک فائدہ ہوتا ہے اور اس سے 31 کروڑ ملازمتیں وابستہ ہیں
دنیا میں وہ مقامات جہاں سب سے زیادہ مذہبی سیاحت ہوتی ہے:
1۔میلہ کنبھ (بھارت) دس کروڑ
2۔سباری ملائی (بھارت) تین کروڑ
3۔کربلا (عراق)ڈیڑھ کروڑ
4۔گولڈن ٹیمپل(بھارت) ایک کروڑتیس لاکھ
5۔تری مالا ٹیمپل (بھارت)ایک کڑور
6۔منیلا کا مذہبی تہوار (فلپائن) 80 لاکھ
7۔لورڈز (فرانس) 80 لاکھ
8۔ژوروشلم(اسرائیل)80 لاکھ
9۔بازلیکا (برازیل)66 لاکھ
10۔حج(سعودی عرب) 30 لاکھ
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کے مطابق عالمی سیاحت سے ہر سال دنیا کی معیشت کو 8 کھرب اسی ارب ڈالر تک فائدہ ہوتا ہے اور اس سے 31 کروڑ ملازمتیں وابستہ ہیں۔ صرف امریکہ کے جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ ایک عشاریہ چھ کھرب ڈالر سالانہ ہے۔ جبکہ بھارت سیاحت سے سالانہ 240 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ سعودی عرب 64 ارب ڈالر سالانہ، ترکی 30 ارب ڈالر اور پاکستان صرف پانچ سو ملین ڈالر کماتا ہے۔
پاکستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ دنیا کے 27 بلند ترین پہاڑوں میں سے 13 پاکستان میں ہیں جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین
چوٹی کے ٹو بھی شامل ہے۔ اسی طرح سوات جسے پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے، ملکہ برطانیہ جب پاکستان آئی تھیں تو انہوں نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ سوات پاکستان کا سوئٹزر لینڈ نہیں بلکہ اس سے بھی خوبصورت ہے۔ لیکن دوسری جانب سیاحت کے انفراسڑکچر کا یہ عالم ہے کہ بحرین سے کالام تک 38 کلومیٹر کی سڑک گزشتہ دس سال سے زیر تعمیر ہے اور سیاحوں کو یہ 38 کلومیٹر پار کرنے میں پانچ چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح جھیل سیف الملوک پہنچنے کا راستہ آج تک صرف جیپ ٹریک ہی ہے چہ جائیکہ وہاں پنج ستارہ ہوٹل کھلتے اور دنیا بھر کے سیاحوں کا جمگھٹا ہر وقت لگا رہتا۔
پاکستان میں روایتی سیاحت اور مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں حکومت اگر اس شعبے میں سنجیدگی دکھائے اور انفراسٹرکچر کے ساتھ وہ ماحول بھی فراہم کرے جو سیاحوں کے لئے ضروری ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان صرف اس ایک شعبے سے سالانہ اربوں ڈالر نہ کما سکے۔ سی پیک کے فنکشنل ہونے سے بھی سیاحت کو زبردست فروغ حاصل ہو گا۔ کیونکہ اس وقت چینی سیاح دنیا میں سب سے زیادہ سیاحت کرنے والا اور خرچ کرنے والا سیاح بن چکا ہے۔ صرف چین سے ہی سالانہ کروڑوں سیاح پاکستان آئیں گے۔ گوادر سمیت پاکستان کی ساحلی پٹی کو اگر ڈویلپ کیا جائے تو یہاں بھی بہت سیاح آ سکتے ہیں۔
سیاحت کے فروغ کے لئے حکومت سرمایہ کاروں کو راغب کرے، ویزا پالیسیوں میں نرمی لائے تو یہ آئل سے بھی بڑا جیک پاٹ ہے جو پاکستان کے پاس موجود ہے مگر اسے شاید ابھی اس کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں